عظیم صوفی اور روحانی بزرگ، مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی اور صاحب طرز ادیب جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء کو بھیرہ، ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے اور9 ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء کو انتقال کرگئے۔
تفسیر ضیاء القرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، 1971ء سے مسلسل اشاعت پذیر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات کے مدلل علمی جوابات پر مبنی حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔
آپ کے نام کے بارے میں آپ کا اپنا قول ہے کہ ‘حضرت پیر کھارا صاحب’،پیرمحمدکرم شاہ المعروف ‘ٹوپی والے سرکار’ کے ساتھ آپکے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں۔ اس لیے آپکے جدِ امجد پیر امیر شاہ نے انہی کی نسبت سے آپ کا نام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا آپ کا شجرہ نسب شیخ السلام مخدوم بہائالدین زکریا ملتانی سہروردی سے جا ملتا ہے۔
آپ کے والد پیر محمد شاہ ہاشمی تھے۔آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔
خاندانی روایت کے مطابق آپکی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے پوری زندگی کسی کے لیے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔
محمدیہ غوثیہ پرائمری اسکول کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ آپ اس اسکول کے پہلے طالب علم ہیں۔ اس لحاظ سے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آ غاز کیا پہلے استاد کا نام ماسٹر برخوردار تھا جو محمدیہ غوثیہ اسکول میں ہیڈ ماسڑ تھے۔ پرائمری اسکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھی اس لحاظ سے اس اسکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ 1925ء سے 1929ء تک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
1941ء میں اوریئنٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ آپ نے 600 میں سے 512 نمبر لیکر پنجاب بھر میں پہلی پوزیش لیکر فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔
علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام قمر الدین سیالوی، سیال شرف کے حکم پر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں نعیم الدین مراد آبادی سے 1942ء سے 1943ء تک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔
1945 ء میں جامعہ پنجاب سے بی اے کا امتحان اچھے مقام سے کامیاب کیا۔ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔
مصر سے واپس تشریف لا کر آپ نے دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی نشاۃ ثانیہ فرمائی اس کا نصاب ترتیب دیا اور علوم قدیمہ و جدیدہ کا حسین امتزاج آپ نے امت کو فراہم کیا اس وقت دار العلوم محمدیہ غوثیہ کی شاخیں پاکستان، برطانیہ، یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اس ادارہ کے فارغ التحصیل علما بھی پوری دنیا میں دین اسلام کے اجالے پھیلا رہے ہیں۔
1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کیے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
ضیاء القرآن3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔ جمال القرآن قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ ضیاء النبی 7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی تکمیل پزیر ہے۔
سنت خیر الانام اس کا موضوع سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت ہے اور یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی اور یہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔
حکومت پاکستان نے 1980ء میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ء میں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اعزاز دیا۔
9ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔ سجا دہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف خوا جہ محمد حمید الدین سیا لوی نے نماز جنازہ کی امامت کرائی، انہیں ان کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ امیر السالکین میں ان کے دادا جان پیر امیر شاہ کے بائیں جانب سپرد خاک کیا گیا۔
ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہر ی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار عالم اسلام کی ان برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے حصول میں تاریخ کو صدیاں انتظار کرنا پڑتا ہے تب کہیں گلشن انسانیت میں وہ پھول کھلتے ہیں جن کی مہک سے افسردہ دماغوں کو طراوٹ اور پریشان دلوں کو طمانیت نصیب ہوتی ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سیارہ ڈائجسٹ کے مدیراعلیٰ امجد رؤف خان لکھتے ہیں: ”پیر کرم شاہ کی شخصیت ایک ہیرے کی مانند ہے آپ ان کو جس طرف سے دیکھیں ان کی چمک میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ ایک خدا رسیدہ، متقی اور پارسا بزرگ ہیں۔ ان کے چہرے پر روشنی بکھری رہتی ہے جو دوسروں کو بھی تاریکی سے نجات دلاتی رہتی ہے۔ ان کی زبان میں بڑی تاثیر ہے۔ بڑے سادہ دل، خوش اخلاق اور دردمند انسان ہیں۔ اتنے ہلکے پھلکے انداز میں چلتے ہیں جیسے کوئی فرشتہ ہوا میں تیر رہا ہو،یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ زمین کو بھی دُکھانا نہیں چاہتے، اس تاریخ ساز شخصیت نے اپنے علم و حکمت کے نور اور اخلاق کے زور سے اجڑے ہوئے انسانوں کو فرشتہ سیرت بنایا ہے۔“
محسن پاکستان نامور سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے فرمایا:”حضرت پیر صاحب ساری ملت کا سرمایہ ہیں اور ان کی یہ تصنیف ساری امت کے لئے ایک تحفہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ضیاء النبی، حضور سرکار مدینہ ﷺ کے رخ انور کی ضیا پاشیوں سے ہماری زندگی کی تاریک راہوں کو جگمگا رہی ہے۔ وہ لوگ یقیناً خوش قسمت ہیں جو اس کے مطالعہ سے اپنے دل و دماغ کو منور کریں گے۔“