گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی دیوانے اپنے محبوب کا انتظار کرنے لگتے ہیں، سخت گرمی، لو، ہیٹ ویو اور بجلی کی آنکھ مچولی کو بھول کر ان کی نظریں اپنے محبوب کے رستے پر جمی رہتی ہیں۔ کوئی پیدل، کوئی بائیک پر اور کوئی کار پر۔ کوئی اپنی بالکونی،کوئی اپنی چھت سے اور کوئی اپنے دروازے پر اس کا منتظر رہتا ہے۔ اور ایک دن محبوب بازار میں نظر آہی جاتا ہے اور دیوانے دوڑ پڑتے ہیں،اپنے محبوب ”آم“ کو حاصل کرنے کے لئے۔ لوگ تو آم کو پھلوں کا بادشاہ کہتے ہیں، لیکن میں اسے دلوں کا بادشاہ کہتا ہوں۔
چونکہ سندھ میں گرمیوں کا آغاز پہلے ہوتا ہے اس لیے سندھ کے سندھڑی آم کی فصل پہلے تیار ہوکر مارکیٹ میں آجاتی ہے۔ برسوں سے میرے اسکول کے دوست غلام محمد گبول سندھڑی آموں کا تحفہ بھیج رہے ہیں، ان کا اس سال 18جنوری کو انتقال ہوگیا تو ان کے ساتھ گزرے ہوئے بہت سے لمحات کی طرح یہ خدشہ تھا کہ آموں کے تحفے کا یہ سلسلہ بھی منقطع ہوجائے گا۔ لیکن چند روز قبل جب ان کے بیٹے جاوید کا فون آیا اور انہوں نے یہ نوید سنائی کہ وہ آموں کا تحفہ بھیج رہے ہیں تو کانوں کو یقین نہیں آیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ہی ان کا بھتیجا آموں کی چند پیٹیاں گھر پہنچا گیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
مختصر طور پر غلام محمد گبول کا ذکر کردوں، وہ آٹھویں کلاس میں میری کلاس میں منتقل کئے گئے، ان کے ساتھ ابوالکلام بھی تھے۔ ہم تینوں دوست بن گئے اور اتنے قریبی کہ ہماری دوستی کی مثالیں دی جانے لگیں۔ غلام محمد کے چار بھائی اور تھے، ان کے والد نبی بخش گبول بہت دیندار اور کم گو شخصیت اور سندھ کے اہم زمینداروں میں شامل تھے۔ وہ فیڈرل بی ایریا بلاک بیس میں ایک بڑے سے گھر میں رہتے تھے۔ اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہم تینوں نے الگ الگ تعلیمی اداروں میں داخلے لے لئے۔ لیکن ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہم لوگ کبھی کبھارملتے رہتے تھے۔ میں جسارت میں نیوز رپورٹر تھا، شاید یہ 1983کی بات ہے، ابوالکلام کینڈا سے آیا ہوا تھا، غلام محمد گبول نے فون کرکے بتایا کہ ان کے ابا نے ٹنڈوالہیار کے قریب زمینیں لی ہیں، تم دونوں کو چلنا ہے۔ چنانچہ پہلی مرتبہ سندھ کے دیہی علاقے میں وڈیروں کی شاہی دعوت میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ لوگ گلشن معمار منتقل ہوگئے اور ایک بہت بڑا مکان بنوالیا تاکہ نبی بخش گبول کی اولادیں زیادہ عرصے ساتھ رہ سکیں۔ اس کے بعد وہ ہر سال سندھڑی آموں کی پیٹیاں بھیجنے لگے۔ شاید یہ سلسلہ پیتیس چھتیس سال سے جاری ہے۔
آموں کے تحفے تو پاکستان ٹیلی ویژن کے دور میں ہر سال وزیر اعلیٰ ہاؤس اور ارکان اسمبلی بھی بہت بھیجتے تھے۔ جن میں سے آدھے تو میں آفس ہی میں تقسیم کردیا کرتا تھا۔ لیکن گبول کے آموں کے تحفے کی بات ہی الگ ہے، پتہ نہیں کیوں، سال بھر اسی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال میرپورخاص میں مینگو فیسٹیول ہوتا ہے، جس میں گبول فارم کو ہی اول انعام ملتا رہا۔ دوسال سے کورونا کی وبا کی وجہ سے یہ فیسٹیول نہیں ہوسکا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے بھی اس کی کوریج کی تھی۔
آم تو بازار سے بھی خرید کر کھاتے رہتے ہیں، کیونکہ آموں کا سیزن ختم ہوجاتا ہے لیکن آم کھاکھا کر دل نہیں بھرتا۔ سندھڑی اس لئے پسند ہے کہ اس میں گبول خاندان کے خلوص کی آمیزش ہوتی ہے۔ جبکہ چونسے کے دیوانے ہیں، آم کاٹ کر کھانا، چھلکے اتار کر کھانا، چوسنا، اس کا شیک بنانا اور ایک طویل عرصے تک دوپہر کو آم سے روٹی کھانے کا سلسلہ جاری رہا۔چند سال اسلام آباد میں گزار کر آئے تو آم کھانے کے بعد کچی لسی کی لت پڑ گئی۔ خاص طورپر چھٹی والے دن دوپہر کو پیٹ بھر کر آم کھانے کے بعد کچی لسی پی کر ایسا سرور طاری ہوتا ہے کہ مت پوچھیں۔
ابھی تو آموں کا سیزن شروع ہوا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
آموں کا ذکر ہو اور مرزا غالب کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ بھی آموں کے دیوانے تھے۔ چچا غالب کے بقول آم میں دو خصوصیات ہونی چاہئیں ”اوّل وہ میٹھے ہوں،دوم بہ کثرت ہوں“۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شاعرمشرق علامہ اقبال ؒ بھی آموں کے بے حد شوقین تھے۔ نوجوانی میں آپ کا دستور تھا کہ آموں کی دعوتوں میں شریک ہوتے۔ ان دعوتوں میں اہل لاہور سیروں آم کھا جاتے تھے۔ مشہور ادبی شخصیات اور شاعروں ہی کی طرح اکبرالٰہ آبادی کو بھی آموں سے بڑا عشق تھا اور آموں میں بھی لکھنو کے سفیدے، اور ملیح آباد کے دسہری سب سے زیادہ مرغوب تھے۔ اپنے بے تکلف دوست منشی نثار حسین کو لکھتے ہیں۔
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے۔۔۔اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں۔۔۔پختہ اگر بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس۔۔سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں۔۔۔تعمیل ہوگی! پہلے مگر دام بھیجئے