حکیم مجاہد محمود برکاتی کے یوم شہادت پر خصوصی تحریر
وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے، اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ہم اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے اور اپنے پیچھے یادوں کے خزینے چھوڑ جاتا ہے۔ جب میں نے کراچی میں اپنے گھر سے قریب واقع دہلی کالج میں داخلہ لیا تو میری کلاس میں میری ہی طرح ایک دبلا پتلا لڑکا بھی نظر آیا، ویسے تو ہماری کلاس میں بہت سے لڑکے تھے۔ لیکن وہ ان سب سے منفرد تھا، سنجیدہ اور سادگی اور پرکاری کا نمونہ۔ اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے وہ میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ وہ سلام کا جواب اتنی عمدگی سے دیتا کہ روح جھوم اٹھتی، اگلے ہی روز اس سے تعارف بھی ہوگیا اور اس نے بتایا کہ اس کا نام مجاہد محمود ہے اور وہ حکیم محمود برکاتی کا بیٹا اور حکیم مسعود برکاتی کے بھتیجے ہیں۔ حکیم مسعود برکاتی کا نام سنتے ہی میں چونکا، کیونکہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے بچوں کے دیگر رسالوں کے ساتھ ہمدرد نونہال ہی کا مطالعہ کیا اور اس میں مسعود برکاتی صاحب کا نام ہی پڑھتے تھے، اور شہید حکیم محمد سعید ؒ کا جاگو اور جگاؤ۔وہ 22 مئی 1958ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد حکیم محمود برکاتی بھی بہت نیک سیرت انسان تھے۔
چند روز کی ملاقاتوں کے دوران میں نے مشاہد ہ کیا کہ کالج کے بہت سے طلبہ سے مجاہد کی ملاقاتیں ہیں، ان سے بھی جو ہمارے کلاس فیلو نہیں تھے۔ وہ سب بہت شائستہ اور نفیس لڑکے تھے۔ میں نے ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا کہ یہ تمہارے دوست کون ہیں؟ سب ایک ہی انداز کے، بہت اچھے اور بہت بااخلاق۔ میرے اس سوال کے جواب میں وہ بولے کہ ہم سب اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن ہیں۔ اور بغیر کسی توقف کے مجھے بھی دعوت دے دی کہ تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ میں تو اپنے محلے ہی میں جمعیت کا گھائل ہوچکا تھا۔ اس لئے فوری طورپر ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔
جوانی یا لڑکپن میں اکثر دوستوں کے حلقوں میں فحش مذاق گفتگو کابنیادی مرکز ہوتا ہے، لیکن وہاں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ وہاں قرآن وسنت اور سیرت رسول ﷺ کی گفتگو اور یہ فکر کہ دوسرے ساتھیوں کو دین کے راستے پر کیسے ڈالا جائے۔اسی حوالے سے وہ لوگ ملتے اور یہی باتیں ہوا کرتیں۔
مجاہد کے ساتھ بہت سے ماہ وسال گزرے۔ اس دوران بہت سے اجتماعات میں شرکت کی۔ اُس زمانے میں کالجوں اور جامعات میں اسٹوڈینٹس یونینز ہوا کرتی تھیں، اور ان کے ہر سال انتخابات بھی ہواکرتے تھے۔ ویسے تو انتخابات پرامن ہی ہواکرتے تھے لیکن بھٹو صاحب کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان میں تشدد کا رنگ بھی شامل ہوگیا۔ اس طرح ہماری ساتھی تنظیم یعنی این ایس ایف اور پیپلز اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے دوستوں کے تیور اچانک بدل گئے اور اس طرح کالج کے انتخابات کے دوران تصادم کی نوبت بھی آئی۔ لیکن اس وقت تک مسلح تصادم کی نحوست شروع نہیں ہوئی تھی۔ لاتوں گھونسوں یا ڈنڈوں کا استعمال ہواکرتا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران کئی دفعہ میں نے بھی مجاہد کے ساتھ مارکھائی، لاتیں اور گھونسے۔ اور حسب توفیق میں نے بھی جوابی کارروائی کی۔
کالج کے دور میں کئی دفعہ مجاہد کے ساتھ پکنک پر بھی جانے کا موقع ملا، اس میں بھی مجاہد اور جمعیت کے ساتھیوں کا ایک خاص رنگ ہوا کرتا تھا۔ یعنی شائستہ گفتگو، اور ساتھ ہی دلچسپ لطیفے یا اشعار سنانے کے سلسلے۔ جن میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا کلام ہواکر تاتھا۔ ہم لوگ زیادہ تر ٹھٹھہ کی طرف پکنک پر جایا کرتے تھے۔ کبھی کلری، کبھی کنجھر اور کبھی گجو نہر۔ وہاں بھی نہانے اور پانی سے کھیلنے میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ اس لئے ان تفریحات کا مزا ہی کچھ اور تھا۔
وقت کاتیز رفتار پہیہ گھومتا رہا، میں نے دہلی کالج سے انٹرمیڈیٹ سائنس پری انجینئرنگ کرنے کے بعد اپنے شوق کی بناء پر جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد دس سال روزنامہ جنگ اور جسارت اور پھر پورے تیس سال پاکستان ٹیلی ویژن میں گزارے۔
اس دوران کبھی کبھی مجاہد سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ لیکن باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ برقرار نہ رہ سکا، البتہ وہ میرے دل میں ہمیشہ رہے۔اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے گریجویشن کرنے کے بعدطب الجرہت ہمدرد طبیہ کالج سے 1981ء میں اعلیٰ سند حاصل کی اور طب کے حوالے سے کئی عالمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ طب میں ان کا بہت نام ہوگیا تھا اور اللہ پاک نے ان کے ہاتھوں میں شفا دے دی تھی، ان کے مطب پر مریضوں کا رش لگا رہتا۔ وہ برسوں قبل اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے رکن بن گئے تھے اورکچھ عرصے جمعیت الفلاح کے جنرل سیکرٹری بھی رہے تھے۔ بلدیاتی نظام میں اپنے علاقے کے ناظم منتخب ہوئے اور عوام کی خدمت کی۔
وہ 1977ء سے یونانی فارمیسی سے منسلک تھے۔ طب میں رجسٹرڈ پریکٹیشنر نیشنل کونسل آف طب اسلام آباد کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔چائنا انٹرنیشنل ایکوپنچر کالج سے 1993ء میں ایکوپنچر کا ڈپلومہ حاصل کیا۔2006ء میں انفارمیشنل ہلیتھ کیئر ان سکسل میں سرٹیفکٹ کورس پاس کیا۔
ان کی سماجی اور طبی خدمات کا دائرہئ کار بہت وسیع تھا، اور میری مصروفیات الیکٹرانک میڈیا میں بہت زیادہ تھیں اسلئے بھی ہماری ملاقاتیں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ وہ طب سے متعلق قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کرتے رہے اور اس شعبے میں خود کو منوایا۔انہیں اپنے شعبے میں متعدد ایوارڈز بھی ملے۔
ایک دور ایسا بھی آیا کہ کئی برسوں بعد مجاہد سے ملاقات ہوئی تو ان کا وزن بہت بڑھ چکا تھا۔ میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا اور پوچھا کہ وہ دہلی کالج والا دبلا پتلا مجاہد کہاں چلا گیا۔ تو ہنس کر بولے کہ یہیں ہے، لیکن اب ڈبل مجاہد ہوگیا ہے۔پھر یوں ہوا کہ کبھی آرٹس کونسل کے انتخابات میں اور کبھی مختلف پروگراموں میں وہ ملتے رہتے۔ اس کے بعد کبھی کبھار میں نے عائشہ منزل میں تعلیمی باغ کے نزدیک ان کے مطب جانا شروع کردیا۔ جہاں صبح وہ اور شام کو ان کے والد محترم بیٹھا کرتے تھے۔ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔
پھر 9جنوری 2013کو ان کے والد محترم اور میرے بہت شفیق ساتھی حکیم محمود احمد برکاتی کو دہشت گردوں نے بھتہ نہ دینے پر ان کے مطب میں فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا۔ وہ نوے سال کے تھے، ظالموں نے ان کی عمر کا بھی خیال نہ کیا۔ میں بھی فیڈرل بی ایریا کی مسجد رضوان میں ان کی تدفین میں شریک ہوا تھا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی کی دہشت گرد تنظیم کے غنڈے مجاہد کو قتل کرنے آئے تھے، نہ ملے تو ان کے والد حکیم سید محمود احمد برکاتی کو بے دردی سے شہید کر گئے۔ ایک انسان دوست، حکمت کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرنے والے، ضعیف، کئی کتابوں کے مصنف، محققق، دین کے عالم اور شفیق انسان کوشہید کر کے انہیں کیا ملا؟
اس کے بعد بھی وقت نکال کر میں کبھی کبھار ان سے ملنے چلا جایا کرتا تھا۔ وہ سچے دوست تھے، میری خوبیوں کی تعریف کرتے اور خامیوں کی نشاندہی۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے کہ تصنیف و تالیف پر توجہ دیا کرو اور مختلف موضوعات پر مضامین اور کتب تحریر کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہم لوگ اپنے پرانے ساتھیوں کو بھی یاد کیا کرتے تھے۔
افسوس سن 2017کے رمضان کے اختتامی ایام میں 23جون کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے، دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا تھا۔میں وہ دن کبھی نہیں بھلا سکوں گا، جب میرا دوست اور کالج فیلو مجاہد اس دنیا سے رخصت ہوا۔
مجاہد کثیر جہتی شخصیت تھے، حکیم حاذق ہونے کے ساتھ ساتھ مصلح اور ادیب بھی تھے۔ حکمت پران کے مضامین فرائی ڈے اسپیشل کراچی اور ایشیا لاہور میں شائع ہوتے تھے۔ اس طرح ان کی تحریروں کے ذریعے ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ انکی کی ہمہ گیر شخصیت خاص کر طبِ مشرقی، سیاسی سماجی، کلچر اور صحافتی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ طبِ مشرقی کے حکیم حضرات کو طب کے بارے ان کی حاصل کردہ ڈگریوں اورخدمات کو سامنے رکھیں تو ان کو ضرور شک آئے گا کہ سب ان جیسے ہو جائیں۔ ایسے لوگ معاشرے میں کم ہوتے ہیں۔ مرحوم نے اپنی زندگی بہت ہی مصروف گزاری، جس میں سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبے شامل ہیں۔ لیکن میں کبھی اس تعلق کو فراموش نہیں کرسکوں گا،جو برسہا برس رہا اور اب یوں لگتا ہے کہ بہت تیزی سے گزر گیا۔ واقعی وقت کی رفتار بہت تیز ہے، ہمارے وہم وگمان سے زیادہ۔ دانشمند وہی ہے، جو اس وقت سے فائدہ اٹھائے اور اسے ضائع نہ کرے۔ کیونکہ بعد میں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے، صرف پچھتاوا۔۔۔۔۔ !!!!