خواتین کی پروفیشنل باکسنگ میں پاکستان کا نام بلند کرنے والی عالیہ سومرو ایک ایسا نام ہے جو محض رنگ کے اندر نہیں بلکہ رنگ سے باہر بھی جدوجہد کی علامت ہے۔ حال ہی میں تھائی لینڈ کے ورلڈ سائنس اسٹیڈیم میں منعقدہ فائٹ میں انہوں نے تھائی باکسر سوتھیڈا گنایانوچ کو چوتھے راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر کے کامیابی اپنے نام کی۔ یہ فائٹ ڈبلیو بی اے ایشیا کے 105 پاؤنڈ کی کیٹیگری میں ہوئی، جہاں عالیہ کی کامیابی صرف ایک تکنیکی جیت نہیں بلکہ پاکستان کی نمائندگی اور حوصلے کی جیت تھی۔
عالیہ کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری کے مشہور محلے کلاکوٹ سے ہے۔ یہ علاقہ کئی دہائیوں سے باکسنگ کا مرکز رہا ہے، جہاں گلی گلی میں باکسنگ بیگ لٹکے ہوتے تھے، اور بچے بڑے چیمپئن بننے کے خواب لیے ہاتھوں پر دستانے چڑھاتے تھے۔ ایسے ہی خواب ایک بچی نے بھی دیکھے، جس کا نام آج عالیہ سومرو ہے۔
ہم نے عالیہ سومرو سے اس بڑی کامیابی کے بعد گفتگو کی، تو جہاں ان کی آواز میں فخر اور خوشی تھی، وہیں ایک گہرا دکھ، ایک تلخی، اور ایک شکایت بھی واضح تھی۔ انہوں نے بتایا کہ:
“مجھے پہلے انڈر-17 انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ کے لیے منتخب کرنے کی بات کی گئی۔ فیڈریشن کی طرف سے کہا گیا کہ دو مہینے پہلے پاسپورٹ تیار کرو، میں نے مکمل تیاری کی، دن رات پریکٹس کی، امید باندھی… لیکن پھر مجھے چھوڑ دیا گیا۔ نہ کوئی کال، نہ اطلاع۔ جیسے میں تھی ہی نہیں۔”
یہ جملے سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ محض رنگ میں punches لینا ہی مشکل نہیں، اصل لڑائی تو سسٹم کے خلاف ہے جو اپنے ہیروز کو تیار ہونے کے بعد نظرانداز کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟
پراجیکٹ عمران خان__ بہت مہنگا پڑ رہا ہے
ناقابل یقین کہانیوں میں گھری عطیہ فیضی کی اصل کہانی کیا ہے؟
عالیہ سومرو نے مزید بتایا کہ وہ اب پروفیشنل باکسنگ میں قدم رکھ چکی ہیں، لیکن کوئی سرکاری ادارہ، کوئی فیڈریشن یا حکومتی اسپانسر ان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ خود اپنی اسپانسرشپ تلاش کر رہی ہیں، اپنے اخراجات اٹھا رہی ہیں، اور صرف اپنے عزم اور جنون کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہی ہیں۔
“جب ہم جیتتے ہیں تو دو دن کے لیے خبروں کی زینت بنتے ہیں، سوشل میڈیا پر پوسٹیں آتی ہیں، مبارکبادیں ملتی ہیں، لیکن تیسرا دن آتے ہی سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ نہ پوچھنے والا، نہ سپورٹ کرنے والا۔”
ایک اور اہم پہلو جسے عالیہ نے اجاگر کیا، وہ ان کا معاشی پس منظر تھا۔ وہ کہتی ہیں:
“میں ایک مزدور کی بیٹی ہوں، میرے والد حنیف سومرو نے مجھے بچپن سے باکسنگ کی طرف آنے کی حوصلہ افزائی کی۔ ہم غریب ضرور ہیں، لیکن خواب اونچے دیکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جیسے پسپاندہ علاقوں کے بچوں کو کوئی سرپرستی نہیں دیتا۔”
عالیہ سومرو کی کہانی صرف انفرادی جدوجہد کی داستان نہیں، یہ لیاری کی اُس پکار کی نمائندگی بھی ہے جو دہائیوں سے باکسنگ کے جنون میں زندہ ہے، مگر وسائل کی کمی اور حکومتی بے اعتنائی کے باعث عالمی سطح پر مکمل صلاحیت کے ساتھ ابھر نہیں پایا۔
فی الحال عالیہ اپنے مقامی کوچ، “کنگ میکر استاد محمد یونس کامرانی” کے ساتھ تربیت کر رہی ہیں، جو خود باکسنگ کی دنیا کا بڑا نام ہیں اور کئی کھلاڑیوں کو نکھار چکے ہیں۔ عالیہ کے بقول:
“استاد کامرانی صاحب میری ٹریننگ میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، لیکن ان کے پاس بھی وسائل محدود ہیں۔ باکسنگ صرف گلوز پہن کر مارنے کا کھیل نہیں، اس میں مکمل ڈائٹ، فٹنس، کوچنگ، آرام، سپورٹ سسٹم چاہیے ہوتا ہے جو ہمارے پاس نہیں۔”
عالیہ نے بتایا کہ اگست میں ان کی ایک بڑی چیمپئن شپ ہونے جا رہی ہے، جس میں بھارتی باکسر سے بھی مقابلہ طے ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس ٹورنامنٹ کی اسپانسرشپ کا وعدہ ضرور کیا ہے، لیکن عالیہ کو اب بھی یقین نہیں کہ جو کہا گیا ہے وہ پورا ہوگا یا نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سوال پیدا ہوتا ہے:
ہم اپنے ہیروز سے کیا سلوک کرتے ہیں؟
جب ایک لڑکی ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کر رہی ہے، تو کیا اسے بنیادی ضروریات خود تلاش کرنی چاہییں؟ کیا فیڈریشنز کی ذمہ داری صرف مبارکباد کے بیانات تک محدود ہے؟
عالیہ سومرو کی داستان، نہایت سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم باصلاحیت نوجوانوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ جب تک ادارے سنجیدہ نہیں ہوں گے، اور کھیلوں کو صرف میڈل یا تصویر کی حد تک نہیں بلکہ پلاننگ، سرمایہ کاری اور رہنمائی کے ساتھ سنوارا نہیں جائے گا، تب تک نہ عالیہ جیسے باکسر آگے بڑھیں گے، نہ پاکستان کا اسپورٹس امیج بہتر ہوگا۔
عالیہ کا آخر میں بس یہی کہنا تھا:
“ہمیں وقتی نہیں، مستقل سرپرستی چاہیے۔ ہم صرف باکسر نہیں، ہم قوم کے نمائندے ہیں۔ ہمیں رنگ کے باہر بھی تنہا نہ چھوڑا جائے۔