چالیس سال پرانی بات ہے، مجھے روزنامہ جنگ کراچی میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے جوائن کئے چندر وز ہی گزرے تھے کہ روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر انچیف میرخلیل الرحمن کے صاحبزادے میر شکیل الرحمن نے ایک دن مجھے اپنے آفس میں بلوایا۔ روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر تو محمود احمد مدنی مرحوم تھے۔ لیکن شکیل صاحب کو ایک دو سال قبل ہی روزنامہ جنگ کے معاملات حوالے کئے گئے تھے۔ انہوں نے مجھے برطانیہ کی کسی فیچر سروس کا انگریزی فیچر دیتے ہوئے کہا کہ بھئی اس کا ترجمہ کرکے مجھے دے دو۔ ویسے تو میری ذمہ داریاں سٹی ڈیسک پر سب ایڈیٹر کے طورپر تھیں اور میرا کام فیچر یا مضامین ترجمہ کرنا نہ تھا، لیکن حکمِ حاکم۔ دوسری اہم بات یہ کہ مجھے ترجمے کا “ککھ” پتہ نہ تھا۔ یہ کام میرے لئے بالکل نیا تھا، میں فیچر لے کر ڈیسک پر آیا، کچھ پڑھا۔ میرے تو ہوش اڑگئے ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھا ہے۔ اسی دوران سرتاج صدیقی صاحب نے مجھے آواز دے کر بلایا۔ سرتاج صاحب میرے اسکول کے زمانے کے استاد تھے، گھر پر ٹیوشن پڑھانے آیا کرتے تھے اور روزنامہ جنگ میں پارٹ ٹائم ملازمت کرتے تھے۔
سرتاج صاحب نے مجھ سے بلا کر کہا کہ کیا معاملہ ہے؟ شکیل صاحب کے پاس سے آنے کے بعد تمہارے ہوش اڑے ہوئے ہیں۔اس پر میں نے پریشان ہوکر کہا کہ دیکھیں، اس کا ایک لفظ میرے پلے نہیں پڑ رہا۔ پتہ نہیں کیسی انگریزی ہے ؟ آپ مدد کردیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرور کروں گا، لیکن تم اسے گھر لے کر جاؤ، اس کے جس جس لفظ کے معنی نہیں معلوم، ڈکشنری سے ایک الگ کاغذ پر لکھو اور ترجمہ کرڈالو اور کل صبح بہادرآباد کے قریب ڈی ایم ایس اسکول لے آنا۔
مرتا کیا نہ کرتا، میں اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر بارہ بجے رات گھر پہنچا، اور ڈکشنری نکال کر الفاظ کے ترجمے کرنے شروع کئے ، اس چودہ پندرہ سو الفاظ کے فیچر میں کوئی ڈیڑھ دو سوالفاظ کے معنی سے میں لابلد تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنی استعداد کے مطابق اس کا ترجمہ کرڈالا۔ دوپہر تک میں ان کے اسکول گیا ، جہاں وہ پڑھاتے تھے۔ انہوں نے میرا ترجمہ دیکھا اور شفقت سے مسکرائے اور پھر اصل متن سامنے رکھ کر سرخ قلم سے اس کی تصحیح شروع کی تو تقریبا ً تمام صفحے کسی شرمیلی حسینہ کی طرح سرخ ہوگئے۔ میں نے کہا کہ اتنی محنت کرنے کے بجائے آپ خود ہی ترجمہ کردیتے۔ کہنے لگے کہ اگر میں کردیتا تو تم سیکھتے کیسے ؟
اس زمانے میں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ عام نہیں ہوئے تھے، ان کے کہنے پر وہیں بیٹھ کر میں نے اسے صاف کرکے دوبارہ لکھا۔ اور پھر پڑھا تو میں حیران رہ گیا، اتنا سلیس اور آسان ترجمہ تھا کہ لطف آگیا۔ وہیں سے میں روزنامہ جنگ گیا اور مضمون میر شکیل الرحمن کے حوالے کردیا۔ انہوں نے اسی وقت پڑھا اور زیرلب مسکراتے رہے۔ پھر بولے کہ تم نے خود کیا ہے ؟ اس پر میں نے کہا کہ سر پوری رات کالی کی ہے۔اس پرانہوں نے اپنی ٹیبل سے ایک اور مضمون اٹھا کر میرے حوالے کردیا۔ اگلے دن میرا پہلا ترجمہ کردہ مضمون روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوا تو میری خوشی دیدنی تھی۔ خیر یہ سلسلہ چلتا رہا۔
اس کے بعد خبروں کے ترجمے بھی کرنے لگے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ بہت سے مضامین خاص طورپر نیوزویک اور ٹائم میگزین کے مضامین۔ اس دوران اساتذہ سے یہ سیکھا تھا کہ ترجمہ لفظی نہ ہو، بلکہ اسے دیکھ کریہ محسوس ہو کہ یہ اصل تحریر ہے ، ترجمہ نہیں۔ ترجمے کے حوالے سے میرے بہت سے لطیفے بھی ہیں، جن سے میرے ساتھی لطف اندو ز ہوتے رہے۔ انہیں پھر کبھی بیان کروں گا۔
روزنامہ جنگ کے بعد جسارت میں آئے تو وہاں بھی خبروں کے ساتھ ساتھ عالمی جرائد سے مضامین ترجمہ کرتے رہے۔ لیکن جب پاکستان ٹیلی ویژن جوائن کیا تو بین الاقوامی خبروں کی سیٹلائیٹ فیڈ (یعنی سیٹلائیٹ کی مددسے فلموں کی ترسیل) کے ساتھ ان کی خبروں کے پرنٹ بھی آتے تھے۔ پہلی بار جب کسی بین الاقوامی خبر کو دیکھا، خاص طورپر اسپورٹس کی خبر کو تو ایک مرتبہ پھر ہوش اڑگئے۔ بہت مشکل انگریزی زبان تھی۔ لیکن گاڑی رکی نہیں، چلتی رہی۔
پی ٹی وی کی سروس کے دوران نامور پروڈیوسر سید آفتاب عظیم سے تعلقات ہوگئے تھے، وہ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر پی آئی اے کے شعبہ آڈیو وژیول میں جنرل منیجر تھے ۔ ایک دن انہوں نے مجھے اپنے پی آئی اے کے آفس بلواکر ایک ویڈیو کیسٹ دیا، وہی پرانے زمانے کا ویڈیو کیسٹ ، جسے ہم پروفیشنل زبان میں “وی ایچ ایس ” اور عام طورپر لو گ ان کیسٹوں کے نام سے جانتے ہیں، جن میں انڈین فلمیں یا “دوسری” فلمیں ہوا کرتی تھیں۔ کیسٹ دیتے ہی انہوں نے کہا کہ شبیر یہ بن لادن گروپ کی کیسٹ سعودی عرب سے مجھے ملی ہے۔ اس میں مسجد نبوی کی توسیع پر ڈاکومنٹری ہے، اس کا بہترین ترجمہ کرکے لاو۔ گھر آکر اپنے وی سی آر پر لگا کردیکھی تو ویڈیو بہت خوبصورت اور لاجواب تھی، لیکن ایک بار پھر میرے ہوش اڑگئے۔ کیونکہ کمنٹری انگریزی میں تو تھی، لیکن کسی گورے کی زبان میں تھی۔ اور اس میں جگہ جگہ قرآنی آیات کے انگریزی تراجم بھی تھے۔ پھر وی سی آر پر اتنی آسانی سے ویڈیو کو آگے پیچھے کرنا دشوار ہوا کرتا تھا۔
چنانچہ پہلے تو میں نے اسے اپنے آڈیو پلئیر پر منتقل کیا ۔ اور اپنے رب سے دعائیں مانگ کر اس کا م کو شروع کیا۔ چند روز میں ترجمہ ہوگیا۔ پھر میں نے اسکرپٹ کو دوبارہ تحریر کیا، عشق مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر۔ چنانچہ بہت اچھاہوگیا، جب سید آفتاب عظیم مرحوم نے اس کی تعریف کی تو یقین ہوگیا کہ بہت اچھا کام ہوا ہے۔ اس کی کمنٹری ہمارے پی ٹی وی کے نیوز کاسٹر اور ادیب ، شاعر اور اب رائٹرز ٹی وی کے نمائندے شہاب الدین شہاب کی آواز میں ریکارڈ کی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک شہاب صاحب اس کے ترجمے کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ مرحوم آفتاب عظیم بھی کہتے رہے کہ تم نے اپنی بخشش کا سامان کرلیا۔اور میر ا بھی یہی خیال ہے۔ کیونکہ میں نے وہ کام پیسوں کے لئے نہیں کیا تھا۔
اسی دوران کئی کہانیوں کے اردو ڈائجسٹ میں تراجم کئے۔اس کے علاوہ میں نے کئی انگریزی کی کئی کتابوں کے ترجمے اور تلخیص کیں۔ جن میں قابل ذکر انتھونی مسکرنہاس کی کتاب “بنگلہ دیش ۔ اے لی گیسی آف بلڈ کے علاوہ نپولین ہل کی کئی کتب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ترجمے کے بہت سے کام کئے ، جن کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ لفظی ترجمے کے بجائے سلیس ترجمہ کروں، رواں، سہل اور بامحاورہ اور کہیں سے یہ محسوس نہ ہو کہ یہ ترجمہ ہے، بلکہ اصل تحریر محسوس ہو۔
مجھے یہ تحریر لکھنے کا خیال عالمی یوم ترجمہ کے موقع پر آیا، عالمی یوم ترجمہ ہرسال 30 ستمبر کو کتاب مقدس (اناجیل) کے مترجم سینٹ جیروم کے یوم وفات کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ سینٹ جیروم کو مترجمین کا روحانی پیشوا یا باپ تصورکیا جاتا ہے۔ اس کا انعقاد ہر سال مترجمین کی عالمی فیڈریشن کے زیر اہتمام ہوتا ہے جس کا قیام 1953 میں عمل میں آیا ۔ عالمی یوم ترجمہ کی تقریب فیڈریشن نے سب سے پہلے 1991 میں منانی شروع کی تاکہ دنیا بھر کے مترجمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہو اور ان کی کوششوں کی قدر افزائی کی جاسکے، نیز ترجمہ کی اہمیت اجاگر ہو۔ عالمی یوم ترجمہ کی تقریبات کے انعقاد کا مقصد دنیابھر میں مترجمین کے درمیان اور ہم آہنگی کو فروغ دینا اور ان کی قدر افزائی کرنا، اسلاف کے ترجمہ کردہ کتب اور ترجمہ کے عمل کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
مترجمین کی عالمی فیڈریشن مترجمین کی بین الاقوامی تنظیموں کی یونین ہے جس سے 55 ممالک کے 80 ہزار سے زائد مترجمین کی نمائندگی کرنے والی سو سے زائد تنظیموں کا الحاق ہے۔ فیڈریشن کا مقصد مختلف شعبوں میں ترجمہ کے معیار کو بڑھانا اور اس کو فروغ دینا ہے۔
عام طورپر یہ غلط فہمی ہے کہ ترجمے کو مغرب نے فروغ دیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس شعبے میں اولیت حاصل ہے۔ عباسی خلافت کے اوائل میں سلطنت روم سے یونانی فلسفے اور حکمت پر ہزاروں کتب منگوائی گئیں اور بغداد میں بہت بڑا دارالترجمہ “بیت الحکمت ” کے نام سے قائم کیا گیا۔ جہاں سیکڑوں افراد تراجم کرتے اور ان سے کہیں زیادہ کتابت کرکے ان کی جلدبندی کرتے ۔ کیونکہ اس زمانے میں چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ بغداداور دمشق کے علاوہ اندلس (اسپین ) میں بھی یہ کام بڑے پیمانے پر ہوا۔وسیع پیمانے پر تراجم کے بعد مسلمانوں ہی نے متعدد علو م کی بنیادیں رکھیں ، جن پر اب مغرب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بلند وبالا عمارت تعمیر کی ہے۔
ہندوستان میں ترجمے کا کام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہوا، محسن قوم سرسید احمد خان نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اسے مولوی ذکا اللہ اور چراغ علی کے حوالے کیا۔ اس کے بعد میجر آفتاب حسن نے اس کا م کو آگے بڑھایا۔
ریاست حیدرآباد میں 1880 میں دارالترجمہ قائم کیاگیا ۔ مرزا ہادی رسوا ڈائریکٹرمقرر کئے گئے، ان کے علاوہ ظفر علی خان اور مولوی عبدالحق یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد ماسٹر کی سطح تک تمام نصاب اردو میں ترجمہ کیا جاچکاتھا۔ اور وہاں ہر سطح پر اردو ذریعہ تعلیم تھا۔
انجمن ترقی اردو نے مزید کام کیا اور پاکستان میں بھی اسے جاری رکھا۔پاکستان سائنس بورڈقائم ہوا اور ہمدرد فاونڈیشن نے بھی اس حوالے سے کام کیا۔ اسی طرح ڈاکٹر انعام الحق غازی کی کوششوں سے بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آبادمیں 2007 میں ترجمہ کا شعبہ قائم ہوا ۔ اس طرح پہلی مرتبہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں ترجمے کا شعبہ قائم ہوا ۔
اس کے بعد گجرات یونیورسٹی اور نمل یونیورسٹی نے بھی اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور ترجمہ میں بی ایس پروگرام شروع کئے ۔ بین الاقوامی میں ایم فل ٹرانسلیشن اسٹڈیز کا پروگرام بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔
سن7 201 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ ارودو کی جانب سے ترجمے کے موضوع پر عالمی کانفرنس کے موقع پر ٹرانسلیشن ڈپارٹمنٹ کے قیام کا اعلان ہوا۔
عبدالحلیم شرر ، سجاد حیدر یلدرم ، نیاز فتحپوری، سعادت حسن منٹو ، وغیرہ انفرادی سطح پر ترجمے کے کام کرتے رہے۔ نامور مترجمین میں ارجمند آرا، باقر نقوی، بیگم فاطمہ، جوش ملیح آبادی، خالد اقبال یاسر، خرم سہیل ، رتن ناتھ سرشار، رفاقت حیات، سجاد حیدر یلدرم، سید علی بلگرامی، سید قاسم محمود، سید ممتاز علی، سید ہاشمی فرید آبادی، شوکت نواز خان نیازی، صادق الخیری، عابد علی عابد، عنایت اللہ دہلوی، فہیم شناس کاظمی،قیصر نذیر خاور، مرزا اظفری، مرزا فرحت اللہ بیگ، مولوی کریم الدین، میر امن، میرک شاہ کشمیری، نجم الدین احمد،نند کشور وکرم ، وزیرالحسن عابدی، پریم چند ، کرنل محمد خان، آصف فرخی،ستار طاہر،مقبول جہانگیر، محمد حسن عسکری،عزیز احمد وغیرہ شامل ہیں۔
ترجمے سے کسی بھی زبان کا ادب مالامال ہوتا ہے، لیکن اس کام کو صرف ادب تک محدود نہیں رہنا چاہئے، بلکہ تمام موضوعات پر شائع ہونے والی کتب کے تراجم کا بڑے پیمانے پر اہتمام ہونا چاہئے۔ اسی طرح اردو اور ملک کی دیگر خوبصورت علاقائی زبانوں سے دیگر زبانوں خاص طورپر انگریزی میں بھی تراجم کا کام ادارے کی سطح پر ضروری ہے۔