جناب شاکر نظامی کو مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کیوں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شاکر نظامی صاحب جیسا زندہ دل اور متحرک شخص یوں چپ چاپ چلا جائے گا۔جناب شاکر نظامی سے میری محبت کا رشتہ سولہ سال کو محیط ہے۔ میں جب 2005 میں اپنے ہمدمِ دیرینہ معروف ادیب و شاعر براڈکاسٹر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر خالد اقبال کے ساتھ پہلی بار ملتان سے ریڈیو پاکستان سرگودھا آیا تو وہ میرے سب سے پہلے میزبان تھے۔ میں عمر میں ان کے بچوں کے برابر ہوں تاہم میں نے انھیں ہمیشہ ایک بے تکلف اور پرخلوص دوست کے روپ میں دیکھا۔ہم نے ریڈیو پاکستان سرگودھا سے بیسیوں پروگرام کئے ان کے ساتھ ان گنت تقاریب میں شرکت کی ۔وہ ایک زندہ دل انسان تھے شگفتہ مزاج اور انتہائی ملنسار۔۔۔جو بھی ان سے ملتا وہی ان کا گرویدہ ہو جاتا۔۔جناب شاکر نظامی ایک باکمال شاعر بے باک صحافی اور سنیئر براڈکاسٹر تھے ۔ریڈیو پاکستان سرگودھا کے قیام سے بہت پہلے وہ ریڈیو پاکستان لاہور کے نمائندہ خصوصی کے طور پر کام کرتے رہے ۔ انھوں نے سرگودھا کے علمی ادبی سماجی سیاسی اور ثقافتی تشخص کو اجاگر کرنے کے لئے بہت کام کیا ۔ان کی ڈاکومنٹریز اور ریڈیو رپورٹس سرگودھا کی تاریخ شخصیات اداروں اور کلچر کی تفہیم میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جناب شاکر نظامی کی اب تک بہت سی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے پاکستان کی متعدد جامعات میں ایم اے اور ایم فل سطح کے مقالات لکھے جا چکے ہیں۔
حضرتِ شاکر نظامی ایک عاشق رسول تھے ان کا نعتیہ کلام ایگ سچے مسلمان کے دل کی آواز ہے ان کے چند روح پرور نعتیہ اشعار دیکھئے:
تیری عظمت کی ہے کیا بات مدینے والے
سب سے اعلیٰ ہے تری ذات مدینے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوج پر میرا مقدر ہے کرم سے تیرے
ورنہ کیا ہے مری اوقات مدینے والے
جناب شاکر نظامی کی غزل کلاسیکی روایت کی آئینہ دار ہونے کے باوجود سیاسی و سماجی ناہمواریوں کا بھرپور اظہاریہ ہے
وقت کے ہاتھ میں لمحوں کے شرارے دیکھے
کرب کی دھوپ میں جھلسے ہوئے چہرے دیکھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں تھا جو خلوص کبھی کم نہیں ہوا
اب تک چراغِ آرزو مدھم نہیں ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے ہر دور میں یہ دیکھا ہے
محنتوں کا ثمر نہیں کوئی
شاکر نظامی صاحب نے دوستوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھیں جو کتابی صورت میں منظر عام پر آ چکی ہیں۔۔
جناب شاکر نظامی نے شاعری کی تمام اہم اصناف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔شاکر صاحب یاروں کے یار تھے جو بھی ادبی شخصیت سرگودھا آتی وہ نظامی صاحب کی میزبانی سے سرفراز ہوتی وہ ہر چھوٹے بڑے کو یکساں محبت اور خلوص عطا کرتے تھے۔ سرگودھا میں ڈاکٹر خالد اقبال اور خاکسار سے ان کی طویل نشستیں رہیں۔ وہ 2006 میں میرے ساتھ ملتان کے ایک کل پاکستان مشاعرہ میں شریک ہوئے اور ملتان کے دوستوں کے دل جیت کر آئے ۔شاکر نظامی صاحب انبالہ سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور پھر سرگودھا کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا وہ سرگودھا میں اقامت گزین ہونے کے باوجود ملک بھر کے ادباء و شعراء کے رابطے میں تھے معروف شاعر صحافی اور براڈکاسٹر ممتاز عارف اور میں اکثر ان کے رحمان پورہ والے گھر میں ملنے جاتے تو کئی کئی گھنٹے نشت رہتی۔ شاکر نظامی صاحب سرگودھا کی چلتی پھرتی تاریخ تھے سرگودھا کے ماضی اور حال کے بارے میں ان کے پاس معلومات کا بہت بڑا خزانہ تھا
وہ سرگودھا کے سینئر ترین صحافیوں میں شمار ہوتے تھے وہ روزنامہ” فرنٹ” اور ” نظام جمہوریت ” کے ایڈیٹر بھی تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حق بیانی کی پاداش میں وہ پابندسلاسل بھی رہے ۔۔ ابھی دو ہفتے قبل میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں معروف شاعر و ادیب جمیل یوسف کا بھیجا ہوا شعری مجموعہ” نظمیں ” پیش کیا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں اپنے پرانے دوست کے مجموعہ کلام پر ضرور کچھ لکھوں گا ۔
جناب شاکر نظامی کے بارے میں احمد ندیم قاسمی رقم طراز ہیں:
شاکر نظامی نے صحافت اور ادب کی جو شمعیں جلا رکھی ہیں ان کی روشنی سے کسی بھی دیانت دار شخص کو انکار کی مجال نہیں۔”
ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
شاکر نظامی کی چہکار دلوں کو تسخیر اور ذہنوں کو تازہ دم کرتی ہے۔”
درویش شاعر ساغر صدیقی نے انھیں یوں منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے:
بہاروں کی رنگیں فضا کا پیامی
سنا آپ نے نام شاکر نظامی
آٹھ جنوری کو میں ملتان میں تھا تو شاکر نظامی صاحب کے صاحب زادے اور میرے عزیز دوست ڈاکٹر ندیم شاکر کی فون کال آئی کہ ابو جی کی طبیعت کافی خراب ہے ۔ان کی صحت یابی کیلئے دعا کیجیے گا۔میں نے اسی وقت فیس بُک پر بھی دعائے صحت کی پوسٹ لگائی ملک بھر سے لاتعداد احباب نے دعائیہ کلمات کہے۔تاہم 9 جنوری 2021 کی سرد اور دھند آلود صبح کومیرے عزیز دوست اور جواں فکر شاعر ارشد محمود ارشد نے فون پر اطلاع دی کہ شاکر نظامی صاحب ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں یہ
افسوس ناک خبر سن کر میرا دل سولہ سال پیچھے لوٹ گیا جب میں پہلی بار سرگودھا آیا تھا اور میرے میزبان جناب شاکر نظامی تھے۔ستم ظریفی یہ کہ دھند کی شدت اور موٹر وے کی بندش کی وجہ سے میں اپنے محسن و دمساز اور مخلص دوست کو آخری بار الوداع بھی نہ کہہ سکا۔
جا رہے ہیں سلسلہ در سلسلہ
اس جہان خاک میں رہتا ہے کون
اللہ تعالیٰ جناب شاکر نظامی صاحب کے درجات بلند فرمائے آمین