نام تو ان کا نجانے کیا تھا۔لیکن محلے والے سب’ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب‘ کہہ کر پکارتے۔کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہ دریافت کرسکے کہ آخر وہ ہیں کس مرض کے ڈاکٹر۔ اس کی وجہ ان کا رعب اور دبدبا ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ سبھی ڈرتے تھے کہ کہیں وہ اس پر لمبی کہانی نہ سنا دیں۔ ایسی کہانی جو شیطان کی آنت کی طرح ہو‘ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے ۔ اسی لیے سب خاموشی سے سر جھکا کر انہیں ڈاکٹر صاحب مان گئے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج تک موصوف نے کسی کو ایک نسخہ تک نہیں لکھ کر دیا ہوگا۔ الٹا خود جب بیمار پڑتے تو کھانستے ہوئے ڈاکٹروں کے چکر لگاتے دیکھے گئے۔ برسوں سے محلے میں آباد تھے اور یہ کہا جائے کہ ٹائم پاس تفریح تھے توبھی کچھ غلط نہ ہوگا۔ نکڑ پر بیٹھے رہتے۔ ہاتھ میں کوئی سستا سا سگریٹ ہوتا‘۔جسے گھنٹوں پیتے رہتے۔ وجہ یہ تھی کہ اسے سلگانا بھول جاتے کیونکہ ان کے قصے ہی ختم جو نہیں ہوتے تھے۔ جبھی تو سگریٹ بھی جوں کا توں رہتا۔ ڈاکٹر صاحب سخاوت اور فیاضی میں کسی سے کم نہیں تھے۔ جو ساتھ بیٹھتا یا پھر یوں کہہ لیں کہ ان کے قصوں کی وادیوں میں کھو جاتا۔ اسے بطور ’انعام‘ یا پھر یہ کہیں کہ ’رشوت‘ کے سگریٹ ضرور پیش کرتے۔ اب کہنے والے تو یہ بھی کہتے تھے کہ یہ ان کی چال تھی۔کیونکہ جب تک ان کا ’نمک‘ کش پر کش لگاکر ہوا میں اڑتا رہتا تب تک سامنے والا انہیں سنتا رہتا اور اِدھر سے اُدھر نہ ہوتا۔ وزیراعظم اور صدر سے ان کی جان پہچان نہیں تھی۔ ورنہ شاید ہی کوئی نہ ہوگا جسے ڈاکٹر صاحب نہ جانتے ہوں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ انہیں جانتا ہو کہ نہیں۔ بس ڈاکٹر صاحب تو کم از کم انہیں جانتے تھے۔ ایک قصہ ختم نہیں ہوتا کہ اسی میں سے ایک اور قصہ نکل آتا۔ اور کوئی جسارت کربیٹھے کہ قبلہ پچھلے والے قصے کاکیا ہوا تیوریاں چڑھا کر کہتے: ’میاں چھوڑیں اسے۔۔ وہ بھی کیا ماجرہ تھا۔ یہ سنیں۔“
مخصوص لباس تو جیسے ان کی پہچان تھی۔ سیاہ رنگ کا شلوار قمیض۔ جس پر پسینے نے اتنا قبضہ جمایا کہ اب تو جیسے ان کا ڈیزائن بن گیا تھا مستقل طور پر لباس پر بلکہ کبھی تو کبھی تو ہمیں اقوام عالم کا نقشہ نظر آتا۔ بزرگوں کا دعویٰ ہے کہ اس شلوار قمیض کا ابتدائی رنگ سیاہ ہرگز نہیں تھا۔۔خیر جی کالرز ادھڑ چکے تھے۔ جو چیخ چیخ کر گویا کہہ رہے ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں کس بات کی دے رہے ہیں سزا۔۔۔۔لیکن مجال ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان التجاؤں کو سن لیں۔ کہنے والے کہتے تھے کہ یہ کپڑے بس اب تو پھٹ کر ہی اتریں گے۔ستم یہ بھی تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس ’خوبصورت سے سراپے‘ پر واسکٹ پہنتے اور وہ بھی جناب گرم کپڑے کی اور بھئی اس پر نجانے کس نے ان کو لب سڑک سے خریدے ہوئے کوئی سستے سے عطر لگانے کا مشورہ دے دیا تھا۔ جس کی بدبودماغ کوبھک سے اڑا کر رکھ دے۔ موصوف عطر باقاعدگی سے لگاتے۔ جو دور سے ہی چغلی کردیتی کہ بس یا تو ڈاکٹر صاحب آنے والے ہیں یا گزر چکے ہیں۔ذریعہ معاش چونکہ پرکھوں کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا تھا۔ تو اکثر یہی ’بدبو ‘ کرائے داروں کے لیے ’مسیحا‘ بن جاتی۔ جو گھروں میں ہوتے ہوئے بھی ا کے بیل بجانے سے پہلے اپنے بچوں سے یہ کہہ کر ٹہلا دیتے کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔ پیروں میں دو پٹی کی چپل ہوتی۔ جو مرمت کر کرکے اب اچھی خاصی قابل رحم صورت بنائے بیٹھی تھی۔ جسے دیکھ کر واقعی کمپنی کی ’اعلی سروس‘ کا پکا یقین ہوجاتا۔
آندھی آئے یا طوفان، گرمی ہو یا سردی ڈاکٹر صاحب کے قصے کہانیاں کبھی ختم نہ ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک پرانی پھٹیچر سی موٹر بائیک تھی جسے بائیک کہتے ہوئے دل بہت دکھتا تھا۔ جو چلتی کم تھی اور شور زیادہ مچاتی۔جسے بنانے کے بعد لگتا یہی تھا کہ کمپنی نے اپنی غلطی مانی ہوگی اور اس کے بعد پروڈکشن بند کرکے کوئی اور کاروبار شروع بھی کردیا ہو۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اس ’لاجواب سواری‘ کا مزہ لوٹتے رہے۔ یہاں تک کہ اس اکلوتے شاہکارکا انجر پنجر چلتے وقت خوب بولتا۔ اس پر بیٹھتے ہوئے دھڑکا ہی لگارہتا‘ اب نجانے کون سا اس کا پارٹ دھوکہ دے جائے۔کسی دن ایک بے چارے کی شامت آئی تو موٹر سائیکل پر ہونے والی لوٹ مار کا باب کھول بیٹھے۔
بس جی لگا یہی کہ ڈاکٹر صاحب کو مل گیا موقع۔گویا ہوئے: ”میاں یہ بائیک بھی کیا چیز ہے۔“
”جی ڈاکٹر ذرا بتا ئیں یہ ہے کیا چیز۔خاص کر آپ کی بائیک۔۔“ یہ لقمہ دیا نوید نے اور ہماری طرف آنکھ ماری۔
”ارے۔۔۔تم نے اب چھیڑ دیا ہے تو سنو۔ہم لے کرنکلے تھے کمپیوٹر کی مرہم پٹی کروانے۔ اب بھاری بھرکم کمپیوٹر ہمارے آگے اور ہم گھر کی طرف چل دیے۔۔ راستے میں ایک نوجوان مل گیا۔ ہاتھ کا اشارہ دیا اور لفٹ کی فرمائش کردی۔“
”دور سے دیکھنے پر آپ کی موٹر بائیک گاڑی ہی لگ رہی ہوگی اُسے۔۔“ یہ فرید تھا جس نے ایک اور کاری ضرب ماری۔لیکن ڈاکٹر صاحب اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اپنے قصے پر ڈٹے رہے۔۔
”ہم نے پوچھا جوان کہاں جاؤں گے۔۔بولا کہ نمائش چورنگی۔ بیٹھنے کا کہا تو دیکھا کہ اس کے پاس بھی سی پی یو ہے۔ اب ہم نے یہی کہا کہ تم بیچ میں رکھ لو اپنا کمپیوٹر اور ہمارا تو تھا ہی آگے۔۔ تو جناب اس طرح سفر ہوا شروع۔“
”واہ جناب واہ۔گویا آپ نے اپنی مہارت کی نمائش کردی۔خیر پہنچ گئے پھر وہ بھی آپ کی بائیک پر اور سامان کے ساتھ۔“ اسلم بھلا کہاں چپ رہنے والا تھا
”نمائش پر پہنچ کر ہم نے پوچھا کہ برخودار کہاں روکوں؟؟۔ وہ کہنے لگا کہ بائیں گلی میں لے لیں۔ ہم اس گلی میں آگئے تو بولا دائیں۔ ہم دائیں آگئے۔پھر بولا بائیں۔ بس جی ہم تو جھلا ہی گئے۔ لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔۔“
”ہاں اگر چھوڑتے تو کمپیوٹر نہیں گرجاتا ۔۔۔؟؟؟۔۔۔“ فرید نے بھی لقمہ دے ڈالا۔۔
”اسی طرح وہ گلیاں پر گلیاں گھومتا رہا اور ہمیں گھماتا رہا۔پھر ایک سنسنا ن جگہ پا کر کہنے لگا کہ جو کچھ بھی ہے نکالو ابھی۔ اب تو ہمیں غصہ آہی گیا۔۔ روک دی اچانک موٹر بائیک۔۔“
”تو واقعی وہ رک گئی۔۔۔؟؟۔۔۔“ فرید نے ڈاکٹر کی کھٹارہ موٹر سائیکل پر طنز کا ایک اور گولہ مارا۔۔
ڈاکٹر صاحب نے نشریاتی رابطے میں مسلسل خلل بننے والے فرید کو سگریٹ کی رشوت دی۔ جسے اس نے ’مال غنمیت‘ جان کر دبوچ لیا
”ہم نے کھڑی کی بڑے اسٹینڈ پر بائیک۔ اور اتر کر اس نوجوان سے دریافت کیا تو‘ تو عرفان تالنگے کا بندا ہے۔اب جی ہمارا یہ کہنا تھا کہ اس نوجوان کی گھگھی بندھ گئی۔۔ ہم چپ نہیں رہے۔ بلکہ بولے تو اب عرفان کے لڑکے ہمیں لوٹیں گے۔ میاں وہ لڑکا تو کانپنے لگا۔۔ہم نے پھر غصے سے کہا جا جا کر بول دینا عرفان سے کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضری دے۔برخوددارو! وہ نوجوان تو ہاتھ جوڑے کھڑا ہوگیا۔ لرزہ طاری ہوگیا۔ بولا ڈاکٹر صاحب مجھ سے آج بھول ہوگئی۔ مجھے معاف کردیں۔ گستاخی وہ بھی آپ کے ساتھ۔ توبہ توبہ۔۔۔!!!“
ڈاکٹر صاحب یا تو سانس لینے کے لیے رکے یا پھر آگے قصہ بنانے کے لیے جبھی اسلم بول پڑا :”آپ کی اتنی بات ہے واہ بھئی واہ۔۔“
اب ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر انجانی سی خوشی کی لہر آئی انہوں نے فاتحانہ انداز سے اسلم اور ہماری طرف دیکھا
’پر ڈاکٹر صاحب وہ کمپیوٹر لاد کر کیوں لوٹ رہا تھا، اتنی مشقت کرنے کی اسے کیا ضرورت تھی؟ سیدھا سیدھا خالی ہاتھ ہوکر بھی تو یہ کام کرسکتا تھا‘ ہم نے نقطہ اعتراض اٹھایا، جس پر ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر ناگواری کے آثار آئے لیکن انہوں نے اس سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے قصے کا تسلسل وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا۔
”وہ تو پسینے میں تر بتر ہوگیا۔ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب بس آج کی خطا معاف کردیں۔ آئندہ سے ایسی جرات کسی کے ساتھ نہیں کروں گا۔بھٹکا ہوا تھا راہ راست پر لے آئے آپ۔۔تو میاں ہم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا چل تجھے تیرے گھر چھوڑ دوں۔ تو جمن کا بیٹا ہے ناں۔۔۔بس جی یہ کہنا تھا وہ تو قدموں پر گر گیا۔ بلک بلک کر رونے لگا۔ ہمارا دل بھی پسیج گیا۔ اٹھایا اور بائیک پر بٹھا کر اسے گھر تک چھوڑ کر آئے۔۔“
”واقعی ایسے دونمبریوں کو گھر تک ہی چھوڑ کر آنا چاہیے۔ آئیں ڈاکٹر صاحب میں آپ کی گلی تک ہی جارہا ہوں آپ کو بھی چھوڑ دوں۔“ یہ جہانزیب تھا جو ہماری طرح زیرلب مسکرا رہا تھا اور آخر بول ہی پڑا۔