ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر تمام ہوا، دینے والے اس وقت پر ماضی کی ایک یاد آتی ہے۔ سال دو ہزار دس پاکستان کے لیے کھیل کے حوالے سے انتہائی تلخ اور خوشگوار لمحات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پہلے ذکر ہو جاے اس تلخ سانحہ کا یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ تاریخ ہے چھبیس اگست مقام ہے لارڈز کا گراؤنڈ ۔ پاکستان بمقابلہ انگلینڈ یہاں کس کو پتہ تھا کہ پچیس کروڑ پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوے پاکستانی بالر عامر اپنے کرکٹ کیرئیر میں وہ غلطی کر جائینگے جس سے نا صرف ملک کا وقار مجروح ہو گا بلکہ پوری قوم کی دل شکنی ہو گی اور عالمی سطح پر ہر پاکستانی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔
.جی ہاں یہاں بات عامر کی میچ فکسنگ کی ہو رہی ہے جہاں عامر نوجوانی میں سنگین غلطی اور اگر عدالتی زبان میں کہیں تو جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میچ میں جان بوجھ کر عامر نو بال کرتے ہیں جس پر کپتان سلمان بٹ اور آصف بھی ملوث پائے جاتے ہیں .یہ اسکینڈل پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ کا بد ترین اور سیاہ دن کے طور پر آج بھی یاد ہے۔ جسے کوئی محب وطن کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس کے بعد تمام پاکستانیوں کو ناصرف کرکٹ بلکہ ہر سطح پر شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان میں نظریاتی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات
پاکستان میں فٹ بال جیت گیا، کرکٹ ہار گئی
یہ کیس کافی عرصے چلتا رہا اس دوران عامر ،اصف اور سلمان بٹ ٹی وی پر آکر اپنی صفائی پیش کرتے رہے۔ عامر نے تو مارننگ شو پر آکر میزبان فرح سے یہ تک کہا کہ اللہ جانتا ہے کے وہ بے قصور ہیں۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ تینوں نے اپنا جرم قبول کیا اور پوری قوم کو شرمسار کردیا۔ مگر اسی سن دو ہزار دس میں پاکستان کا ایک نوجوان دنیاے ٹینس کے بڑے ٹورنامنٹ گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ یو ایس اوپن کے ڈبل فائنل میں بھارتی کھلاڑی روہن بوپنا کے ہمراہ فائنل تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس پاکستان کے سپوت کا نام ہے اعصام الحق قریشی جو فائنل تو ہار جاتے ہیں پر وہاں موجود شرکاء اور تمام دنیا کا دل اس وقت جیت جاتے ہیں۔
فائنل کے بعد اسپیچ میں اعصام الحق کہتے ہیں کہ انہیں فخر ہے کہ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے مسلم پاکستانی ہیں جنہوں نے یہاں تک کا سفر طے کیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ رکھتے ہیں کہ پاکستانی امن پسند اور محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ایک ہی سال مگر جہاں عامر، سلمان اور آصف ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، وہیں اعصام الحق قریشی جیسے ایماندار اپنے وطن عزیز سے مخلص کھلاڑی بھی ہیں جنہوں نے اپنے مثبت طرزِ عمل سے پوری دنیا کو باور کرایا کہ ہاتھ کی تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ مگر اس پر ستم ظریفی یہ کہ وہ کھلاڑی جس کی غلطی یا جرم کی وجہ سے ملک و قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا فقط ایک معافی کے عوض اس کو دوبارہ ٹیم کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ سلام ہے اس وقت کے کھلاڑی محمد حفیظ پر جو واحد کھلاڑی تھے جنہوں نے ٹیم میں بورڈ کے اس فیصلے کیخلاف علم بغاوت بلند کیا مگر انکو بورڈ کی جانب سے شٹ اپ کال دی جاتی ہے اور یہ وضاحت دی جاتی ہے کہ عامر نے معافی تو مانگ لی ہے . شاید حکام بالا کو یہ پتہ نہیں کہ پکڑے جانے کے بعد معافی ہی مانگ کر جان چھڑائی جاتی ہے اس علاوہ چارہ ہی کیا ہے .
اس کی وجہ یہی ہے کہ کرپشن کو ہمارے معاشرے میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا ورنہ صرف حفیظ نہیں تمام پاکستانیوں کو سراپا احتجاج ہونا چاہیے تھا نہ صرف یہ بلکہ سوشل بائکاٹ ہونا چاہیے تھا ۔ مگر افسوس کہ عامر کو دوبارہ ٹیم میں واپس لیا جاتا ہے اور تو اور ریٹائرمنٹ واپس دلواکر دو ہزار چوبیس ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کا حصہ بھی بنا لیا گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کے آزماے ہوے کو دوبارہ نہیں آزمانا چاہیے۔ جب تک ہمارے معاشرے میں کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس نہیں ہوگی تب تک اعصام الحق قریشی جیسے ایماندار کھلاڑی کی جگہ عامر جیسےداغدار کھلاڑی ہی ہماری توجہ کا مرکز رہینگے۔ ہمیں اس روش کو ترک کرنا ہوگا ورنہ ہمارا کچھ ہونے والا نہیں۔ اعصام الحق جیسے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ورنہ پھر خدا نہ کرے کے لارڈز ٹیسٹ جیسا واقع رونما نہ ہو.
دیکھا جاے تو رواں ورلڈ کپ میں امریکہ کے خلاف سپر اوور میں عامر کی وائیڈ بالیں کرانا اور اٹھارہ رنز دینا ماضی میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ خیر اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں ۔ مگر آج نہیں تو کل یہ تذکرہ ہو بھی سکتا ہے ۔ خیر اب پاکستان کا سفر بھی ورلڈ کپ ٹی ٹوئینٹی میں اختتام کو پہنچا۔ اس خطرہ سے آپ کو پچھلے کالم میں آگاہ کیا تھا . اب چیئرمین صاحب آپریشن کی تیاریوں میں ہیں مگر یہاں کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں آرہے ہیں .
عماد اور عامر کو گھر سے بابر نے نہیں آپ نے بلوایا . وہاب صاحب چیرمین سیلیکشن کمیٹی آپ نے بنوایا تمام فیصلے آپ نے لیے ،کپتان کی ذمہ داری آپ نے دی ،ٹیم سیلیکشن کی ذمہ داری آپ کی ٹیم نے سر انجام دی . اور آپریشن پھر کس کیخلاف ہونا چاہیے اس کا فیصلہ آپ ہی کریں . اور آخر میں یہ کہ ورلڈکپ جیتنے پر ہر کھلاڑی کو ایک ایک لاکھ ڈالرز بطور انعام کا اعلان کیا گیا آپ کی جانب سے ،اس طرح کی بدترین پرفارمینس پر جرمانہ عائد کرنے کا بھی اعلان کر دیتے تو شاید اس قوم کا غصہ کسی حد تک کم ہو جاتا مگر ہم سب کو پتہ ہے بابر کو ہی بلی کا بکرا بننا ہو گا اللہ کرے کہ یہ آپریشن پاکستان کرکٹ کے لیے مفید ثابت ہو ۔پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ،،امید پر دنیا قائم ہے ۔