Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
قربانی کوئی رسم یا روایت نہیں بلکہ ایک عبادت ہے 10 ذی الحج کو دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے نام پر اپنے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے تقریبا ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام بھیجے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہی میں سے ایک ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی عظیم الشان قربانیوں سے اراستہ ہے لیکن سب سے بڑی آزمائش جس میں وہ کامیاب ہوئے وہ یہ ہے کہ حکم خداوندی پر اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔
جب اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم دیاکہ اپنی عزیز ترین متاع لختِ جگر اور نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو میرے نام پر ذبح کر دو تو باپ بیٹے نےتعمیل حکم و اطاعت کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خواب کا بتایا تو فرمانبردار بیٹے نے ایک سوال بھی نہ کیا بلکہ ان کا جواب تھا “ابا جان !جو کچھ حکم اپ کو دیا جا رہا ہے، اسے کر ڈالیے۔ انشاءاللہ !اپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے”
یہ بھی پڑھئے:
محی الدین وانی، یہ جادوگر کہاں سے آیا؟
پاکستان میں نظریاتی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات
پاکستان میں فٹ بال جیت گیا، کرکٹ ہار گئی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیا ۔ چھری تیز کی انکھوں پر پٹی باندھی اور اس وقت تک پوری طاقت سے چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالی کی طرف سے یہ سدا نہ آ گئی ۔
“اے ابراہیم !تو نے خواب سچ کر دکھایا ،ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں “(الصافات: ۱۰۵)
چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسےحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا ۔
اللہ تعالی کواپنے مخلص اور برگزیدہ بندوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کی یہ ادا اتنی پسند ائی کہ اسے قیامت تک کے لیے زندہ کر دیا۔
اسی لیے ذی الحج کے شروع کے10 ایام کی عبادت کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی کے یہاں (ذوالحجہ کے دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کر عظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں)(سورتہ الصفات:۱۰۲) لہذا ان دنوں میں لا الہ الا اللہ ۔اللہ اکبر ۔الحمدللہ کثرت سے پڑھا کرو (مسنداحمد)
قربانی لفظ کے معنی بہت وسیع ہیں اور اس میں بے شمارپوشیدہ پیغام ہیں۔
اللہ تعالی کا قرب ۔رضا و خوشنودی حاصل کرنا ۔تقوی ۔پرہیزگاری ۔اطاعت و فرمانبرداری اور خاص کر ان ایام میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا لیکن ہماری نوجوان نسل قربانی کے اس معنی اور مفہوم سے نا آشنا نظر اتی ہے ہمارے معاشرے میں اطاعت خداوندی کو پشت ڈال کر خود نمائی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں غرض مقابلہ بازی کی ایک فضا ہر جگہ طاری ہے ۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب ہمارے دلوں میں گنجائش بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور سوچنے کے انداز بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں اس موقع پر اکثر لوگوں کو بس ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ جانور کا گوشت کتنا ہے اس کو ڈیفیرزر میں کتنے ماہ تک محفوظ کر کے استعمال کر سکتے ہیں ۔یعنی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر اب کسی پہلو سے اہم ہے تو محض جانور اور ان کے گوشت کے حوالے سے ہے
افسوس لوگ قربانی کے اصل مقصد کو ہی نہیں بھولے بیٹھے بلکہ اس عشرے کی فضیلت سے بھی بے خبر ہیں ان ایام میں خاص عبادت کا اہتمام کرنے کے بجائے رات دن جانوروں کے پاس نوجوانوں کی محفلیں سجتی ہیں کچھ لوڈو کیرم بورڈ کھیل کر ایک دوسرے کو ہرا کر تپا رہے ہوتے ہیں جب کہ محلے کے بزرگ بھی سیاسی بحث و مباحثے میں مشغول نظر اتے ہیں ۔
آج کل ہم سب وہ سارے کام کر رہے ہیں جو اطاعت خداوندی کے مترادف ہے ۔لہذا اس عید قرباں پر اپنی طرز زندگی پر نظر ثانی کریں اور اپنے منفی کردار نمود و نمائش دکھاوا انا پرستی خودغرضی جھوٹ نافرمانی اور تکبر کو بھی قربان کرنے کا عہد کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم قران و حدیث کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
قربانی کوئی رسم یا روایت نہیں بلکہ ایک عبادت ہے 10 ذی الحج کو دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے نام پر اپنے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے تقریبا ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام بھیجے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہی میں سے ایک ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی عظیم الشان قربانیوں سے اراستہ ہے لیکن سب سے بڑی آزمائش جس میں وہ کامیاب ہوئے وہ یہ ہے کہ حکم خداوندی پر اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔
جب اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم دیاکہ اپنی عزیز ترین متاع لختِ جگر اور نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو میرے نام پر ذبح کر دو تو باپ بیٹے نےتعمیل حکم و اطاعت کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خواب کا بتایا تو فرمانبردار بیٹے نے ایک سوال بھی نہ کیا بلکہ ان کا جواب تھا “ابا جان !جو کچھ حکم اپ کو دیا جا رہا ہے، اسے کر ڈالیے۔ انشاءاللہ !اپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے”
یہ بھی پڑھئے:
محی الدین وانی، یہ جادوگر کہاں سے آیا؟
پاکستان میں نظریاتی جماعتوں کی ناکامی کی بنیادی وجوہات
پاکستان میں فٹ بال جیت گیا، کرکٹ ہار گئی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیا ۔ چھری تیز کی انکھوں پر پٹی باندھی اور اس وقت تک پوری طاقت سے چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالی کی طرف سے یہ سدا نہ آ گئی ۔
“اے ابراہیم !تو نے خواب سچ کر دکھایا ،ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں “(الصافات: ۱۰۵)
چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسےحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا ۔
اللہ تعالی کواپنے مخلص اور برگزیدہ بندوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کی یہ ادا اتنی پسند ائی کہ اسے قیامت تک کے لیے زندہ کر دیا۔
اسی لیے ذی الحج کے شروع کے10 ایام کی عبادت کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی کے یہاں (ذوالحجہ کے دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کر عظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں)(سورتہ الصفات:۱۰۲) لہذا ان دنوں میں لا الہ الا اللہ ۔اللہ اکبر ۔الحمدللہ کثرت سے پڑھا کرو (مسنداحمد)
قربانی لفظ کے معنی بہت وسیع ہیں اور اس میں بے شمارپوشیدہ پیغام ہیں۔
اللہ تعالی کا قرب ۔رضا و خوشنودی حاصل کرنا ۔تقوی ۔پرہیزگاری ۔اطاعت و فرمانبرداری اور خاص کر ان ایام میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا لیکن ہماری نوجوان نسل قربانی کے اس معنی اور مفہوم سے نا آشنا نظر اتی ہے ہمارے معاشرے میں اطاعت خداوندی کو پشت ڈال کر خود نمائی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں غرض مقابلہ بازی کی ایک فضا ہر جگہ طاری ہے ۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب ہمارے دلوں میں گنجائش بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور سوچنے کے انداز بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں اس موقع پر اکثر لوگوں کو بس ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ جانور کا گوشت کتنا ہے اس کو ڈیفیرزر میں کتنے ماہ تک محفوظ کر کے استعمال کر سکتے ہیں ۔یعنی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر اب کسی پہلو سے اہم ہے تو محض جانور اور ان کے گوشت کے حوالے سے ہے
افسوس لوگ قربانی کے اصل مقصد کو ہی نہیں بھولے بیٹھے بلکہ اس عشرے کی فضیلت سے بھی بے خبر ہیں ان ایام میں خاص عبادت کا اہتمام کرنے کے بجائے رات دن جانوروں کے پاس نوجوانوں کی محفلیں سجتی ہیں کچھ لوڈو کیرم بورڈ کھیل کر ایک دوسرے کو ہرا کر تپا رہے ہوتے ہیں جب کہ محلے کے بزرگ بھی سیاسی بحث و مباحثے میں مشغول نظر اتے ہیں ۔
آج کل ہم سب وہ سارے کام کر رہے ہیں جو اطاعت خداوندی کے مترادف ہے ۔لہذا اس عید قرباں پر اپنی طرز زندگی پر نظر ثانی کریں اور اپنے منفی کردار نمود و نمائش دکھاوا انا پرستی خودغرضی جھوٹ نافرمانی اور تکبر کو بھی قربان کرنے کا عہد کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم قران و حدیث کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔