قیام پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا یا سیکولر؟ جن لوگوں نے پاکستان کی تحریک میں مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کے قیام، جداگانہ مسلم تہذیب، دو قومی نظریہ، اسلامی احکام و قوانین پر مبنی اسلامی سوسائٹی کی تشکیل، اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ کے وعدوں و نعروں کی فضا میں ایک نئے اور الگ ملک کے شہری کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا، ان کا مطالبہ تھا کہ ملک کا دستور اسلامی ہو اور پاکستان کو نظریاتی اسلامی ریاست کی حیثیت سے دنیائے اسلام کے لیے ایک راہ نما اور مثالی ملک کی حیثیت سے آگے لایا جائے۔ جیسا کہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے افکار اور بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے متعدد خطابات و بیانات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ مگر دستور ساز اسمبلی میں ایک اچھی خاصی لابی ایسی بھی موجود تھی جو امور مملکت میں دین کو شریک کار دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی اس لیے اس کا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان کا دستور سیکولر ہو اور مغربی ممالک کی طرح دین اور مذہب کے معاملات کو ہر شہری کا ذاتی اور نظری معاملہ قرار دے کر اجتماعی نظام کو ان سے لاتعلق کر لیا جائے۔
اس کشمکش کی فضا میں دستور ساز اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور اسمبلی کے باہر مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، اور مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ جیسے اکابر نے مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم کو بالآخر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ دستور سازی کے راہنما اصول کے طور پر ایک قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی سے منظور کرائیں جس میں پاکستان کو نظریاتی اسلامی ریاست قرار دے کر اسلامی احکام و قوانین کی معاشرہ میں عملداری کا عہد کیا گیا ہو۔ چنانچہ لیاقت علی خان مرحوم نے 7 مارچ 1949ء کو یہ قرارداد پیش کی اور تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد 12 مارچ کو دستور ساز اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کر لی۔
قرار داد مقاصد كا مكمل متن
(يہ قرار داد 12 مارچ 1949ء كو پاكستان كى پہلی دستور ساز اسمبلى نے منظور كى۔
يہ قرار داد پاكستان كے آئین کے ليے رہنما اصول متعين كرتى ہے۔)
اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکت ِ غیرے حاکم ِمطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔
مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
جس کی رو سے اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں،اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے،عمل کر نے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیےآزاد ہوں۔
جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں،ایک وفاق بنا ئیں گے
جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون واخلاق اجازت دیں، مساوات،حیثیت ومواقع کی نظر میں برابری،عمرانی،اقتصادی اور سیاسی انصاف،اظہارخیال، عقیدہ، دین،عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہو گی۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جا ئز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
جس کی رو سے نظام ِعدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہپو گی۔
جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت،آزادی اور جملہ حقوق ،بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔
تاکہ اہل ِپاکستان فلاح وبہبود کی منزل پا سکیں اور قوام عالم کی صف میںاپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے اپنا بھر پور کردارادا کر سکیں ۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے قرارداد پیش کرتے وقت اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ شاندار کارناموں سے بھرپور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے فوجی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارکانِ نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانے کی دست برد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون‘شعر و شاعری‘ فن تعمیر اور جمالیاتی ذوق نے دنیا بھر سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہی قوم راہِ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابق عظیم الشان روایات سے بھی بہتر کام کر دکھائے گی۔ قراردادِ مقاصد اس ماحول کو پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس سے قوم کی روح پھر سے بیدار ہوجائے گی۔‘‘ان کے اختتامی الفاظ یہ تھے: ’’بڑی قوموں کو اپنی میراث روز روز نہیں ملتی۔ قوموں کی نشأۃ ثانیہ کا دروازہ ہر روز نہیں کھلتا۔ قدرت ہر روز مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی بار بار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر ظاہر ہوکر طلوع ہونے والے روزِ روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں اور ہم اس طلوع کا اس قرارداد کی شکل میں خیرمقدم کرتے ہیں۔‘‘
یہ قرارداد جو پاکستان کے ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست ہونے کا دوٹوک اعلان ہے اور جس نے ملک کی وفاقی حیثیت، جمہوری طرز حکومت، اقلیتوں کے جائز حقوق، پسماندہ طبقات کے حقوق، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق، صوبائی خودمختاری اور مساوات و حریت جیسے اہم بنیادی مسائل پر دوٹوک فیصلے دے کر ان پر بحث و تمحیص کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے ۔
1956ء سے 1973ء تک پاکستان کے تمام دساتیر میں یہ قرارداد بطور دیباچہ شامل رہی تاہم صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے 2مارچ 1985ء کو 1973ء کے آئین میں ترمیم کرکے اسکے آرٹیکل 2میں شق الف کا اضافہ کردیا اور یوں قراردادِ مقاصد پاکستان کے آئین کا مستقل حصہ بن گئی۔ یہ امر پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کے مخالفین اور سیکولرازم کے علمبرداروں کے لئے آج تک سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔
جسٹس حمود الرحمٰن نے قراردادِ مقاصد کے متعلق کہا تھا کہ اِسے ابھی تک کسی نے منسوخ نہیں کیا، نہ کسی عہدِ حکومت، فوجی یا سول میں اِس سے اِنحراف کیا گیا۔ بلاشبہ یہ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ اُن اساسی اُصولوں میں سے ایک ہے جنہیں قرآن میں تقدس حاصل ہے
قراردادِ مقاصد کے ناقدین اسے اقلیتوں کے حقوق کے منافی اور نظریۂ پاکستان کو ایک افسانہ قراردیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے رہنما عوام اور نوجوان نسل کو یہ باور ہی نہیں کراسکے کہ نظریہ ابدی ہوتا ہے‘ لافانی ہوتا ہے‘ لہٰذا ہم نظریۂ پاکستان سے الگ ہوکر اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ یہ ایک نظریاتی مملکت ہے جس کے تقاضے لادینی ریاست سے بالکل مختلف ہیں۔ ہماری بقاء ہمارے اساسی نظریے سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔ چنانچہ ہمیں اس عظیم نظریہ کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہئے۔ سیکولر نظام کی نہ تو آئین اور نہ ہی قانون اجازت دیتا ہے
اس سلسلہ میں مزید تفصیلات میں جائے بغیر ہم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس قرارداد کا پھر سے مطالعہ کریں، بار بار اس کے مضمرات اور تقاضوں کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ دستوری حوالوں سے ہم آج جن الجھنوں کا شکار ہیں اور جو دستوری مسائل ہمیں مسلسل پریشان کر رہے ہیں وہ اس قرارداد کے ذریعہ نصف صدی قبل اصولی طور پر طے کیے جا چکے ہیں اور وہی ہمارے مسائل و مشکلات کا اصل حل ہیں۔ اب ہمارا خود ہی صحیح سمت چلنے کو جی نہ چاہے تو اس کا کسی کے پاس کیا علاج ہے؟
اگرچہ قیامِ پاکستان کے بعد مختلف گروہ اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کا بننے والا آئین اسلامی اصولوں پر مبنی ہو مگر ان کے درمیان اسلامی آئین کے قطعی تصور اور نوعیت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی تھی۔ علماء اور سیاسی دانشوروں کے درمیان اسلامی آئین کی وضاحت پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
اسلام پسند / دائیں بازو کے علمبردار طبقے پاکستان کے سارے مسائل کی وجہ قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان میں دئے ہوئے اسلامی قوانین پر عمل درآمد میں ناکامی کو گردانتے ہیں جبکہ دوسری طرف سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل دانشور قرارداد مقاصد میں موجود اسلامی دفعات کو تمام معاشرتی مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔ اسلام پسند پاکستان کو حقیقت میں ایک اسلامی اور جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں امور مملکت اسلام کے زریں اصولوں کے تحت وضع ہوں اور مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے گئے ہوں۔ لبرل طبقے پاکستان کو ایک جدید ، فلاحی و جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں پاکستان کے سارے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور یہ لوگ ریاست کے امور میں سے مذہب کے عمل دخل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
بائیں بازو کے دانشور کہتے ہیں کہ آئین سازی کے لیے قرارداد لاہور (منظور شدہ لاہور 1940) کو بنیادی دستاویز قرار دینا چاہئے۔ قرارداد لاہور ہی اصل میں تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرارداد لاہور ( جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا ) میں کہیں بھی ‘اسلامی ریاست’ ، ‘شرعی نظام’ یا ‘اسلامی نظام’ کی اصطلاحیں موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کی تقریر( جو انہوں نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کے دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر کی تھی ) میں بھی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے بڑے واضح الفاظ میں پاکستان کو تمام مذاہب کو لوگوں کو ایک جیسے مواقع کی فراہمی کا وعدہ کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی کے بقول ایک ہندو لیڈر نے قرارداد مقاصد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے ابا و اجداد تو صدیوں سے اس ملک میں آباد ہیں ، لیکن اس قرارداد نے تو ایک لمحے میں ہمیں اجنبی بنا کر ہمارے سارے حقوق سلب کرلیے ، جیسا ہمارا اس ملک سے کوئی تعلق ہیں نہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کو سیاست میں دخل اندازی کی گونج مجھے مستقبل میں سنائی دے رہی ہے کہ آگے چل کر اس ملک کا کیا حشر ہوگا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان (احمدی) نے انہیں تسلی دی کہ اسلام میں اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل ہیں۔
اس قرارداد کی چونکہ تمام مسلمان اراکین نے حمایت کی اور اپوزیشن پارٹی پاکستان نیشنل کانگریس نے مخالفت کی۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے تمام اراکین ہندو تھے لہٰذا اس قرارداد نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر تقسیم کر دیا۔
قرار داد مقاصد اسلام کے اصول جمہوریت ، حریت ، مساوا ت ، رواداری اور سماجی انصاف کی علمبردار ہے ۔ لیکن قرارداد مقاصد کے حمایتیوں اور مخالفین دونوں نے اس میں صرف اسلام کا لفظ اُچک لیا ہے اور ان کے دلائل صرف اس کے حق اور مخالفت میں گردش کرنے لگے۔ جمہوریت ، وفاقی طرز حکومت ،اقلیتوں کے حقوق، حریت، مساوات ، رواداری و سماجی انصاف جیسے اوصاف جن پر دونوں کا اتفاق ہے ان کو انہوں نے نظر انداز کردیا۔ وہ مذہبی طبقے جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے ان پر قرارداد مقاصد کی منظوری سے اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی جدوجہد کے دروازے کھل گئے۔
1956 اور 1962 میں جب ملک کے لیے آئین بنائے گئے تو قرارداد مقاصد کو اس کے افتتاحیہ میں رکھا گیا لیکن ان دستوروں میں وفاقی طرز حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کو اختیارات دئے گئے۔ دونوں آئینوں میں ایک ایوانی مقننہ قائم کیا گیا اور سینٹ کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ۔ سینیٹ کی تخلیق کا بنیادی مقصد تمام وفاقی اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا ہوتا ہے۔ 1955 میں جب مغربی پاکستان کو ون یونٹ سکیم کے تحت ایک صوبہ بنایا گیا تو یہ صوبائی خودمختاری پر حملہ تھا ۔ اسی طرح جب 1958 میں مارشل لا نافذ ہوا تو جمہوریت کا قتل تو اصل میں قرارداد مقاصد کی موت کے برابر تھا۔ عدلیہ کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق میں ہمارا ملک ابھی بھی بہت پیچھے ہے ۔ ملک میں آزادی کے بعد 24 سال تک انتخابات نہ کرانا قرارداد مقاصد سے رُوگردانی تھی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ، 1973 کے آئین میں مضبوط مرکزی حکومت کا قیام اور ضیاء الحق و پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں کے قیام جیسے اقدامات بھی قرارداد مقاصد کی روح کے خلاف تھے ۔
پاکستان کو اگر صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بنانا ہے تو صورتحال کو وہیں سے ٹھیک کرنا ہوگا، جہاں سے وہ خراب ہوئی تھی ۔ ہمیں قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی روشنی میں اس ملک کے عوام کی بلا تفریق مذہب ، نسل و جنس حق شہریت تسلیم کرنا ہوگا ۔ قرارداد مقاصد کے ایک ایک حرف پر عمل کے ذریعے ہی پاکستان کی تعمیر ہونی ہے اور ایسا ہونا دیوار پر لکھی تحریر ہے ۔ جب تک آمریت ، جبر ، طبقاتی تقسیم ، فرقہ واریت ، تنگ نظری اور ظلم کے دروازے بند نہ ہونگے تب تک پاکستانی معاشرہ اسلامی ، پُرامن ، خوشحال اور آسودگی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے۔
قائداعظم کی دستور ساز اسمبلی سے پہلی تقریر ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ آپ نے 11 اگست 1947 کو مجلس دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، ” آپ آزاد ہیں ، آپ مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار ریاست کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا ، نہ مسلمان مسلمان ۔ مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے”۔
قرارداد مقاصد چونکہ آئین کا باقاعدہ حصہ ہے اور اس کا متن ضمیہ میں موجود ہے۔ لہٰذا اگر کسی حالات میں آئین کو منسوخ بھی کیا جائے تو قرارداد مقاصد خود بخود منسوخ یا تحلیل نہیں ہوگی۔
چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، اس لئے یہ بحث لاحاصل ہے کہ اس میں اسلامی نظام ہو یا لبرل ۔ کیونکہ اسلامی نظام دیگر مذاہب کی نفی نہیں کرتا اور نہ ہی لوگوں کی انفرادی آزادی کو سلب کرتا ہے ۔ لیکن اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں اب اسلام ہی اجنبی بن کر رہ گیا ہے ۔