Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
یہ راز ہم پر اب کھلا کہ ہمارے حسیب بھائی کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ اتنی ہی تھی جتنی اِن دنوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کو ہے۔ حسیب بھائی کو بھی آتا جاتا کچھ نہیں تھالیکن وہ کرکٹ کے سب سے بڑے کھلاڑی خود کو تصور کرتے تھے۔ یہ او ر بات ہے کہ اظہر علی کے برعکس اگر کوئی ان سے اچھا کھلاڑی ہوتا تو اس کے لیے اپنی قربانی دے ہی دیتے‘ ٹیم پر بوجھ بننے کے بجائے اچھی کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے رسیا تھے ۔ کرکٹ سے تو جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ ٹیلی فون کے محکمے میں کام کرتے اور یہ وہ دور تھا جب کسی کے گھر گراہم بیل کی یہ ایجاد لگ جائے تو سمجھیں اس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوجاتا۔ جس کے گھر میں فون ہوتا تو پورا محلہ یہ نمبر اپنے رشتے دار وں میں ’قربانی کے گوشت‘ کے طرح بانٹ چکا ہوتا۔ دلکش اور یادگار منظر تب ہوتا جب دروازے سے منڈیا نکال کر ’صاحب ٹیلی فون‘ کی خاتون آواز لگاتیں کہ فلاں آجاؤ تمہارا فون آیا ہے۔ خیر حسیب بھائی کے آگے پیچھے جبھی ایک جم غفیر ہوتا جن کے لبوں پر یہی التجا رہتی کہ ’مجھ کو بھی لفٹ کرادے، گھر پر فون لگادے۔‘ یہ اور بات ہے کہ ٹیلی فون کے تار بچھانے کا ’آسرا‘ دے کر اور ’معقول نذرانہ‘ لے کر حسیب بھائی نجانے کس کس کے دل کے کمزور تاروں کو یہ ’شاہی سہولت‘ نہ دے کر ہلا چکے تھے۔اب اس ’اوپر کی کمائی‘ کو شارجہ کے عبدالرحمان بخاطر کی طرح کرکٹ کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے۔ کہیں بھی کوئی ٹورنامنٹ ہو حسیب بھائی وہاں اپنی ٹیم کی انٹری دلوادیتے ۔بے شک سرمایہ ان کا ہوتا‘ لیکن کبھی بھی انہوں نے ’ میری ٹیم میری مرضی‘ کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ کھلاڑیوں کا انتخا ب کپتان پر چھوڑ دیتے۔کسی ہیڈ کوچ کی طرح پسند ناپسند کے تیر نہ چلاتے۔ کئی بار وہ ’جذبہ فتح‘ سے سرشار ہو کر خود کو ٹیم سے ایسے بے دخل کرلیتے جیسے ہمارے یہاں کبھی کبھار کوئی وزیر اپنے ہی محکمے کے معاملات سے۔ یہی نہیں جناب، بعض اوقات تو اپنے کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم تک کے گھر وں کے دروازے کھٹکھٹاتے کہ آجاؤ بھائی میچ ہے۔
حسیب بھائی ٹیم میں شامل ہوتے تو ہمیشہ باؤنڈری کے آس پاس کھڑے ہوتے۔ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ’جونٹی رہوڈز‘ ٹائپ کے فیلڈر تھے بلکہ یہ مہربانی اس لیے تھی کہ اگر دور سے کوئی فون اور رقم کا تقاضہ کرنے والا نظر آجائے تو وہ باؤنڈری سے ہی ’سلپ‘ ہوجائیں۔کئی بار تو ’تھرڈ مین‘ پر فیلڈنگ کرتے ہوئے ہم نے انہیں ’انوسیبل مین‘ ہوتے دیکھا۔ گیند، ٹیپ، بلے کے انتظامات کے علاوہ کھلاڑیوں کے ’لذت کام و دہن‘ کا بھی دل کھول کر خیال رکھتے۔ ۔ ہم جیسے کھلاڑی تو ’مال مفت دل بے رحم‘ کی طرح حسیب بھائی کی جیب کوہلکا ہی کراتے رہتے۔ اُس دور میں ’اسپاٹ اور میچ فکسنگ‘ کے سورج کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ ہوتا تو ہمیں اس بات کا پکا یقین ہے کہ حسیب بھائی خزانے کے منہ مخالف کھلاڑیوں پر کھول کر من پسند نتیجہ بھی نکال لیتے۔دور دراز علاقوں میں نائٹ میچز ہوتے تو آنے جانے کے تمام تر اخراجات حسیب بھائی سہتے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی کہ ہماری ٹیم میں بہترین کھلاڑی تھے جبھی جیت ہمارا مقدر بنتی اور اسی کو ذہن میں رکھ کر حسیب بھائی ٹیم پر ٹیلی فون لگانے کا وہ ’مشاہرہ‘ لٹا دیتے جو ان کی ’اوپر کی آمدنی‘ تھی۔ ٹیم کو جو کپ یا ٹرافی ملتی تو حسیب بھائی اسے اپنے ڈرائنگ روم کے شوکیس میں سجا دیتے۔ جو مہمانوں پر ان کی اچھا کرکٹر ہونے کی دھاک بھی بٹھا دیتے۔کہنے والے کہتے ہیں جب تک وہ ہماری ٹیم کے ’اسپانسر‘ نہیں بنے تو بازار سے دو تین ٹرافیاں خرید کر کمرے کی زینت میں اضافہ کرچکے تھے۔
جاوید میاں داد کے تو دیوانے تھے۔محبت کا اندازہ یوں لگائیں کہ ویسپاکی ایک سائیڈ پر میاں داد کا خوبصورت سا اسٹیکر لگا ہوتا۔ اُس وقت کے سابق آل راؤنڈر اور کپتان سے تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے کہ جہاں دیکھتا ہے کریز پر ’ٹیل اینڈر‘ آگئے، گیند پکڑ کر خود بالنگ کرانے آجاتا ہے۔ ناتجربہ کار وں کو آؤٹ کرکے باقی کھلاڑیوں سے الگ تھلگ ہو کر ایسے ’مغرورانہ پوزز‘ بناتا ہے جیسے ایلن بارڈ، وویون رچرڈ ز یا گواسکر کی وکٹ لی ہو۔ جس دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ ہوتا تو حسیب بھائی ایک روز پہلے ہی نکڑ پر جمگھٹا لگا کر کھڑے ہوجاتے اور خوب تبصرے کرتے۔ کس کو کھلانا ہے اور کسے نہیں یا پھر کس کو کب بالنگ دینی ہے کب بیٹنگ، یہ موجودہ دور کے ٹی وی تجزیہ کار سے زیادہ بہتر انداز میں حسیب بیان بیان کرتے۔میچ والے دن گھر کے کام وکاج کی ہڑتال کردیتے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے۔ ساتھ ہوتی پانی کی بوتل اور گلاس اور میچ کے بگڑتی بنتی صورتحال کے مطابق پانی غٹا غٹ پیتے رہتے۔ خدانخواستہ پاکستان ہار جائے تو میچ کے فوراً بعد گھر سے نکلتے۔ جلالی چہرہ ہوتا‘ آنکھوں میں سمجھیں خون اترا ہوتا۔بال کھڑے ہوتے اور منہ سے جھاگ نکل رہے ہوتے۔ تلاش ہوتی کسی ایسے کی جس کے سامنے بیٹھ کر وہ اس شکست پر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔ ہر کھلاڑی کو وہ وہ مغلضات بکتے کہ اگر وہ سن لے تو بلا پکڑنا ہی چھوڑ دے‘ کارکردگی کھلاڑیوں کی خراب ہوتی لیکن نجانے کیوں ان کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ان کے رشتے داروں تک کو درمیان میں لے آتے۔ اگر کوئی کسی کھلاڑی پر ان سے اختلاف کرے تو اُس کھلاڑی کے نسب تک پہنچنے میں دیر نہ لگاتے۔ یہاں تک کہ وہ اس پر بھی دلائل دیتے کہ منیر حسین اچھے کمنیٹٹر ہیں یا حسن جلیل، انگریزی کمنٹری افتحار احمد کی سننے میں مزا آتا ہے یا چشتی مجاہد یا عمر قریشی کی۔۔۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کرکٹ کا یہ جنونی اپنی ٹیم کے ساتھ انتہائی شفیق رویہ رکھتا۔ کبھی ہار ہوتی تو کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتا۔ کوئی بات نہیں اگلی بار جیتیں گے۔ ایک بار ہم سے نہ رہا گیا دریافت کر ہی لیا کہ آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ ہنستے ہوئے بولے ’ہماری اور پاکستانی ٹیم میں کچھ تو فرق ہے، ہم جیتیں یا ہاریں، کسی کا نہیں میرا جاتا ہے‘ رہ گئی پاکستانی ٹیم تو ہرکوئی ان پر توقعات اور امیدیں کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جو ہار کی صورت میں گھنٹوں میں ڈوبتا تو ہے ہی۔ ساتھ ساتھ ساری ساکھ اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ایسے میں کیا کیفیت ہوگی اندازہ لگا سکتے ہو۔‘
اور پھروقت تیزی کے ساتھ بیت گیا۔جو میدان تھے وہاں شاپنگ پلازہ بنتے گئے۔ گلیاں جو چوڑھی تھیں جہاں کرکٹ میچز ہوتے تھے وہ چائنا کٹنگ اور گاڑیوں کی پارکنگ سے سکڑنے لگیں۔ بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی میں رات میں صبح دفتر کا اور صبح میں شام کا انتظار گھر جانے کے لیے ہونے لگا۔ سب اپنے کام دھندوں میں مگن ہوگئے اور کرکٹ صرف ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کی حد تک رہ گئی۔پھر سب سے بڑھ کر ٹیلی فون لگوانا جان جوکھم کا کام یا کسی شہزادی کی فرمائش نہیں رہا۔ حسیب بھائی بھی صرف تن خواہ پر گزارا کرنے لگے۔ ان سے ملاقات بھی نہیں ہوپاتی۔ سب کچھ ہی بدل گیا ۔ لیکن نہ بدلی تو پاکستانی ٹیم کی روش۔ ایسے میں صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ حسیب بھائی کا‘ کہ ٹیم کی حالت دیکھ کر نجانے اب وہ کس طرح اور کس پر اپنا غصہ نکالتے ہوں گے۔
یہ راز ہم پر اب کھلا کہ ہمارے حسیب بھائی کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ اتنی ہی تھی جتنی اِن دنوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کو ہے۔ حسیب بھائی کو بھی آتا جاتا کچھ نہیں تھالیکن وہ کرکٹ کے سب سے بڑے کھلاڑی خود کو تصور کرتے تھے۔ یہ او ر بات ہے کہ اظہر علی کے برعکس اگر کوئی ان سے اچھا کھلاڑی ہوتا تو اس کے لیے اپنی قربانی دے ہی دیتے‘ ٹیم پر بوجھ بننے کے بجائے اچھی کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے رسیا تھے ۔ کرکٹ سے تو جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ ٹیلی فون کے محکمے میں کام کرتے اور یہ وہ دور تھا جب کسی کے گھر گراہم بیل کی یہ ایجاد لگ جائے تو سمجھیں اس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوجاتا۔ جس کے گھر میں فون ہوتا تو پورا محلہ یہ نمبر اپنے رشتے دار وں میں ’قربانی کے گوشت‘ کے طرح بانٹ چکا ہوتا۔ دلکش اور یادگار منظر تب ہوتا جب دروازے سے منڈیا نکال کر ’صاحب ٹیلی فون‘ کی خاتون آواز لگاتیں کہ فلاں آجاؤ تمہارا فون آیا ہے۔ خیر حسیب بھائی کے آگے پیچھے جبھی ایک جم غفیر ہوتا جن کے لبوں پر یہی التجا رہتی کہ ’مجھ کو بھی لفٹ کرادے، گھر پر فون لگادے۔‘ یہ اور بات ہے کہ ٹیلی فون کے تار بچھانے کا ’آسرا‘ دے کر اور ’معقول نذرانہ‘ لے کر حسیب بھائی نجانے کس کس کے دل کے کمزور تاروں کو یہ ’شاہی سہولت‘ نہ دے کر ہلا چکے تھے۔اب اس ’اوپر کی کمائی‘ کو شارجہ کے عبدالرحمان بخاطر کی طرح کرکٹ کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے۔ کہیں بھی کوئی ٹورنامنٹ ہو حسیب بھائی وہاں اپنی ٹیم کی انٹری دلوادیتے ۔بے شک سرمایہ ان کا ہوتا‘ لیکن کبھی بھی انہوں نے ’ میری ٹیم میری مرضی‘ کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ کھلاڑیوں کا انتخا ب کپتان پر چھوڑ دیتے۔کسی ہیڈ کوچ کی طرح پسند ناپسند کے تیر نہ چلاتے۔ کئی بار وہ ’جذبہ فتح‘ سے سرشار ہو کر خود کو ٹیم سے ایسے بے دخل کرلیتے جیسے ہمارے یہاں کبھی کبھار کوئی وزیر اپنے ہی محکمے کے معاملات سے۔ یہی نہیں جناب، بعض اوقات تو اپنے کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم تک کے گھر وں کے دروازے کھٹکھٹاتے کہ آجاؤ بھائی میچ ہے۔
حسیب بھائی ٹیم میں شامل ہوتے تو ہمیشہ باؤنڈری کے آس پاس کھڑے ہوتے۔ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ’جونٹی رہوڈز‘ ٹائپ کے فیلڈر تھے بلکہ یہ مہربانی اس لیے تھی کہ اگر دور سے کوئی فون اور رقم کا تقاضہ کرنے والا نظر آجائے تو وہ باؤنڈری سے ہی ’سلپ‘ ہوجائیں۔کئی بار تو ’تھرڈ مین‘ پر فیلڈنگ کرتے ہوئے ہم نے انہیں ’انوسیبل مین‘ ہوتے دیکھا۔ گیند، ٹیپ، بلے کے انتظامات کے علاوہ کھلاڑیوں کے ’لذت کام و دہن‘ کا بھی دل کھول کر خیال رکھتے۔ ۔ ہم جیسے کھلاڑی تو ’مال مفت دل بے رحم‘ کی طرح حسیب بھائی کی جیب کوہلکا ہی کراتے رہتے۔ اُس دور میں ’اسپاٹ اور میچ فکسنگ‘ کے سورج کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ ہوتا تو ہمیں اس بات کا پکا یقین ہے کہ حسیب بھائی خزانے کے منہ مخالف کھلاڑیوں پر کھول کر من پسند نتیجہ بھی نکال لیتے۔دور دراز علاقوں میں نائٹ میچز ہوتے تو آنے جانے کے تمام تر اخراجات حسیب بھائی سہتے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی کہ ہماری ٹیم میں بہترین کھلاڑی تھے جبھی جیت ہمارا مقدر بنتی اور اسی کو ذہن میں رکھ کر حسیب بھائی ٹیم پر ٹیلی فون لگانے کا وہ ’مشاہرہ‘ لٹا دیتے جو ان کی ’اوپر کی آمدنی‘ تھی۔ ٹیم کو جو کپ یا ٹرافی ملتی تو حسیب بھائی اسے اپنے ڈرائنگ روم کے شوکیس میں سجا دیتے۔ جو مہمانوں پر ان کی اچھا کرکٹر ہونے کی دھاک بھی بٹھا دیتے۔کہنے والے کہتے ہیں جب تک وہ ہماری ٹیم کے ’اسپانسر‘ نہیں بنے تو بازار سے دو تین ٹرافیاں خرید کر کمرے کی زینت میں اضافہ کرچکے تھے۔
جاوید میاں داد کے تو دیوانے تھے۔محبت کا اندازہ یوں لگائیں کہ ویسپاکی ایک سائیڈ پر میاں داد کا خوبصورت سا اسٹیکر لگا ہوتا۔ اُس وقت کے سابق آل راؤنڈر اور کپتان سے تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے کہ جہاں دیکھتا ہے کریز پر ’ٹیل اینڈر‘ آگئے، گیند پکڑ کر خود بالنگ کرانے آجاتا ہے۔ ناتجربہ کار وں کو آؤٹ کرکے باقی کھلاڑیوں سے الگ تھلگ ہو کر ایسے ’مغرورانہ پوزز‘ بناتا ہے جیسے ایلن بارڈ، وویون رچرڈ ز یا گواسکر کی وکٹ لی ہو۔ جس دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ ہوتا تو حسیب بھائی ایک روز پہلے ہی نکڑ پر جمگھٹا لگا کر کھڑے ہوجاتے اور خوب تبصرے کرتے۔ کس کو کھلانا ہے اور کسے نہیں یا پھر کس کو کب بالنگ دینی ہے کب بیٹنگ، یہ موجودہ دور کے ٹی وی تجزیہ کار سے زیادہ بہتر انداز میں حسیب بیان بیان کرتے۔میچ والے دن گھر کے کام وکاج کی ہڑتال کردیتے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے۔ ساتھ ہوتی پانی کی بوتل اور گلاس اور میچ کے بگڑتی بنتی صورتحال کے مطابق پانی غٹا غٹ پیتے رہتے۔ خدانخواستہ پاکستان ہار جائے تو میچ کے فوراً بعد گھر سے نکلتے۔ جلالی چہرہ ہوتا‘ آنکھوں میں سمجھیں خون اترا ہوتا۔بال کھڑے ہوتے اور منہ سے جھاگ نکل رہے ہوتے۔ تلاش ہوتی کسی ایسے کی جس کے سامنے بیٹھ کر وہ اس شکست پر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔ ہر کھلاڑی کو وہ وہ مغلضات بکتے کہ اگر وہ سن لے تو بلا پکڑنا ہی چھوڑ دے‘ کارکردگی کھلاڑیوں کی خراب ہوتی لیکن نجانے کیوں ان کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ان کے رشتے داروں تک کو درمیان میں لے آتے۔ اگر کوئی کسی کھلاڑی پر ان سے اختلاف کرے تو اُس کھلاڑی کے نسب تک پہنچنے میں دیر نہ لگاتے۔ یہاں تک کہ وہ اس پر بھی دلائل دیتے کہ منیر حسین اچھے کمنیٹٹر ہیں یا حسن جلیل، انگریزی کمنٹری افتحار احمد کی سننے میں مزا آتا ہے یا چشتی مجاہد یا عمر قریشی کی۔۔۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کرکٹ کا یہ جنونی اپنی ٹیم کے ساتھ انتہائی شفیق رویہ رکھتا۔ کبھی ہار ہوتی تو کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتا۔ کوئی بات نہیں اگلی بار جیتیں گے۔ ایک بار ہم سے نہ رہا گیا دریافت کر ہی لیا کہ آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ ہنستے ہوئے بولے ’ہماری اور پاکستانی ٹیم میں کچھ تو فرق ہے، ہم جیتیں یا ہاریں، کسی کا نہیں میرا جاتا ہے‘ رہ گئی پاکستانی ٹیم تو ہرکوئی ان پر توقعات اور امیدیں کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جو ہار کی صورت میں گھنٹوں میں ڈوبتا تو ہے ہی۔ ساتھ ساتھ ساری ساکھ اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ایسے میں کیا کیفیت ہوگی اندازہ لگا سکتے ہو۔‘
اور پھروقت تیزی کے ساتھ بیت گیا۔جو میدان تھے وہاں شاپنگ پلازہ بنتے گئے۔ گلیاں جو چوڑھی تھیں جہاں کرکٹ میچز ہوتے تھے وہ چائنا کٹنگ اور گاڑیوں کی پارکنگ سے سکڑنے لگیں۔ بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی میں رات میں صبح دفتر کا اور صبح میں شام کا انتظار گھر جانے کے لیے ہونے لگا۔ سب اپنے کام دھندوں میں مگن ہوگئے اور کرکٹ صرف ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کی حد تک رہ گئی۔پھر سب سے بڑھ کر ٹیلی فون لگوانا جان جوکھم کا کام یا کسی شہزادی کی فرمائش نہیں رہا۔ حسیب بھائی بھی صرف تن خواہ پر گزارا کرنے لگے۔ ان سے ملاقات بھی نہیں ہوپاتی۔ سب کچھ ہی بدل گیا ۔ لیکن نہ بدلی تو پاکستانی ٹیم کی روش۔ ایسے میں صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ حسیب بھائی کا‘ کہ ٹیم کی حالت دیکھ کر نجانے اب وہ کس طرح اور کس پر اپنا غصہ نکالتے ہوں گے۔
یہ راز ہم پر اب کھلا کہ ہمارے حسیب بھائی کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ اتنی ہی تھی جتنی اِن دنوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کو ہے۔ حسیب بھائی کو بھی آتا جاتا کچھ نہیں تھالیکن وہ کرکٹ کے سب سے بڑے کھلاڑی خود کو تصور کرتے تھے۔ یہ او ر بات ہے کہ اظہر علی کے برعکس اگر کوئی ان سے اچھا کھلاڑی ہوتا تو اس کے لیے اپنی قربانی دے ہی دیتے‘ ٹیم پر بوجھ بننے کے بجائے اچھی کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے رسیا تھے ۔ کرکٹ سے تو جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ ٹیلی فون کے محکمے میں کام کرتے اور یہ وہ دور تھا جب کسی کے گھر گراہم بیل کی یہ ایجاد لگ جائے تو سمجھیں اس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوجاتا۔ جس کے گھر میں فون ہوتا تو پورا محلہ یہ نمبر اپنے رشتے دار وں میں ’قربانی کے گوشت‘ کے طرح بانٹ چکا ہوتا۔ دلکش اور یادگار منظر تب ہوتا جب دروازے سے منڈیا نکال کر ’صاحب ٹیلی فون‘ کی خاتون آواز لگاتیں کہ فلاں آجاؤ تمہارا فون آیا ہے۔ خیر حسیب بھائی کے آگے پیچھے جبھی ایک جم غفیر ہوتا جن کے لبوں پر یہی التجا رہتی کہ ’مجھ کو بھی لفٹ کرادے، گھر پر فون لگادے۔‘ یہ اور بات ہے کہ ٹیلی فون کے تار بچھانے کا ’آسرا‘ دے کر اور ’معقول نذرانہ‘ لے کر حسیب بھائی نجانے کس کس کے دل کے کمزور تاروں کو یہ ’شاہی سہولت‘ نہ دے کر ہلا چکے تھے۔اب اس ’اوپر کی کمائی‘ کو شارجہ کے عبدالرحمان بخاطر کی طرح کرکٹ کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے۔ کہیں بھی کوئی ٹورنامنٹ ہو حسیب بھائی وہاں اپنی ٹیم کی انٹری دلوادیتے ۔بے شک سرمایہ ان کا ہوتا‘ لیکن کبھی بھی انہوں نے ’ میری ٹیم میری مرضی‘ کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ کھلاڑیوں کا انتخا ب کپتان پر چھوڑ دیتے۔کسی ہیڈ کوچ کی طرح پسند ناپسند کے تیر نہ چلاتے۔ کئی بار وہ ’جذبہ فتح‘ سے سرشار ہو کر خود کو ٹیم سے ایسے بے دخل کرلیتے جیسے ہمارے یہاں کبھی کبھار کوئی وزیر اپنے ہی محکمے کے معاملات سے۔ یہی نہیں جناب، بعض اوقات تو اپنے کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم تک کے گھر وں کے دروازے کھٹکھٹاتے کہ آجاؤ بھائی میچ ہے۔
حسیب بھائی ٹیم میں شامل ہوتے تو ہمیشہ باؤنڈری کے آس پاس کھڑے ہوتے۔ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ’جونٹی رہوڈز‘ ٹائپ کے فیلڈر تھے بلکہ یہ مہربانی اس لیے تھی کہ اگر دور سے کوئی فون اور رقم کا تقاضہ کرنے والا نظر آجائے تو وہ باؤنڈری سے ہی ’سلپ‘ ہوجائیں۔کئی بار تو ’تھرڈ مین‘ پر فیلڈنگ کرتے ہوئے ہم نے انہیں ’انوسیبل مین‘ ہوتے دیکھا۔ گیند، ٹیپ، بلے کے انتظامات کے علاوہ کھلاڑیوں کے ’لذت کام و دہن‘ کا بھی دل کھول کر خیال رکھتے۔ ۔ ہم جیسے کھلاڑی تو ’مال مفت دل بے رحم‘ کی طرح حسیب بھائی کی جیب کوہلکا ہی کراتے رہتے۔ اُس دور میں ’اسپاٹ اور میچ فکسنگ‘ کے سورج کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ ہوتا تو ہمیں اس بات کا پکا یقین ہے کہ حسیب بھائی خزانے کے منہ مخالف کھلاڑیوں پر کھول کر من پسند نتیجہ بھی نکال لیتے۔دور دراز علاقوں میں نائٹ میچز ہوتے تو آنے جانے کے تمام تر اخراجات حسیب بھائی سہتے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی کہ ہماری ٹیم میں بہترین کھلاڑی تھے جبھی جیت ہمارا مقدر بنتی اور اسی کو ذہن میں رکھ کر حسیب بھائی ٹیم پر ٹیلی فون لگانے کا وہ ’مشاہرہ‘ لٹا دیتے جو ان کی ’اوپر کی آمدنی‘ تھی۔ ٹیم کو جو کپ یا ٹرافی ملتی تو حسیب بھائی اسے اپنے ڈرائنگ روم کے شوکیس میں سجا دیتے۔ جو مہمانوں پر ان کی اچھا کرکٹر ہونے کی دھاک بھی بٹھا دیتے۔کہنے والے کہتے ہیں جب تک وہ ہماری ٹیم کے ’اسپانسر‘ نہیں بنے تو بازار سے دو تین ٹرافیاں خرید کر کمرے کی زینت میں اضافہ کرچکے تھے۔
جاوید میاں داد کے تو دیوانے تھے۔محبت کا اندازہ یوں لگائیں کہ ویسپاکی ایک سائیڈ پر میاں داد کا خوبصورت سا اسٹیکر لگا ہوتا۔ اُس وقت کے سابق آل راؤنڈر اور کپتان سے تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے کہ جہاں دیکھتا ہے کریز پر ’ٹیل اینڈر‘ آگئے، گیند پکڑ کر خود بالنگ کرانے آجاتا ہے۔ ناتجربہ کار وں کو آؤٹ کرکے باقی کھلاڑیوں سے الگ تھلگ ہو کر ایسے ’مغرورانہ پوزز‘ بناتا ہے جیسے ایلن بارڈ، وویون رچرڈ ز یا گواسکر کی وکٹ لی ہو۔ جس دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ ہوتا تو حسیب بھائی ایک روز پہلے ہی نکڑ پر جمگھٹا لگا کر کھڑے ہوجاتے اور خوب تبصرے کرتے۔ کس کو کھلانا ہے اور کسے نہیں یا پھر کس کو کب بالنگ دینی ہے کب بیٹنگ، یہ موجودہ دور کے ٹی وی تجزیہ کار سے زیادہ بہتر انداز میں حسیب بیان بیان کرتے۔میچ والے دن گھر کے کام وکاج کی ہڑتال کردیتے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے۔ ساتھ ہوتی پانی کی بوتل اور گلاس اور میچ کے بگڑتی بنتی صورتحال کے مطابق پانی غٹا غٹ پیتے رہتے۔ خدانخواستہ پاکستان ہار جائے تو میچ کے فوراً بعد گھر سے نکلتے۔ جلالی چہرہ ہوتا‘ آنکھوں میں سمجھیں خون اترا ہوتا۔بال کھڑے ہوتے اور منہ سے جھاگ نکل رہے ہوتے۔ تلاش ہوتی کسی ایسے کی جس کے سامنے بیٹھ کر وہ اس شکست پر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔ ہر کھلاڑی کو وہ وہ مغلضات بکتے کہ اگر وہ سن لے تو بلا پکڑنا ہی چھوڑ دے‘ کارکردگی کھلاڑیوں کی خراب ہوتی لیکن نجانے کیوں ان کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ان کے رشتے داروں تک کو درمیان میں لے آتے۔ اگر کوئی کسی کھلاڑی پر ان سے اختلاف کرے تو اُس کھلاڑی کے نسب تک پہنچنے میں دیر نہ لگاتے۔ یہاں تک کہ وہ اس پر بھی دلائل دیتے کہ منیر حسین اچھے کمنیٹٹر ہیں یا حسن جلیل، انگریزی کمنٹری افتحار احمد کی سننے میں مزا آتا ہے یا چشتی مجاہد یا عمر قریشی کی۔۔۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کرکٹ کا یہ جنونی اپنی ٹیم کے ساتھ انتہائی شفیق رویہ رکھتا۔ کبھی ہار ہوتی تو کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتا۔ کوئی بات نہیں اگلی بار جیتیں گے۔ ایک بار ہم سے نہ رہا گیا دریافت کر ہی لیا کہ آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ ہنستے ہوئے بولے ’ہماری اور پاکستانی ٹیم میں کچھ تو فرق ہے، ہم جیتیں یا ہاریں، کسی کا نہیں میرا جاتا ہے‘ رہ گئی پاکستانی ٹیم تو ہرکوئی ان پر توقعات اور امیدیں کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جو ہار کی صورت میں گھنٹوں میں ڈوبتا تو ہے ہی۔ ساتھ ساتھ ساری ساکھ اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ایسے میں کیا کیفیت ہوگی اندازہ لگا سکتے ہو۔‘
اور پھروقت تیزی کے ساتھ بیت گیا۔جو میدان تھے وہاں شاپنگ پلازہ بنتے گئے۔ گلیاں جو چوڑھی تھیں جہاں کرکٹ میچز ہوتے تھے وہ چائنا کٹنگ اور گاڑیوں کی پارکنگ سے سکڑنے لگیں۔ بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی میں رات میں صبح دفتر کا اور صبح میں شام کا انتظار گھر جانے کے لیے ہونے لگا۔ سب اپنے کام دھندوں میں مگن ہوگئے اور کرکٹ صرف ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کی حد تک رہ گئی۔پھر سب سے بڑھ کر ٹیلی فون لگوانا جان جوکھم کا کام یا کسی شہزادی کی فرمائش نہیں رہا۔ حسیب بھائی بھی صرف تن خواہ پر گزارا کرنے لگے۔ ان سے ملاقات بھی نہیں ہوپاتی۔ سب کچھ ہی بدل گیا ۔ لیکن نہ بدلی تو پاکستانی ٹیم کی روش۔ ایسے میں صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ حسیب بھائی کا‘ کہ ٹیم کی حالت دیکھ کر نجانے اب وہ کس طرح اور کس پر اپنا غصہ نکالتے ہوں گے۔
یہ راز ہم پر اب کھلا کہ ہمارے حسیب بھائی کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ اتنی ہی تھی جتنی اِن دنوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کو ہے۔ حسیب بھائی کو بھی آتا جاتا کچھ نہیں تھالیکن وہ کرکٹ کے سب سے بڑے کھلاڑی خود کو تصور کرتے تھے۔ یہ او ر بات ہے کہ اظہر علی کے برعکس اگر کوئی ان سے اچھا کھلاڑی ہوتا تو اس کے لیے اپنی قربانی دے ہی دیتے‘ ٹیم پر بوجھ بننے کے بجائے اچھی کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے رسیا تھے ۔ کرکٹ سے تو جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ ٹیلی فون کے محکمے میں کام کرتے اور یہ وہ دور تھا جب کسی کے گھر گراہم بیل کی یہ ایجاد لگ جائے تو سمجھیں اس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوجاتا۔ جس کے گھر میں فون ہوتا تو پورا محلہ یہ نمبر اپنے رشتے دار وں میں ’قربانی کے گوشت‘ کے طرح بانٹ چکا ہوتا۔ دلکش اور یادگار منظر تب ہوتا جب دروازے سے منڈیا نکال کر ’صاحب ٹیلی فون‘ کی خاتون آواز لگاتیں کہ فلاں آجاؤ تمہارا فون آیا ہے۔ خیر حسیب بھائی کے آگے پیچھے جبھی ایک جم غفیر ہوتا جن کے لبوں پر یہی التجا رہتی کہ ’مجھ کو بھی لفٹ کرادے، گھر پر فون لگادے۔‘ یہ اور بات ہے کہ ٹیلی فون کے تار بچھانے کا ’آسرا‘ دے کر اور ’معقول نذرانہ‘ لے کر حسیب بھائی نجانے کس کس کے دل کے کمزور تاروں کو یہ ’شاہی سہولت‘ نہ دے کر ہلا چکے تھے۔اب اس ’اوپر کی کمائی‘ کو شارجہ کے عبدالرحمان بخاطر کی طرح کرکٹ کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے۔ کہیں بھی کوئی ٹورنامنٹ ہو حسیب بھائی وہاں اپنی ٹیم کی انٹری دلوادیتے ۔بے شک سرمایہ ان کا ہوتا‘ لیکن کبھی بھی انہوں نے ’ میری ٹیم میری مرضی‘ کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ کھلاڑیوں کا انتخا ب کپتان پر چھوڑ دیتے۔کسی ہیڈ کوچ کی طرح پسند ناپسند کے تیر نہ چلاتے۔ کئی بار وہ ’جذبہ فتح‘ سے سرشار ہو کر خود کو ٹیم سے ایسے بے دخل کرلیتے جیسے ہمارے یہاں کبھی کبھار کوئی وزیر اپنے ہی محکمے کے معاملات سے۔ یہی نہیں جناب، بعض اوقات تو اپنے کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم تک کے گھر وں کے دروازے کھٹکھٹاتے کہ آجاؤ بھائی میچ ہے۔
حسیب بھائی ٹیم میں شامل ہوتے تو ہمیشہ باؤنڈری کے آس پاس کھڑے ہوتے۔ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ’جونٹی رہوڈز‘ ٹائپ کے فیلڈر تھے بلکہ یہ مہربانی اس لیے تھی کہ اگر دور سے کوئی فون اور رقم کا تقاضہ کرنے والا نظر آجائے تو وہ باؤنڈری سے ہی ’سلپ‘ ہوجائیں۔کئی بار تو ’تھرڈ مین‘ پر فیلڈنگ کرتے ہوئے ہم نے انہیں ’انوسیبل مین‘ ہوتے دیکھا۔ گیند، ٹیپ، بلے کے انتظامات کے علاوہ کھلاڑیوں کے ’لذت کام و دہن‘ کا بھی دل کھول کر خیال رکھتے۔ ۔ ہم جیسے کھلاڑی تو ’مال مفت دل بے رحم‘ کی طرح حسیب بھائی کی جیب کوہلکا ہی کراتے رہتے۔ اُس دور میں ’اسپاٹ اور میچ فکسنگ‘ کے سورج کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ ہوتا تو ہمیں اس بات کا پکا یقین ہے کہ حسیب بھائی خزانے کے منہ مخالف کھلاڑیوں پر کھول کر من پسند نتیجہ بھی نکال لیتے۔دور دراز علاقوں میں نائٹ میچز ہوتے تو آنے جانے کے تمام تر اخراجات حسیب بھائی سہتے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی کہ ہماری ٹیم میں بہترین کھلاڑی تھے جبھی جیت ہمارا مقدر بنتی اور اسی کو ذہن میں رکھ کر حسیب بھائی ٹیم پر ٹیلی فون لگانے کا وہ ’مشاہرہ‘ لٹا دیتے جو ان کی ’اوپر کی آمدنی‘ تھی۔ ٹیم کو جو کپ یا ٹرافی ملتی تو حسیب بھائی اسے اپنے ڈرائنگ روم کے شوکیس میں سجا دیتے۔ جو مہمانوں پر ان کی اچھا کرکٹر ہونے کی دھاک بھی بٹھا دیتے۔کہنے والے کہتے ہیں جب تک وہ ہماری ٹیم کے ’اسپانسر‘ نہیں بنے تو بازار سے دو تین ٹرافیاں خرید کر کمرے کی زینت میں اضافہ کرچکے تھے۔
جاوید میاں داد کے تو دیوانے تھے۔محبت کا اندازہ یوں لگائیں کہ ویسپاکی ایک سائیڈ پر میاں داد کا خوبصورت سا اسٹیکر لگا ہوتا۔ اُس وقت کے سابق آل راؤنڈر اور کپتان سے تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے کہ جہاں دیکھتا ہے کریز پر ’ٹیل اینڈر‘ آگئے، گیند پکڑ کر خود بالنگ کرانے آجاتا ہے۔ ناتجربہ کار وں کو آؤٹ کرکے باقی کھلاڑیوں سے الگ تھلگ ہو کر ایسے ’مغرورانہ پوزز‘ بناتا ہے جیسے ایلن بارڈ، وویون رچرڈ ز یا گواسکر کی وکٹ لی ہو۔ جس دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ ہوتا تو حسیب بھائی ایک روز پہلے ہی نکڑ پر جمگھٹا لگا کر کھڑے ہوجاتے اور خوب تبصرے کرتے۔ کس کو کھلانا ہے اور کسے نہیں یا پھر کس کو کب بالنگ دینی ہے کب بیٹنگ، یہ موجودہ دور کے ٹی وی تجزیہ کار سے زیادہ بہتر انداز میں حسیب بیان بیان کرتے۔میچ والے دن گھر کے کام وکاج کی ہڑتال کردیتے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے۔ ساتھ ہوتی پانی کی بوتل اور گلاس اور میچ کے بگڑتی بنتی صورتحال کے مطابق پانی غٹا غٹ پیتے رہتے۔ خدانخواستہ پاکستان ہار جائے تو میچ کے فوراً بعد گھر سے نکلتے۔ جلالی چہرہ ہوتا‘ آنکھوں میں سمجھیں خون اترا ہوتا۔بال کھڑے ہوتے اور منہ سے جھاگ نکل رہے ہوتے۔ تلاش ہوتی کسی ایسے کی جس کے سامنے بیٹھ کر وہ اس شکست پر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔ ہر کھلاڑی کو وہ وہ مغلضات بکتے کہ اگر وہ سن لے تو بلا پکڑنا ہی چھوڑ دے‘ کارکردگی کھلاڑیوں کی خراب ہوتی لیکن نجانے کیوں ان کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ان کے رشتے داروں تک کو درمیان میں لے آتے۔ اگر کوئی کسی کھلاڑی پر ان سے اختلاف کرے تو اُس کھلاڑی کے نسب تک پہنچنے میں دیر نہ لگاتے۔ یہاں تک کہ وہ اس پر بھی دلائل دیتے کہ منیر حسین اچھے کمنیٹٹر ہیں یا حسن جلیل، انگریزی کمنٹری افتحار احمد کی سننے میں مزا آتا ہے یا چشتی مجاہد یا عمر قریشی کی۔۔۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کرکٹ کا یہ جنونی اپنی ٹیم کے ساتھ انتہائی شفیق رویہ رکھتا۔ کبھی ہار ہوتی تو کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتا۔ کوئی بات نہیں اگلی بار جیتیں گے۔ ایک بار ہم سے نہ رہا گیا دریافت کر ہی لیا کہ آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ ہنستے ہوئے بولے ’ہماری اور پاکستانی ٹیم میں کچھ تو فرق ہے، ہم جیتیں یا ہاریں، کسی کا نہیں میرا جاتا ہے‘ رہ گئی پاکستانی ٹیم تو ہرکوئی ان پر توقعات اور امیدیں کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جو ہار کی صورت میں گھنٹوں میں ڈوبتا تو ہے ہی۔ ساتھ ساتھ ساری ساکھ اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ایسے میں کیا کیفیت ہوگی اندازہ لگا سکتے ہو۔‘
اور پھروقت تیزی کے ساتھ بیت گیا۔جو میدان تھے وہاں شاپنگ پلازہ بنتے گئے۔ گلیاں جو چوڑھی تھیں جہاں کرکٹ میچز ہوتے تھے وہ چائنا کٹنگ اور گاڑیوں کی پارکنگ سے سکڑنے لگیں۔ بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی میں رات میں صبح دفتر کا اور صبح میں شام کا انتظار گھر جانے کے لیے ہونے لگا۔ سب اپنے کام دھندوں میں مگن ہوگئے اور کرکٹ صرف ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کی حد تک رہ گئی۔پھر سب سے بڑھ کر ٹیلی فون لگوانا جان جوکھم کا کام یا کسی شہزادی کی فرمائش نہیں رہا۔ حسیب بھائی بھی صرف تن خواہ پر گزارا کرنے لگے۔ ان سے ملاقات بھی نہیں ہوپاتی۔ سب کچھ ہی بدل گیا ۔ لیکن نہ بدلی تو پاکستانی ٹیم کی روش۔ ایسے میں صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ حسیب بھائی کا‘ کہ ٹیم کی حالت دیکھ کر نجانے اب وہ کس طرح اور کس پر اپنا غصہ نکالتے ہوں گے۔