
پاکستان اگر چلے گا تو اس کتاب سے چلے گا، 1973ء کے آئین سے چلے گا جو اس ملک کی نمائندہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ یہ دستاویز آج بھی سارے پاکستان کے لئے ایک مقدس و متحد رکھنے والی دستاویز ہے۔ کیسے کیسے قدآور بزرگوں نے اس آئین کی تیاری اور منظوری کے لیے دن رات کام کیا اور کیسے برے حالات میں ان عظیم شخصیات نے اس آئین کو منظور کیا جب اس ملک کے دو ٹکڑے ہوچکے تھے، 90 ہزار فوجی بھارت کی قید میں تھے، مغربی پاکستان کی جو تبدیلی سرکار کے آنے سے نیا پاکستان ہوگیا ہے اس کا کئی ہزار مربع میل کا علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ ملک غیر مستحکم تھا۔ بنگلہ دیش کی جانب سے طرح طرح کے مطالبات تھے۔ دنیا ہمیں ایک شکست خوردہ ملک کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔ ہمارے بزرگوں نے اس پر آشوب وقت میں یہ اپنے مکمل اتفاق سے یہ آئین تیار بھی کیا اور منظور بھی۔
کیا بڑے لوگ تھے ہر سیاسی پارٹی کا ممبر قومی اسمبلی لگتا تھا عظمت تو اس پر ختم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید میر ۔ شیخ رشید، یہ بڑبولا پنڈی والا نہیں، بابائے شوشلزم شیخ رشید احمد،کوٹر نیازی، عبدالحفیظ پیرزداہ، غلام مصطفی جتوئی، ولی خان، شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد صاحب، مولانا ظفر احمد انصاری، مقتی محمود، سردار شوکت حیات، میر غوث بخش بزنجو، ہائے ہائے کیا بڑے لوگ تھے۔ ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید 1973ء کا آئین دوتہائی کی اکثریت سے بآسانی منظور کراسکتے تھے اس لئے کہ اپوزیشن کے ممبران کی تعداد بہت کم تھی لیکن اس وقت کے دانشمند قائدین نے اس آئین کو متفقہ طور پر منظور کیا، کیسے قدآور وہ بزرگ تھے اور کیسی عظیم وہ قومی اسمبلی تھی۔
آج کچھ امریکہ و برطانیہ سے طلب کئے گئے بلونگڑے 18 ویں آئینی ترمیم، اس میں دیے گئے اختیارات اور صوبائی خودمختاری کے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس کا تعلق چوری کھانے والے مجنوؤں سے ہے، صرف اقتدار کی کشش اس کی تام جھام اس کا پروٹوکول اور اس سے ملنے والی آسائشوں کے لیے پاکستان، ان غیر ملکی برگر کلاس پاکستانیوں کو یاد آتا ہے ۔ ان کو پاکستان کی خدمت اس وقت یاد آتی ہے جب یہ اقتدار میں شریک کئے جائیں۔ حالیہ دنوں میں میں 18 ویں آئینی ترمیم کا مروڑ امریکہ سے درامد کئے گئے ایک وزیراعظم کے مشیر کو بہت زیادہ ہے کچھ عرصہ قبل ان کو مشیر کے عہدے سے نکالا گیا تھا لیکن اب دوبارہ وہ اس منصب الزام تراشی پر فائز کردئے گئے ہیں، ان برگروں کو کیا معلوم کہ پاکستان کے سیاسی کارکن نے اس آئینی ترمیم کے لئے کتنی کٹھن جدوجہد کی ہے ان برگر کلرکوں کو تو سیاسی کارکن سے چڑ ہے۔
میرے چھوٹے بھائی اور دوست کاشف گرامی نے کیا خوب لکھا ہے ” 19 اپریل 2010 سابق صدرآصف علی زرداری نے
اٹھارویں آئینی ترمیم پر دسخط کیے اور صوبہ سرحد خیبرپختونخوا بن گیا، ترمیم کے ذریعے 17 شعبوں کا انتظام صوبوں کو منتقل کیا گیا۔ 73 کے متفقہ آئین کے بعد 19 اپریل ، 2010 کا دن یقینا پاکستان کے تاریخ میں انقلابی دن ہے۔
اب کسی کو اچھا لگے یا برا 1973 میں 2010 میں پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار جماعت تھی”
1973 کا آئیں پاکستان کو متحد رکھنے کی دستاویز ہے۔ یہ دستور اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے سیاسی قائدین کا قدر باشعور اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی طرح 2010 ء میں قومی اسمبلی سے منظور کی گئی 18 ویں آئینی ترمیم وطن عزیز کے سیاسی قائدین اور کارکنوں کے لئے ایک اعزاز ہے لیکن یہ بات سلیکٹذ حکمرانوں اور ان کے امپورٹڈ مشیروں کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔