Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں سرائیکی صوبے کی صورت میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
پراسرارطورپردوواقعات پچھلےہفتے ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ پی پی نے سرائیکی صوبہ کی صورت میں ایک بار پھرپنجاب کوتقسیم کرنےکےلئےباسی کھچڑی کوگرم کرنے کی کوشش کی۔ اسکےتحت یوسف رضا گیلانی نے سرایکی صوبے کےقیام کےلئےپی ٹی آئی کوتعاون کایقین دلادیا۔ یہ کام ایک ایسے وقت میں جس وقت پی پی خود اپوزیشن کےساتھ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیاپرخفیہ ہاتھ نے صدارتی نظام کی مہم ایک بارپھرشروع کردی کہ قوم کےمسائل کاواحد حل یہی ہے ۔ یہ دونوں واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی چال ہیں۔ ان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ہمیں دیکھناہوگاکہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کااعلان کردیاگیاہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں پی پی کا وجود ختم ہوچکاہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کیُ مقبولیت کاگراف انتہائی تیزی سے نیچے آچکاہے۔ پی ٹی آئی پہلے بھی پنجاب کی میجارٹی پارٹی نہیں تھی لیکن آرٹی ایس ڈاؤن کرکے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنواکراور ثاقب نثارکے ن لیگ کیخلاف ایکشن کےذریعے اسے کافی سیٹ دھاندلی سے جتوادی گئیں۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان ایمرجنسی کیوں لگانا چاہتے ہیں، تین اہم وجوہات
تیئیس جنوری || نامور ہدایت کار لقمان کی برسی منائی جارہی ہے
فارن فنڈنگ کیس: عمران خان صفحہ تراسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
جنوبی پنجاب صوبے کے معاملے میں پی پی بھی عمران خان سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے تاکہ جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی لاش میں کچھ جان ڈالی جاسکے۔ دراصل یہ دونوں جماعتیں پنجاب میں بری طرح غیرمقبول ہوچکی ہیں۔اس وقت ساری سیاست نوازشریف کےگرد گھوم رہی ہے۔ ن لیگ کےووٹ بنک میں زبردست اضافہ ہواہے۔
معروضی حالات یہی بتاتے ہیں کہ صدارتی نظام آسکتاہےاورنہ پنجاب کی تققسیم ممکن ہے۔ البتہ بہاولپور صوبے کے قیام کاامکان ہوسکتاہے۔ اگر زرداری اور عمران خان ن لیگ سے اس بارے مذاکرات کریں۔
میری رائے میں پاکستان میں چار مزید انتظامی صوبے بن سکتے ہیں یعنی بہاولپور، کراچی ، ہزارہ اور گلگت۔ یہ چار انتظامی صوبے ضروری ہیں لیکن بہاولپور صوبہ بنانے سے پہلے بہترہوگاکہ ضلع بہاولنگرکوبہاولپور سے نکال کرساہیوال ڈویژن میں شامل کردیاجائے اور اس کےمتبادل ضلع راجن پورمجوزہ بہاولپور صوبے میں شامل کردیاجائے۔
بہاولپورکاالگ صوبہ بنناضروری ہے۔ کیونکہ موجودہ شکل میں جنوبی پنجاب صوبہ تین ڈویژن پرمشتمل بنتاہےتومستقبل میں پی پی اس کا نام سرائیکستان رکھنے کی مہم چلاکر الگ زبان اور قوم کو منوانے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جبکہ بہاولپورصوبےکے قیام اور راجن پورضلع کی شمولیت سےسرائیکی صوبے کا شوشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہوجائے گا۔ اور پی پی ، پی ٹی آئی کا اپنا ووٹ بنک بڑھانے کاپلان فلاپ ہوجائے گا۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں سرائیکی صوبے کی صورت میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
پراسرارطورپردوواقعات پچھلےہفتے ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ پی پی نے سرائیکی صوبہ کی صورت میں ایک بار پھرپنجاب کوتقسیم کرنےکےلئےباسی کھچڑی کوگرم کرنے کی کوشش کی۔ اسکےتحت یوسف رضا گیلانی نے سرایکی صوبے کےقیام کےلئےپی ٹی آئی کوتعاون کایقین دلادیا۔ یہ کام ایک ایسے وقت میں جس وقت پی پی خود اپوزیشن کےساتھ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیاپرخفیہ ہاتھ نے صدارتی نظام کی مہم ایک بارپھرشروع کردی کہ قوم کےمسائل کاواحد حل یہی ہے ۔ یہ دونوں واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی چال ہیں۔ ان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ہمیں دیکھناہوگاکہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کااعلان کردیاگیاہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں پی پی کا وجود ختم ہوچکاہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کیُ مقبولیت کاگراف انتہائی تیزی سے نیچے آچکاہے۔ پی ٹی آئی پہلے بھی پنجاب کی میجارٹی پارٹی نہیں تھی لیکن آرٹی ایس ڈاؤن کرکے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنواکراور ثاقب نثارکے ن لیگ کیخلاف ایکشن کےذریعے اسے کافی سیٹ دھاندلی سے جتوادی گئیں۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان ایمرجنسی کیوں لگانا چاہتے ہیں، تین اہم وجوہات
تیئیس جنوری || نامور ہدایت کار لقمان کی برسی منائی جارہی ہے
فارن فنڈنگ کیس: عمران خان صفحہ تراسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
جنوبی پنجاب صوبے کے معاملے میں پی پی بھی عمران خان سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے تاکہ جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی لاش میں کچھ جان ڈالی جاسکے۔ دراصل یہ دونوں جماعتیں پنجاب میں بری طرح غیرمقبول ہوچکی ہیں۔اس وقت ساری سیاست نوازشریف کےگرد گھوم رہی ہے۔ ن لیگ کےووٹ بنک میں زبردست اضافہ ہواہے۔
معروضی حالات یہی بتاتے ہیں کہ صدارتی نظام آسکتاہےاورنہ پنجاب کی تققسیم ممکن ہے۔ البتہ بہاولپور صوبے کے قیام کاامکان ہوسکتاہے۔ اگر زرداری اور عمران خان ن لیگ سے اس بارے مذاکرات کریں۔
میری رائے میں پاکستان میں چار مزید انتظامی صوبے بن سکتے ہیں یعنی بہاولپور، کراچی ، ہزارہ اور گلگت۔ یہ چار انتظامی صوبے ضروری ہیں لیکن بہاولپور صوبہ بنانے سے پہلے بہترہوگاکہ ضلع بہاولنگرکوبہاولپور سے نکال کرساہیوال ڈویژن میں شامل کردیاجائے اور اس کےمتبادل ضلع راجن پورمجوزہ بہاولپور صوبے میں شامل کردیاجائے۔
بہاولپورکاالگ صوبہ بنناضروری ہے۔ کیونکہ موجودہ شکل میں جنوبی پنجاب صوبہ تین ڈویژن پرمشتمل بنتاہےتومستقبل میں پی پی اس کا نام سرائیکستان رکھنے کی مہم چلاکر الگ زبان اور قوم کو منوانے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جبکہ بہاولپورصوبےکے قیام اور راجن پورضلع کی شمولیت سےسرائیکی صوبے کا شوشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہوجائے گا۔ اور پی پی ، پی ٹی آئی کا اپنا ووٹ بنک بڑھانے کاپلان فلاپ ہوجائے گا۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں سرائیکی صوبے کی صورت میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
پراسرارطورپردوواقعات پچھلےہفتے ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ پی پی نے سرائیکی صوبہ کی صورت میں ایک بار پھرپنجاب کوتقسیم کرنےکےلئےباسی کھچڑی کوگرم کرنے کی کوشش کی۔ اسکےتحت یوسف رضا گیلانی نے سرایکی صوبے کےقیام کےلئےپی ٹی آئی کوتعاون کایقین دلادیا۔ یہ کام ایک ایسے وقت میں جس وقت پی پی خود اپوزیشن کےساتھ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیاپرخفیہ ہاتھ نے صدارتی نظام کی مہم ایک بارپھرشروع کردی کہ قوم کےمسائل کاواحد حل یہی ہے ۔ یہ دونوں واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی چال ہیں۔ ان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ہمیں دیکھناہوگاکہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کااعلان کردیاگیاہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں پی پی کا وجود ختم ہوچکاہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کیُ مقبولیت کاگراف انتہائی تیزی سے نیچے آچکاہے۔ پی ٹی آئی پہلے بھی پنجاب کی میجارٹی پارٹی نہیں تھی لیکن آرٹی ایس ڈاؤن کرکے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنواکراور ثاقب نثارکے ن لیگ کیخلاف ایکشن کےذریعے اسے کافی سیٹ دھاندلی سے جتوادی گئیں۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان ایمرجنسی کیوں لگانا چاہتے ہیں، تین اہم وجوہات
تیئیس جنوری || نامور ہدایت کار لقمان کی برسی منائی جارہی ہے
فارن فنڈنگ کیس: عمران خان صفحہ تراسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
جنوبی پنجاب صوبے کے معاملے میں پی پی بھی عمران خان سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے تاکہ جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی لاش میں کچھ جان ڈالی جاسکے۔ دراصل یہ دونوں جماعتیں پنجاب میں بری طرح غیرمقبول ہوچکی ہیں۔اس وقت ساری سیاست نوازشریف کےگرد گھوم رہی ہے۔ ن لیگ کےووٹ بنک میں زبردست اضافہ ہواہے۔
معروضی حالات یہی بتاتے ہیں کہ صدارتی نظام آسکتاہےاورنہ پنجاب کی تققسیم ممکن ہے۔ البتہ بہاولپور صوبے کے قیام کاامکان ہوسکتاہے۔ اگر زرداری اور عمران خان ن لیگ سے اس بارے مذاکرات کریں۔
میری رائے میں پاکستان میں چار مزید انتظامی صوبے بن سکتے ہیں یعنی بہاولپور، کراچی ، ہزارہ اور گلگت۔ یہ چار انتظامی صوبے ضروری ہیں لیکن بہاولپور صوبہ بنانے سے پہلے بہترہوگاکہ ضلع بہاولنگرکوبہاولپور سے نکال کرساہیوال ڈویژن میں شامل کردیاجائے اور اس کےمتبادل ضلع راجن پورمجوزہ بہاولپور صوبے میں شامل کردیاجائے۔
بہاولپورکاالگ صوبہ بنناضروری ہے۔ کیونکہ موجودہ شکل میں جنوبی پنجاب صوبہ تین ڈویژن پرمشتمل بنتاہےتومستقبل میں پی پی اس کا نام سرائیکستان رکھنے کی مہم چلاکر الگ زبان اور قوم کو منوانے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جبکہ بہاولپورصوبےکے قیام اور راجن پورضلع کی شمولیت سےسرائیکی صوبے کا شوشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہوجائے گا۔ اور پی پی ، پی ٹی آئی کا اپنا ووٹ بنک بڑھانے کاپلان فلاپ ہوجائے گا۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں سرائیکی صوبے کی صورت میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
پراسرارطورپردوواقعات پچھلےہفتے ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ پی پی نے سرائیکی صوبہ کی صورت میں ایک بار پھرپنجاب کوتقسیم کرنےکےلئےباسی کھچڑی کوگرم کرنے کی کوشش کی۔ اسکےتحت یوسف رضا گیلانی نے سرایکی صوبے کےقیام کےلئےپی ٹی آئی کوتعاون کایقین دلادیا۔ یہ کام ایک ایسے وقت میں جس وقت پی پی خود اپوزیشن کےساتھ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیاپرخفیہ ہاتھ نے صدارتی نظام کی مہم ایک بارپھرشروع کردی کہ قوم کےمسائل کاواحد حل یہی ہے ۔ یہ دونوں واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی چال ہیں۔ ان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ہمیں دیکھناہوگاکہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کااعلان کردیاگیاہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں پی پی کا وجود ختم ہوچکاہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کیُ مقبولیت کاگراف انتہائی تیزی سے نیچے آچکاہے۔ پی ٹی آئی پہلے بھی پنجاب کی میجارٹی پارٹی نہیں تھی لیکن آرٹی ایس ڈاؤن کرکے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنواکراور ثاقب نثارکے ن لیگ کیخلاف ایکشن کےذریعے اسے کافی سیٹ دھاندلی سے جتوادی گئیں۔
اب چونکہ سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہوچکاہے، سٹبلشمنٹ اورعدلیہ کافی حدتک عمران خان سے فاصلے پرجاچکے ہیں۔ ایسےمیں بوکھلاہٹ میں ووٹ سکور کرنے کی خاطر کچھ شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ان میں پنجاب کی تقسیم کاگھسا پٹا پلان اور صدارتی نظام کاچورن بھی شامل ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان ایمرجنسی کیوں لگانا چاہتے ہیں، تین اہم وجوہات
تیئیس جنوری || نامور ہدایت کار لقمان کی برسی منائی جارہی ہے
فارن فنڈنگ کیس: عمران خان صفحہ تراسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
جنوبی پنجاب صوبے کے معاملے میں پی پی بھی عمران خان سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے تاکہ جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی لاش میں کچھ جان ڈالی جاسکے۔ دراصل یہ دونوں جماعتیں پنجاب میں بری طرح غیرمقبول ہوچکی ہیں۔اس وقت ساری سیاست نوازشریف کےگرد گھوم رہی ہے۔ ن لیگ کےووٹ بنک میں زبردست اضافہ ہواہے۔
معروضی حالات یہی بتاتے ہیں کہ صدارتی نظام آسکتاہےاورنہ پنجاب کی تققسیم ممکن ہے۔ البتہ بہاولپور صوبے کے قیام کاامکان ہوسکتاہے۔ اگر زرداری اور عمران خان ن لیگ سے اس بارے مذاکرات کریں۔
میری رائے میں پاکستان میں چار مزید انتظامی صوبے بن سکتے ہیں یعنی بہاولپور، کراچی ، ہزارہ اور گلگت۔ یہ چار انتظامی صوبے ضروری ہیں لیکن بہاولپور صوبہ بنانے سے پہلے بہترہوگاکہ ضلع بہاولنگرکوبہاولپور سے نکال کرساہیوال ڈویژن میں شامل کردیاجائے اور اس کےمتبادل ضلع راجن پورمجوزہ بہاولپور صوبے میں شامل کردیاجائے۔
بہاولپورکاالگ صوبہ بنناضروری ہے۔ کیونکہ موجودہ شکل میں جنوبی پنجاب صوبہ تین ڈویژن پرمشتمل بنتاہےتومستقبل میں پی پی اس کا نام سرائیکستان رکھنے کی مہم چلاکر الگ زبان اور قوم کو منوانے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جبکہ بہاولپورصوبےکے قیام اور راجن پورضلع کی شمولیت سےسرائیکی صوبے کا شوشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہوجائے گا۔ اور پی پی ، پی ٹی آئی کا اپنا ووٹ بنک بڑھانے کاپلان فلاپ ہوجائے گا۔