نام تو ان کا وکیل تھا لیکن خوش قسمتی ہی کہیے کہ وہ وکالت کے شعبے سے وابستہ نہیں تھے ‘ ورنہ جس شعبے کے وہ ماہر تھے نجانے عدالت میں ہوتے تو توہین عدالت کے نوٹس کا خود کئی بار سامنا کرچکے ہوتے۔ عین ممکن ہے کہ موصوف کا لائسنس بھی معطل ہوجاتا۔ ایسا کیوں تو جناب؟وہ اس لیے کیونکہ موصوف ایک ہی سانس میں ایسی ایسی گالیوں کی بوچھاڑ کرتے کہ ہم جیسے گالیوں کے’طفل مکتب ‘ خوب فیض یاب ہوتے۔
وکیل انکل کا پسندیدہ شعبہ بھی غالباً مغلضات فرمانا ہی تھا۔ اس قدر جدید انداز کی گالیاں ہوتیں کہ کئی بار دل میں یہ خیال آیا کہ اگر وہ گالیوں پر ہی کتاب لکھیں تو کم از کم اس ’فن‘ میں نوآموز طالب علموں کا کتنا بھلا ہو جائے۔ نجانے کہاں سے کس طرح ان کے پاس گالیوں کا ’اسٹاک‘ ہوتا کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا۔ مہذب اور باشعور گھرانے کے بزرگ تو بچوں کو تاکید کرتے کہ وکیل انکل ’سماجی فاصلہ‘ اختیار کریں لیکن کچھ کیا کئی من چلے تو جان بوجھ کر ان کے آس پاس تتلیوں کی طرح منڈلاتے اور ان کی گالیاں سن کر سمجھیں اپنی روح کو تازگی کا احساس دلاتے۔ ایک جملے میں کوئی پانچ سے چھ گالیوں کا فن آج تک ہم نے کسی اور کے پاس نہیں دیکھا جو وکیل انکل کا خاصہ تھا۔
سرکاری محکمے میں ملازم تھے، کب جاتے تھے اس کا تو علم نہیں، البتہ ہر وقت گھر میں دستیاب ملتے۔ لائٹ چلی جائے تو گھر سے کرسی باہر نکال کر بیٹھ جاتے‘ دستی پنکھا ہوتا اور پھر منہ سے ایسے پھول جھڑتے کہ راہ گیر خواتین کا سامنے سے گزرنا محال ہوجاتا۔ مائیں بچوں کے کانوں میں انگلیوں ڈال کر گھروں کی راہ پکڑتیں۔ آپس کی بات ہے‘ ایسے مواقع پر ہم محض تفریح کے لیے ان کے پاس ہوتے۔ وہ بھی یہ سوچ کر بہتی گنگا سے کچھ تو ہاتھ دھو لیے جائیں۔ ان کے ذریعے ہی ہمیں کئی بار ’ بے جان‘ چیزوں کے رشتے داروں کا بھی پتا چلا‘ جن کو یاد کرکے وہ مغلضات کی بھرمار کرتے۔
محلے میں بزرگ جب اکٹھے ہوتے تو کوئی بھی انہیں اپنی اس محفل میں شامل کرنا پسند نہ کرتا۔ ایک دو بار جب وہ ’گھس بیٹھیوں‘ کی طرح اس بیٹھک میں جادھمکے تو سمجھ دار اس نوعیت کی ملاقات اور مقام بدلتے رہتے۔ اب کہنے والے کہتے ہیں ایک بار انہوں نے محلہ کمیٹی کے صدر کو گرما گرم بحث کے دوران گالیوں کی ترجمانی میں یہ گوش گزار کردیا تھا کہ وہ ان کی ہمشیرہ اور بھائی کے ساتھ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ بات یہاں تک تو سنبھل گئی لیکن جب وکیل انکل مردوں کی بحث میں صدر صاحب کی والدہ محترمہ کو لے آئے تو ان کا بھی پارہ ایسے بلند ہوا جیسے آج کل اپوزیشن کے تذکرے پر کچھ وزرا کا ہوجاتا ہے۔ نوبت گریبان تک پہنچی اور تبھی وکیل انکل نے باآواز بلند اُس محفل کو اور شرکا کو اُن الفاظ میں یاد کیا کہ یہاں ناقابل بیان ہے۔
ایک دن وہ انتہائی طیش میں نظر آئے۔ کوئی شام چار بجے کا وقت ہوگا‘ ان اوقات میں وہ گھر سے ذرا باہر کم ہی نکلتے لیکن اُس روز کرسی پر براجمان ہو کر وہ بڑبڑائے جارہے تھے۔ ہم قریب سے گزرے تو ان کی بڑبڑ اہٹ کچھ بلند ہونا شروع ہوئی۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ دفتر والوں نے دو دن کی تن خواہ کاٹ لی ہے جس پر سب سے پہلے انہوں نے چھٹی بنانے والوں کی شامت لی۔ پھر دفتر کی‘ پھر افسر کی اور پھر اپنی نوکری کو وہ وہ نت نئی گالیوں سے نواز ا‘ جو واقعی تاریخ میں رقم کرنے کے مترادف ہوں گی۔
کم بختی یہ ہوگئی کہ جیب میں سپاری کھانے کے لیے ہاتھ ڈالا تو خالی تھیلی نکلی۔ اب ان کی توپوں کا رخ سپاری بنانے والوں یہاں تک کہ جو غریب تھیلی میں سپاری ڈالتے ہوں گے ان کے رشتے داروں کو کم چھالیہ بھرنے کی پاداش میں یاد کرکر کے ان کے ’غائبانہ چودہ طبق‘ روشن کردیے۔ ہم نے ازرہ ہمدردی سپاری لانے کی پیش کش کی تو یہاں سے شروع ہوا اُن کے ’زرمبادلہ‘ کے ذرائع کم ہونے کا رونا۔ جبھی ان کی گالیوں کی سوئی پھر جا کر اپنی نوکری اور تنخواہ کی کٹوتی پر اٹک گئی۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہی تھی کہ وکیل انکل کے گھر کا پچھلا دروازہ اُس میدان کی طرف کھلتا‘ جہاں ہم سارے لڑکے کرکٹ کھیلا کرتے۔ موصوف کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور کھیل کا بغور نظارہ کرتے۔ ہم لڑکوں کو اس بات کی خوشی ہوتی کہ چلیں کم از کم ایک شخص تو ہے جو ہماری کرکٹ کا پرستار ہے۔ باؤنڈری کے پاس ان کا گھر تھا۔ اب یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ ہم کبھی اس پوزیشن پر فیلڈ نہیں کرپائے۔ ایک دن جب بیشتر لڑکوں نے اس فیلڈ پر کھڑے ہونے سے انکار کردیا تو بحالت مجبوری کپتان ہونے کے باوجود اس بغاوت کو سہتے ہوئے ہم نے اتنی دور جا کر پوزیشن سنبھال لی۔ اب ہماری بیک سائیڈ پر وکیل انکل کرسی پر بیٹھے تھے اور جب کوئی بالر چھکا یا چوکا کھاتا یا پھر فیلڈر‘ مس فیلڈنگ کرتا تو اس کو وہیں بیٹھ کر وہ وہ گالیاں دیں کہ اگر متعلقہ لڑکا سن لے تو خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ اُس روز اندازہ ہوا کہ وکیل انکل نجانے کتنے برسوں سے ہمارے رشتے داروں پر بھی گولہ باری کرتے رہے ہوں گے۔ کیونکہ بالنگ میں تو ہم بھی کوئی اچھے نہیں تھے۔ احساس تو یہ بھی ہوا کہ کسی رشتے دار کی ’سلامتی‘ اچھی بالنگ اور فیلڈنگ سے ہی مشروط ہے۔
وکیل انکل کرکٹ اور ہاکی کے بڑے دیوانے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان ان دونوں کھیلوں میں خوب ڈنکا بجا رہا تھا۔ بدقسمتی سے کوئی ایک میچ ٹیم ہار جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کھلاڑیوں کے رشتوں کا نام لے لے کر وہ کیا غضب ڈھاتے ہوں گے۔ پرانا سا ٹرانسٹیٹر تھا۔ جس میں چھوٹے نہیں بڑے والے سیل لگتے۔ جو جب کمزور پڑجاتے یا پھر یہ کہہ لیں کہ انہیں وکیل انکل کی ’جلترنگ کرتی گالیاں‘ سننے کا موڈ ہوتا تو کام کرنا چھوڑ دیتے۔ جس پر وکیل انکل‘ انہیں دھوپ میں پھر سے تروتازہ ہونے کے لیے چھوڑ دیتے۔ سیل دوبارہ لگانے کے باوجود نہ چلتے تو سیل کے ساتھ ساتھ ایک صدی پہلے قبر میں لیٹے ہوئے مارکونی کی روح تک کو تڑپا دیتے۔
بسا اوقات ہم یہ سوچتے کہ وکیل انکل جب گھر کے اندر ہوتے ہوں گے تو آنٹی بے چاری کس کرب اور کیفیت سے دوچارہوتی ہوں گی ۔ اولاد ان کی کوئی تھی نہیں۔گھر میں تو جیسے گالیوں کی بہار آتی ہوگی۔ ہمارا اشتیاق اور تجسس دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا۔ نانا کی برسی کی بریانی اماں سے ضد کرکے وکیل انکل کے گھر لے گئے۔ دروازہ آنٹی نے کھولا۔ جنہوں نے شفقت سے ہاتھ سر پر پھیرا اور اندر بلانے کے بعد باورچی خانے کے پاس ہی بٹھا دیا۔ اتنے میں ہمیں وکیل انکل کی کھنکارنے کی آواز آئی تو ہم نے ان کا موڈ بنانے کے لیے باآواز بلند کہا ’وہ باورچی نے مرچیں ذرا تیز کردی ہیں بریانی میں‘۔ آنٹی کچھ بول پاتیں اس سے پہلے وکیل انکل گویا ہوئے ’ارے میاں کیا ہوا‘ انسان ہے، ہو جاتا ہے۔‘ یہ ہمارے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ ایسی مٹھاس اور شیریں لب و لہجہ سماعت سے ٹکرایا کہ آنکھیں کھول کر دیکھا کہ مخاطب کرنے والے وکیل انکل ہی ناں۔
ایسے میں آنٹی بولیں ’تمہارے انکل بھی ناں۔۔ ضرورت سے زیادہ صابر شاکر ہیں۔‘ وکیل انکل نے بریانی کی پلیٹ میں منہ مارتے ہوئے اب کہنا شروع کیا ’کوئی زیادہ نہیں۔ مناسب ہے۔ کیوں بیگم؟‘ آنٹی نے بھی چکھنے کے بعد اثبات میں سرہلایا۔ دونوں کی ڈھیر ساری دعائیں اور اپنی پلیٹ لے کر ہم وکیل انکل کے گھر سے باہر نکلے تو عجیب شش وپنج اور گوں مگوں کی کیفیت سے دوچار تھے۔ اُس کے بعد ہم کئی بار وکیل انکل کے گھر گئے لیکن ہر بار انہیں ویسا ہی پایا۔ ہماری اپنی جب شادی ہوئی تو یہ راز ہم پر اُس وقت کھلا کہ شوہر گھر کے باہر ہی شیر ہوتا ہے۔