یہ تصویر نہیں ہے یہ غیر آئینی و غیر جمہوری عمل ایک Mindset کا نتیجہ ہے جو صرف 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کی صورت میں نہی ہوا بلکہ یہ کبھی 8 اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان کے مارشل لا کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی وہی آمر جنرل ایوب خان اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو پامال کرتے ہوئے 1968 میں حکومت ایک دوسرے مدہوش آمر جنرل یحیی خان کے حوالے کردیتا ہے جو سارے ملک کو بوتل و گلاس میں غرق کردیتا ہے اور بیانیہ یہ بنایا جاتا ہے کہ سیاست دانوں نے ملک توڑ دیا۔
1977 میں یہی Mindset ضیاء الحق کی شکل میں نمودار ہوتا ہے جمہوریت کی عمارت گرادی جاتی ہے منتخب حکومت کو برطرف کرکے وزیراعظم کو عدالتی قتل کردیا جاتا ہے اور ایک نیا آمر ملک کو جہالت، عدم برداشت، لاقانونیت، جرائم، اور منشیات کے چنگل میں جکڑ کر چلاجاتا ہے، ضیاء الحق کے 11 سالہ دور کی سزا یہ ملک آج تک بھگت رہا ہے۔
12 اکتوبر 1999 میں یہ تصویر آجاتی ہے جو اس سارے Mindset کو مکمل اجاگر کردیتی ہے جنرل پرویز مشرف کا ظہور ہوجاتا ہے وہ جنرل پرویز مشرف جو منتخب حکومت سے چھپاکر فیصلے کرتا ہے جو امریکہ بہادر کی ایک فون کال پر ڈھیر ہوجاتا ہے جس کے دور میں ہمارے بچے بچیاں امریکیوں کو بیچی جاتی ہیں اور ضیاء الحق کے بنانے ہوئے سارے مقدس بتوں کو توڑ کر نئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے ماضی کے مجاہد دہشت گرد قرار دئے جانے ہیں اور لاپتہ کردئے جاتے ہیں۔اب بیانیہ نیا ہے اس لئے عمارت بھی نئی تعمیر ہوگی،
عزیز ہموطنو! یہ صرف تصویر نہی ہے یہ ایک Mindset ہے جو اس ملک کی جڑوں میں سرایت کرچکا ہے بدلنا ہے تو اس Mindset کو بدلوا اگر یہ بدل گیا تو شاید کوئی تبدیلی آجائے، ” ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے “۔