پاکستان میں کھیلوں کا تذکرہ ہو تو کرکٹ ہر گفتگو پر حاوی نظر آتی ہے، جب کہ بیس بال جیسا عالمی سطح پر کھیلا جانے والا کھیل مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔ یہ کھیل نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ہمارے نوجوانوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لانے کا بھی ایک ذریعہ بن سکتا ہے—بشرطیکہ اسے مناسب سہولیات اور سرکاری سرپرستی میسر ہو۔
پاکستان بیس بال فیڈریشن کے سیکرٹری سیّد فخر علی شاہ کے مطابق حکومت کی ساری توجہ صرف کرکٹ پر ہے، جب کہ بیس بال جیسے کھیل بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:
“ہمارے پاس نہ گراونڈ ہے، نہ مالی سپورٹ، اور نہ ہی حکومتی توجہ۔ باوجود اس کے کہ پاکستان کی بیس بال ٹیم نے متعدد بین الاقوامی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔”
پاکستان اس وقت عالمی بیس بال رینکنگ میں 27ویں نمبر پر موجود ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محدود وسائل کے باوجود کھلاڑیوں نے بھرپور محنت سے اپنی جگہ بنائی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
باکسنگ کی رانی عالیہ کی دکھ بھری کہانی
آسماں در آسماں: فنکاروں کی کہانیاں جو تقسیم کی لہرکا شکار ہوئے
کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟
خواتین وِنگ کی سیکرٹری عائشہ ارم اور سندھ بیس بال کے سیکرٹری پرویز شیخ نے بھی شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی خواتین کی ٹیم نے ایشیا کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے، مگر
“ہمارے پاس نہ اسپانسر ہے، نہ ٹریننگ کے لیے گراونڈ، نہ کیمپ لگانے کے وسائل۔”
ان کے مطابق اگر یہ ٹیم مردوں کی کرکٹ ٹیم ہوتی تو حکومت اور اسپانسرز کی لائن لگی ہوتی۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اس کھیل میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے پاس صلاحیت تو ہے، جذبہ بھی ہے، مگر نہ پریکٹس کے لیے جگہ ہے، نہ مالی معاونت۔ ہر سال درجنوں نوجوان کھیل کو خیر باد کہہ دیتے ہیں کیونکہ آگے کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر کھیلوں، خصوصاً بیس بال، کو بھی سنجیدگی سے لے۔ اگر بیس بال فیڈریشن کو بنیادی سہولیات، گراونڈز، کیمپس اور اسپانسر شپ دی جائے تو پاکستان جلد ہی دنیا کی ٹاپ ٹیموں میں شامل ہو سکتا ہے۔