ADVERTISEMENT
دوسال پہلے بزنجو صاحب کے بارے میں پوسٹ ڈس ایبلڈ ائی ڈٰی پرکی توسخت تنقید کاسامناکرناپڑا، خصوصاً قوم پرست بلوچ فرینڈزکی طرف سے پھر روایتی الزام بھی کہ آرٹیکل شاید آئی ایس آئی کے اشارےپرلکھاگیاہے۔ ساتھ ہی بلوچ قوم پرست فرینڈزکی طرف سے بے شمارفرینڈزشپ ریکوسٹ بھی وصول ہوئیں۔
پوسٹ شئیرکی گئی اورشئیرکی گئی پوسٹ پربلوچ اوردیگر ترقی پسند عناصرنے اپنی تعریفوں میں خوب خوب لپیٹا۔ بات یہاں تک نہ رکی بلکہ بعض پنجابی اور اردو سپیکنگ حلقے ، فرینڈز جو کٹرپاکستانی اورمذہبی سوچ رکھتے ہیں ، نے بھی میسج کیاکہ ہم بزنجوصاب کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ یہ تم نے کیاکیا، کوئی ثبوت ہے تو پیش کرو، اتفاق سے اس وقت حوالہ جات کا ثبوت نہیں تھا۔ زبانی باتیں یاد تھیں لیکن اب چونکہ وہ حوالے مل گئے ہیں تو موضوع کو دوبارہ زیربحث لاؤں گا۔
ادراک ہے کہ ترقی پزیرملکوں کے معاشرے state of denial میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی کسی اس بات کا ہماری سوچ اور ذہن کو سامنا کرنا پڑتا ہے جو نئی ہو اور ذہنی چیلنج دیتی ہوتو فوری انکارکردیتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ ثبوت کا بوجھ دوسرے پرڈالتے ہوئے اسے غلط ثابت کریں اور راہ فرار تلاش کریں ۔
چونکہ ذمے داری تھی کہ حساس ٹاپک کے پروف دوں تو وہ میں نے تلاش کرلئے اور میں ان سطور میں ریفرنس کی صورت میں دو کتابوں کے حوالے پیش کر رہا ہوں۔
ہم کہانی وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے سیاسی مڈبھیڑ ہوئی۔ پہلے وضاحت کردوں کہ زمانہ طالبعلمی میں خود بھی کمیونسٹ تھا اور بزنجو صاب سے متاثربھی ۔ ہوا یوں کہ بیس سال پہلے میں نے ایک امریکن اخبارمیں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دورکی خفیہ ایجنسی ساواک کے آخری چیف جنرل حسین فردوسی کی باییوگرافی کے اقتباسات پڑھے۔ اس وقت چونک گیا جب میری نظریں اس پیراگراف پرجمیں کہ بلوچ قوم پرست لیڈر غوث بخش بزنجو ساواک کے ایجنٹ تھے ، یہ بات شاک سے کم نہ تھی۔
اگلے ہفتے نیویارک میں ایک کاک ٹیل پارٹی تھی تو وہاں ایک پرانے صحافی اور بزنجو کےساتھی سے ملاقات ہوئی۔ سرسری اس بات کا ذکران سے کیا۔ بات سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ خود اندازہ نہیں تھاکہ ان پر اتنا اثرہوگا، بولے آج تم نے وہ گتھی سلجھا دی جو تیس سال سے میرے زہن میں گرہ بنی ہوئی تھی۔ استفسارپربولے کہ نوجوانی میں کمیونسٹ ہوچکا تھ۔ بھٹو صاب کادور تھا۔ اعزاز نذیرکراچی کے کمیونسٹ لیڈر سے دن رات کا اٹھنا بیٹھنا پھر دیگر رہنماؤں یعنی بزنجو، مینگل سے ملاقاتیں ،تو جب ہم بزنجوکے بنگلے پرجاتے تو کبھی کبھی بزنجوکوکال آتی، وہ اسے سیٹلائٹ فون پرسنتے لیکن ہم لوگوں کو چھوڑکرباہرچلے جاتے۔ ذہن میں سوالات جنم لیتے کہ بزنجو کس کی کال خفیہ رکھ رہے ہیں؟ سیٹلائٹ فون ٹیکنالوجی اس وقت ایجنسیوں کے سوا کسی کے پاس نہیں تھی اورنہ کسی سیاستدان کے پاس تو واحد بزنجو صاب تھے جو سیٹلائٹ فون کے مالک تھے۔ انھوں نے کہا شہزاد ناصر آج تم نے میرے ذہن کی گرہ کھول دی اور یہ بھی ثابت ہوگیاکہ ہم بےکارقربانیاں دیتے رہے۔
یہ تھا پرانی پوسٹ کا بیک گراؤنڈ اب آتےہیں اپ ڈیٹ کی طرف ۔ ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کا آخری چیف جنرل حسین فردوسی تھا۔ اس کی کتاب کا نام ہے The rise and fall of Pehlvi dynasity.
مزید ثبوت ممتاز قوم پرست اور ترقی پسند لیڈر سردار شیربازخان مزاری کی کتاب A journey of disilluionment سے مل گئے جس میں شیربازمزاری نے یہ انکشاف کیا ہے کہ عطااللہ مینگل اور خیربخش مری ، بزنجو پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ جب بلوچ لیڈر جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے توبزنجو میانوالی جیل میں کمفرٹ لایف گذاررہے تھے۔ بزنجو ، بھٹو دور میں گورنربلوچستان رہے اورجب وہ بھٹو کے ساتھ دورہ ایران گئے توانھیں ایک بڑٰی رقم ملی تھی۔
شیربازمزاری نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ جب جنرل ضیا نے اقتدارپر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست لیڈرزکو حیدرآباد جیل سے رہا کیا تو بزنجو نے سب کے سامنے جنرل ضیا سے کہا کہ مجھے کارکی ضرورت ہے اور جنرل ضیا نے نئے ماڈل کی مرسڈیزکاران کے گھر اگلےروز ہی بھجوادی۔
اپنے کالج دورمیں ،بزنجوکی کمیونسٹ رجحانات کی وجہ سے بڑی عزت کرتا تھا لیکن سیاسی شعور کی وجہ سے جنرل ضیا کی لسانی اورنسلی تحریکوں کی سرپرستی کی چالوں کو خوب سمجھتاتھا کہ اسی زمانے میں سرایکی تحریک ، ایم کیوایم ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، سپاہ صحابہ، سندھی نیشنلزم اورکوئٹہ گلگت کے فرقہ دارانہ فسادات سوچے سمجھے پلان کے تحت کروائے گئے لیکن اس وقت شاک میں اگیا جب ایک دن بزنجوصاحب کا پانچ قومیں، پانچ زبانوں والا بیان پڑھا۔ بزنجو وہ پہلے سیاستدان تھے جنھوں نے سرایکی قومیت کی بات کی حالانکہ ان کا پنجاب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ ماہ بعد انھوں نے چھ قومیں چھ زبانوں کا نعرہ لگادیا اور اب اس میں پوٹھوہاری قوم کا اضافہ ہوچکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ بزنجو صاحب کی پارٹی پاکستان کی وہ پہلی پارٹی تھی جس نے سرایکی اور پوٹھوہاری قومیت کو اپنے منشور میں شامل کیا ، یہ بات کسی پنجابی نیشنلسٹ کے علم میں بھی نہیں جو میں پہلی بار ریکارڈ پر لارہا ہوں۔ جب بزنجو نے سرایکی اور پوٹھوہاری قومیت کو پنجاب سے الگ کیا تو میں اسی وقت سمجھ گیا کہ یہ اب جنرل ضیا کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔