ایک عام روایت ہے کہ صحت مند تندرست معاشرے کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہاں کے لوگ کھیل کی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ لیتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرتے ہیں ۔وطن پاکستان کو جہاں اسکواش ،کرکٹ،اسنوکر اور دیگر کھیل میں پاکستان کا نام روشن ہوا ہے وہی پاکستان کے قومی کھیل ہاکی نے وطن عزیز کیلیے تمام ٹورنامنٹس اور اولمپکس میڈل اسی کھیل کی بدولت حاصل ہوا اس کھیل نے اپنا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے ٹیم میں جیسے نئی روح سی پھونک دی گئی ہو پاکستان ہاکی ٹیم نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اذلان شاہ کا فائنل کھیلا اور ایشین چمپیئن شپ میں بھی عمدہ کارکردگی پیش کی۔
اسی ٹورنامنٹ کے دوران پاکستان کے نائب کپتان ابو بکر بھارت کیخلاف میچ میں انجرڈ ہوئے انکے گھٹنے میں شدید چوٹ آئی جس کے لیے انہیں سرجری کی تجویز دی گئی ،اس سرجری کیلیے بیرون ملک سرجن سے معاملات طے ہیں اور آپریشن ہوناہےجسکی انجام دہی کے لیے ایک بھاری رقم درکار ہے جس کا وعدہ پی ایچ ایف کے صدر طارق بگٹی صاحب نے بھی کیا جس کے لیے بقول بگٹی صاحب انہوں نے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کو بھی آگاہ کردیا ہے اور وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین جناب رانا مشہود احمد صاحب بھی ابو بکر کی انجری سے آگاہ ہیں بلکہ انہوں نے تو ویڈیو کال پر رابط بھی کیا اور علاج کا وعدہ بھی کیا مگر ابھی تک پاکستان ہاکی ٹیم کا نائب کپتان نے طفل تسلیوں پر ہی تکیہ کیا ہوا ہے۔ ابتک کچھ ہوتے ہوے دکھائی نہیں دے رہا ۔
یہ بھی پڑھئے:
منحصر’’ڈونلڈ‘‘ پہ ہو جس کی امید
ایک معزز جج کی خودنوشت کا ایک ورق
ایک جماندرو مزاح نگار کا سفر نامہ حج
اسلام آباد میاں نواز شریف کا منتظر کیوں ہے؟
پروگرام میں گفتگو کے دوران ابو بکر نے بڑے مرجھائے ہوے دل کیساتھ کہا کہ جو انجری کا شکار میں ہوں اور ابتک علاج کے لیے رقم کا متلاشی ہوں یہی گھٹنے کی انجری پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو بھی ہوئی تھی مگر اس کھلاڑی کا فلفور بیرون ملک سرجری کرائی گئی اور آج وہ ٹیم میں ہے اور نمائندگی کر رہا ہے ۔ابو بکر کا کہنا تھا کہ کیا میں پاکستانی کھلاڑی نہیں کیا میرا بھی حق نہیں ہے صحتیاب ہو کر ملک کی خدمت کروں یقین مانیں ابو بکر کے اس سوال نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ واقعی کرکٹ کے علاؤہ ہم سب نے دیگر کھیلوں خاص کر ہاکی کو سوتیلے پن کا مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے جسے بند ہونا چاہیے ہر کھلاڑی کو برابری کی بنیاد پر برتاؤ کرنا ہو گا
مگر ہمارے یہاں صرف چڑھتے سورج کو پوجا جا رہا ہے معزرت کیساتھ چاہے عوام ہوں یا حکومت ہم سب قصوروار ہیں جب ایک کھلاڑی کے مشکل وقت میں آپ ساتھ نہیں دے سکتے تو اس سے توقع رکھنا بھی زیادتی ہے ۔ابوبکر اپنی فٹنس کو لیکر اس لیے پریشان ہے کہ آگے ورلڈکپ کوالیفائنگ ٹورنامنٹ ہے اور اس سے قبل ابو بکر کا فٹ ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ایسا تو نہیں کہ حکومت کے پاس اتنی رقم نہ ہو کیونکہ ارشد ندیم پر جو انعام واکرام کی برسات ہوئی ہے سب نے دیکھا اور حال ہی میں شاہزیب رند کو صدر مملکت کی جانب سےسنگاپور میں منعقدہ کراٹے کومبیٹ چمپئن شپ جیتنے پر دس کروڑ کا چیک شاہزیب کو بطور انعام دیا گیا اس کا مطلب قطعی یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نوازشات نہ کی جائیں ضرور کریں جتنی حوصلہ افزائی ہو اچھا ہے مگر جن کھلاڑیوں کو ضرورت ہے انکو بھی تو دیکھا جاے ۔صدر محترم آصف علی زرداری صاحب جہاں دس کروڑ کا چیک دے سکتے ہیں وہی ابو بکر کے علاج کے لیے بھی حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا ورنہ کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری رہا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کھیل تو ہوں پر اس کو کھیلنے والے کھلاڑیوں کا قحط پڑ جائے ۔پیرااولمپکس میں ڈسکس تھرو میں برونز میڈل جیتنے والے حیدر علی عدم پذیرائی کے باعث دل گرفتاں ہے خیر حیدر علی کا ذکر اگلے کالم میں کرینگے ابھی تو فقط حکومت ،فیڈریشن،پی ایس بی سے یہی التجا ہوگی کے خدارا جو کھلاڑی ابوبکر جیسے پلیئر ملک و قوم کے لیے جان مارتے ہیں اور اس جدوجہد میں ہی ابو بکر زخمی ہوا اور آج آپکی امداد اور حوصلے کا متمنی ہے خدارا اس کھلاڑی کا حوصلہ نہ توڑیں بلکہ حوصلہ بڑھائیں