1975میں پی ٹی وی اپنے دوسرے عشرے میں داخل ہوا، اس نئے عشرے میں پی ٹی وی نے اپنے نئے خواب سجائے ہوئے تھے۔ 1974تک پی ٹی وی کے پانچوں مراکز وجود میں آچکے تھے۔ ملک کے ہر صوبے میں پی ٹی وی کی نشریات آبادی کے بڑے حصے تک پہنچ رہی تھیں۔ اس وقت تک پی ٹی وی کی نشریات بلیک اینڈ وہائٹ تھیں، لیکن پروگراموں کا معیار انتہائی اعلیٰ تھا۔
1970کے عشرے کے وسط میں اقوام متحدہ کی طرف سے کرائے جانے والے ایک سروے کے مطابق پی ٹی وی جاپان کے بعد ایشیا کا دوسرا بہترین ٹیلیویژن چینل تھا۔1975سے 1979تک پانچ برسوں کے دوران پی ٹی وی نے نئے سنگ میل طے کئے۔
1975 میں پاکستان ٹیلی ویژن نے اسلامی سربراہ کانفرنس کی پہلی سالگرہ کے موقع پر19سے 23 فروری تک پی ٹی وی کے پہلے ڈرامہ فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔اسے شالامار فیسٹیول کانام دیا گیا۔ اس فیسٹیول میں پاکستان سمیت گیارہ مسلم ملکوں نے حصہ لیا۔مختلف ممالک سے بیس مبصرین نے بھی شرکت کی۔ میزبان ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان نے مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان سمیت تمام ملکوں کے ڈرامے پی ٹی وی سے نشر کئے گئے۔ مہمانوں نے لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن کا دورہ کیا۔ انہیں لاہور شہر کے تاریخی مقامات بھی دکھائے گئے۔ رات کو عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔
اسلامی کانفرنس کی پہلی سالگرہ کے دن 22فروری 1975کولاہور میں ایک یادگار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ آٹھ رکنی بین الاقوامی جیوری نے ان ڈراموں کو انعامات دینے کا اعلان کیا۔ جیوری کے اجلاس کی صدارت پی ٹی وی کی سینئر پروڈیوسرشیریں عظیم مرحومہ نے کی۔
1975میں محکمہ فون و تار (T & T)نے کراچی سے پشاور تک مائیکروویولنک قائم کردیالیکن ابھی کوئٹہ مرکز قومی نشریاتی رابطے سے منسلک نہ تھا۔ 23مارچ 1975کو لاہور کے قریب شجاع آباد میں پی ٹی وی کے چھٹے بوسٹر کا افتتاح ہوا۔ 12جولائی کو جدہ میں ہونے والی اسلامی وزرائے خارجہ کی جدہ میں ہونے والی چھٹی کانفرنس کی خصوصی رپورٹ بھی جدہ سے براہ راست ٹیلی کاسٹ کی گئی۔
دسمبر 1972کے بعد اگست 1975میں پی ٹی وی نے دوسرا ”جشن تمثیل“ منعقد کیا۔ اس مقابلے میں ہر مرکز سے دو دو ڈرامے پیش کئے گئے۔ اس مقابلے کی اہم خوبی کوئٹہ اور پشاور مرکز کی شرکت تھی۔کیونکہ انہیں قائم ہوئے چند ماہ ہوئے تھے۔ 27اگست کو پی ٹی وی سے براہِ راست دکھائی جانے والی ایک خصوصی تقریب میں نتائج کا اعلان کیا گیا۔ جیوری میں صفدر میر، خواجہ شاہد حسین،ضیاء محی الدین، مسزنسرین اظہراور آغا ناصر شامل تھے۔
اسی سال ستمبر کے مہینے میں لاہور میں پی ٹی وی رائٹرز کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں ڈرامہ نگاری اور دوسرے موضوعات اور مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ای ٹی وی یعنی ایجوکیشنل ٹیلی ویژن نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے تعاون سے 1973ہی میں اپنے آزمائشی پروگرام شروع کردئیے تھے۔ 13اکتوبر 1975کو اس وقت کے وقت کے وفاقی وزیر تعلیم نے پی ٹی وی کے ای ٹی وی ڈویژن کے تحت اے ایف ایل یعنی ایڈلٹ فنکشنل لڑیسی (تعلیم بالغان)کے پائلٹ منصوبے کا افتتاح کیا۔اس منصوبے کے تحت پچیس ہزار افراد کو چھ ماہ کی مدت میں خواندہ بنانا تھا۔ تعلیم بالغان کے تحت 156پروگرام بڑی محنت کے ساتھ تیار کئے گئے۔ اس منصوبے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے بھی مالی معاونت کی۔ وہ منصوبہ ایک بڑی تعلیمی تحریک کی جانب پہلا قدم تھا۔
ملک کے چار ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے درمیان قومی نشریاتی رابطے کے قیام کے بعد ایک ہی مرکز سے خبریں پیش کرنا آسان ہوگیا۔ اسلئے 1975میں راولپنڈی اسلام آباد مرکز میں این این بی یعنی نیشنل نیوز بیورو قائم کیا گیا۔ مصلح الدین مرحوم اس کے پہلے کنٹرولر مقرر کئے گئے۔
یہ اگست 1975کی ایک شام تھی، کراچی مرکز کے جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ صدر کے علاقے سے گزرتے ہوئے ایک نیلام گھر پر رکے۔ جہاں انہیں پیسوں کے بجائے سوالات کے ذریعہ مختلف اشیاء نیلام کرنے کا خیال آیا۔ یہی خیال پروگرام نیلام گھر شروع کرنے کا محرک بنا۔چنانچہ 4نومبر 1975کو کراچی مرکز سے ”نیلام گھر“شروع ہوا۔وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کا طویل ترین عرصے تک جاری رہنے والا کوئز پروگرام ثابت ہوا۔ اس پروگرام کی کمپئرنگ پی ٹی وی کے لیجنڈ طارق عزیز مرحوم کے حصے میں آئی اور وہ طویل ترین ٹی وی شو کرنے والی شخصیت بن گئے۔ اس کے پہلے پروڈیوسر عارف رانا تھے۔ انہوں نے بنیادی خیال کو عملی صورت دینے میں بڑی محنت کی۔
طارق عزیز نے نیلام گھر کو ایک عام معلوماتی پروگرام سے بڑھا کر اسے ایک تفریحی پروگرام کا درجہ دے دیا۔ ابتداء میں اس کا سب سے بڑا انعام کاواساکی موٹرسائیکل ہواکرتی تھی۔ جسے سب سے پہلے کراچی کے ایک نوجوان اور پاکستان کوئیز سوسائٹی انٹرنیشنل کے چیئرمین عاصم علی قادری نے جیتا تھا، جو برسوں سے لندن میں مقیم ہیں۔
نیلام گھر اپنے ابتدائی دور میں 6 جنوری 1982تک جاری رہا۔ عوام کے بے حد اصرار پر اسے 1985 میں دوبارہ شروع کیا گیا۔ 1990کے عشرے میں اس پروگرام کا نام بدل کر طارق عزیز شو رکھ دیا گیا۔ 1996میں یہ پروگرام بند کردیا گیا۔ مگر 2004میں اسے ایک مرتبہ پھر نئے انداز کے ساتھ شروع کیا گیا۔ چالیس برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو بعد میں بزم طارق عزیز کا ہی نام دے دیا گیا تھا۔
”دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے“ یہ وہ جملہ ہے جو ربع صدی سے زائد عرصے تک لوگوں کی سماعتوں میں گونجتا رہا۔ طارق عزیز جب اپنے شو میں بھاگتے ہوئے لوگوں کے سامنے آتے اور یہ جملہ ادا کرتے تو سب ہاتھ دیوانہ وار تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا کرتے۔
نیلام گھر نے پی ٹی وی کو نئی راہیں دکھائیں، پی ٹی وی کو آمدنی میں اضافے کا ایک نیا ذریعہ ملا۔ اس سلسلے میں پی ٹی وی سیلز کے کارکنوں کی شب وروز کی محنت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
سہیل رعنا نے سنگ سنگ چلیں کے بعد بچوں کو موسیقی کی تعلیم دینے کے لئے سات سروں کی دنیاشروع کیا۔ حسینہ معین نے بچوں کے لئے اپنا پہلا سیریل رومی تخلیق کیا۔
معروف لیجنڈضیاء محی الدین نے پروگرام ”ضیاء کے ساتھ“ شروع کیا۔وہ پروگرام کسی ایک موضوع پر پیش کیا جاتا تھا۔اسے قاسم جلالی نے پروڈیوس کیا۔
نامور ادیب اور فنکار اطہر شاہ خان نے ”انتظار فرمائیے“ کے ذریعہ اپنا مشہور کردار جیدی متعارف کرایا۔
موضوع سخن پی ٹی وی کا ایک یادگار سلسلہ تھا، اس کا موضوع پاکستان کی ثقافت تھی۔نوے (90) منٹ دورانئے کے اس پروگرام میں ملک کے مشہور دانشور لیکچر دیتے تھے۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، فیض احمد فیض اور پروفیسر کرار حسین نے الگ الگ لیکچر دیئے۔
31جنوری 1975کو پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز کے ڈرامہ سیریل ”جھوک سیال“ کاآغاز ہوا اس کی ہدایات یاور حیات نے دی تھیں۔ وہ سید شبیر حسین شاہ کے ناول ”جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل تھا، جسے منوبھائی نے ڈرامائی تشکیل دی۔ جھوک سیال اپنے وقت کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل تھا اور اس میں پنجاب کے جاگیردارانہ ماحول کی بڑے مؤثر انداز میں عکاسی کی گئی۔ ستائیس (27) قسطوں پر مشتمل وہ یادگار ڈرامہ سیریل 5ستمبر 1975کو اختتام پذیر ہوا تھا۔۔ مجھے ابھی تک اس کے ایک کردار کے یہ الفاظ یاد ہیں: ”پیر سائیں آؤ، تے مٹھے چاول کھاؤ‘۔ بہت خوبصورت اور سادہ دور تھا، وہ بھی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے عروج وزوال کو تاریخی ڈراموں کے سلسلے ”آخرِ شب میں موضوع بنایا گیا۔اس کے ڈائریکٹر محمد نثار حسین تھے اور اسے صفدر میر نے تحریر کیا۔
1975میں پی ٹی وی نے اپنی پہلی رنگین دستاویز ی فلم تخلیق کی، اس کا نام”لائف اینڈ اسٹونز“ تھا۔اس فلم میں مہاتما بدھ کی زندگی اور تعلیمات کو پتھر کے مجسموں اور تراشیدہ تختیوں کے ذریعہ بیان کیا گیا۔ جو پاکستان کے مختلف عجائب گھر وں میں محفوظ ہیں۔ اس کا اسکرپٹ سابق وزیر راجہ تری دیو رائے نے لکھا، عکاسی شاہ عالم کی تھی اور پروڈیوسر عبیداللہ بیگ تھے۔
1975میں پی ٹی وی نے ایک اور بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیا۔ شہزاد خلیل مرحوم کے تخلیق کردہ پروگرام ”روحِ مالکوس“کو نویں ہالی وڈ فیسٹیول آف ورلڈ ٹیلی ویژن نے بہترین پروگرام قرار دیا۔
(حوالہ جات: ڈوکیومنٹری: تاریخ و ارتقاء از ناظم الدین۔ ص 154-155، پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری۔ ص 404)