بہت سی شخصیات کی خواہش ہوتی ہے کہ تاریخ میں ان کا بھی ذکر آجائے، لیکن بعض شخصیات کے نام شامل کرنے پر تاریخ کو فخر ہوتا ہے ۔ ان ہی میں ایک بڑا نام شیخ سعدی شیرازی کا بھی ہے ۔ آپ کا اسم گرامی شرف الدین، لقب مصلح الدین اور سعدی تخلص ہے
وہ سنہ 1210ء میں ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے اور 1292ء میں شیراز ہی میں وفات پاگئے
شیخ سعدی کے سوانح لکھنے والوں نے کہا ہے کہ شیخ نے اپنی زندگی میں چار کام کئے ہیں، تقریبا تیس سال تک تعلیم حاصل کرتا رہا ، تیس سال سیرو سیا حت کی ، تیس سال تصانیف کی ہیں اور بقیہ زندگی گوشہ نشینی میں گزاری ہے۔ غرض شیخ نے اپنی زندگی اچھے کاموں میں صرف کی ہے۔
شیخ کے والد عبداﷲ شیرازی شیراز کے حکمران سعد زنگی کے ساتھ ملازم تھے، چونکہ شیخ کو بچپن ہی سے ادب اور شعرو شاعری کا شوق تھا۔اس لیے بچپن سے ہی حاکم وقت کی مناسبت سے آپ نے سعدی تخلص تجویز فرما لیا تھا ۔
آپ کا خاندان علم و فضل کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اس خاندان کے اکثر افراد علماء دین تھے چنانچہ ان سے کسب علم کیا ۔
آپ کے والد کی وفات آپ کے بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ اپنی جوانی میں، سعدی نے غربت اور سخت مشکلات کا سامنا کیا اور بہتر تعلیم کے لیے آپ نے اپنے آبائی شہر کو خیرباد کہا اور بغداد تشریف لے آئے۔
آپ نے المدرسة النظاميہ میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے اسلامی سائنس، قانون، حکومت، تاریخ، عربی ادب اور اسلامی الٰہیات کی تعلیم حاصل کی ۔
سعدی شیرازی نے جامع نظامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد متعدد ملکوں کی سیاحت کی۔ وہ شام، مصر، عراق، انتولیا بھی گئے، جہاں بڑے شہروں کی زیارت کی، گاہکوں سے بھرے پررونق بازار دیکھے، اعلیٰ درجہ کے فنون لطیفہ کے نمونوں سے محفوظ ہوئے اور وہاں کے علما اور فن کاروں سے ملاقاتیں کی۔
آخر کار وہ جہادی صوفیوں کے ایک گروہ میں شامل ہو گئے، جو صلیبی جنگوں میں شریک تھا۔ ان کے ساتھ مل کر انہوں نے جنگیں لڑیں۔ ایک ایسی ہی جنگ میں وہ جنگی قیدی بنے اور سات سال اس کیفیت میں گزارے۔ ایک غلام کی حیثیت سے وہ خندقیں کھودنے کے کام پر متعین رہے۔ مملوکوں نے تاوان ادا کیا، تو جنگی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ،جن میں سعدی شیرازی بھی شامل تھے۔
قیدسے رہائی کے بعد سعدی شیرازی بیت المقدس چلے گئے۔ وہاں سے مکہ اور مدینہ کا رُخ کیا۔ بیس برس کی طویل مسافت کے بعد سعدی شیرازی آخر کار اپنے آبائی وطن ایران پہنچے ،جہاں انہیں اپنے پرانے رفقا کی صحبت میسر آئی۔
خراسان میں ان کی ملاقات ایک ترکی امیر طغرل سے ہوئی، جن سے بہت جلد گہری دوستی ہو گئی۔ وہ سعدی شیرازی کو ساتھ لیے سندھ گیا، جہاں انہیں پیر پتر سے ملنے کا موقع ملا، جو ایرانی صوفی شیخ عثمان مروندی کے پیروکار تھے۔ اس سفر میں وہ برصغیر بھی آئے اور وسطی ایشیا کے ممالک کی بھی سیر کی، جہاں و منگول حملوں سے بچے رہنے والے مسلمانوں سے ملے۔ یہی طغرل بعد ازاں سلطنت دہلی کی ملازمت میں داخل ہو گیا۔ اس نے سعدی شیرازی کوبھی اپنے ہاں مدعو کیا۔ سعدی شیرازی، جو ثقافتوں کی رنگا رنگی کے شائق تھے، اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے چل پڑے اور دہلی اور گجرات میں جا کر رہے۔ اس دورمیں انہیں سومناتھ کے تاریخی مندر کی سیر کابھی موقع ملا ۔
خطے کے نامور شاعر ہونے کے باوجود سعدی نے محسوس کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی ابھی تک ضائع کی ہے اور کوئی خاطر خواہ قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اس وجہ سے انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی خاموشی کے ساتھ گزارنے کا عہد کر لیا۔
لیکن پھر ایک دوست کے اصرار پر انھوں نے اپنی قسم توڑ دی۔ وہ شیراز میں موسم بہار کا زمانہ تھا اور دونوں دوست باغ بہشت میں سیر کے لیے نکلے تھے۔
حیرت انگيز طور پر پھول اور جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے بجائے سعدی نے شاعر اور فلسلفی خیام کے انداز میں ان اشیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھيں گے جو تعلیمی بھی ہو اور دلچسپ بھی ہو، اس کا نام گلستاں ہوگا جس کے صفحات ہمیشہ رہیں گے۔
انسانیت سوز اور دہشت کے ماحول کے باوجود سعدی پرامید تھے۔شاعر نے اپنے قول کا پاس رکھا اور وہ درست تھے۔ ان کی دوسری کتاب بوستاں کے ساتھ ان کی تصنیف گلستاں صدیوں سے فارسی ادب کے بہترین فن پاروں میں شمار کی جاتی ہے۔ سعدی نے لکھا:
بنیآدم اعضای یک پیکرند
که در آفرينش ز یک گوهرند
یعنی ‘انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور وہ ایک ہی جسم کے اعضا ہیں’۔ یہ آج نہ صرف ان کی سب سے زیادہ نقل کی جانے والی نظم ہے بلکہ یہ فارسی زبان بولنے والی دنیا کی سب سے مشہور نظم بھی ہے۔ اس کے آگے وہ کہتے ہیں:
چو عضوى بهدرد آورَد روزگار
دگر عضوها را نمانَد قرار
تو کز محنت دیگران بیغمی
نشاید که نامت نهند آدمی
یعنی ‘اگر کسی عضو کو تکلیف ہو تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے انھیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔’
اگر قرون وسطی کے دوسرے فارسی شاعروں کو ان کی عشق و محبت کی شاعری، قدیم ایران کے ہیروز کی رزمیہ داستانوں، بہادری کے قصوں یا پھر انسانی نفسیات اور اس عظیم کائنات میں ان کے مقام کے ذکر کے لیے یاد کیا جاتا ہے وہیں سعددی کو انگریزی کے مشہور شاعر لارڈ بائرن کی زبان میں ایران کے ‘اخلاقی شاعر’ کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔
یورپ میں شہرت حاصل کرنے والے اولین فارسی شعراء میں سعدی نے فرانس اور دیگر جگہوں پر والٹیئر، ڈیڈرو، گوئٹے، اور وکٹر ہیوگو جیسے روشن خیالی اور رومانوی مصنفین پر واضح اثرات مرتب کیے۔
وکٹر ہیگو نے تو اپنی تصنیف لیس اوریئنٹلز کے تعارف میں گلستان کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ جب کہ والٹیئر نے مذاقا اپنے زرتشتی ہیرو زادگ کی کہانی کے پیش لفظ کو سعدی سے منسوب کیا ہے تاہم ان کی اہم تصانیف میں سعدی کے اثرات سطحی سے کہیں زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر مظفر بہراد نے اپنی کتاب ‘لٹریری فارچونز آف سعدی ان فرانس’ میں لکھا ہے کہ ‘سیرندیپ کا ماڈل بادشاہ ، اس کے وزیر، کامل معاشرہ، سب سعدی سے متاثر ہیں۔’ انھوں نے کہا کہ ‘والٹئر نے فلسفے کے لیے سعدید سے حقیقی رہنمائی حاصل کی ہے’ یہاں تک کہ ‘ان کے روایتی دشمن ، ایلی فیروں نے والٹئر پر تنقیدی حملے کے دوران انھیں ‘سعدی’ کے نام سے بھی مخاطب کیا ہے۔’
امریکہ میں سعدی نے رالف والڈو ایمرسن کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ایمرسن نے شاعر (سعدی) کی شان میں اپنی نظم میں سعدی کو ‘انسانی دلوں کا دلدار’ کہا ، اور ان کی ‘حکیمانہ باتوں’ کو آفاقی کہا۔۔
سعدی کو گلستان اور بوستان تحریر کیے ہوئے بہت سے خزاں کے موسم گزر چکے ہیں لیکن جیسا کہ صدیوں پہلے شیراز واپس آنے کے بعد انھوں نے پیش گوئی کی تھی ان کی حکمت اور دانشمندی سے بھری یہ کتابیں وقت کی آزمائش پر پوری اتری ہیں۔ یہاں ایک شاندار باغ میں ان کا مزار واقع ہے جو کہ مرجع خلائق ہے۔
شاعر کے الفاظ میں: ‘پانچ دن یا چھ- ایک پھول کی زندگی مختصر ہے۔ یہ باغ بہر حال سدا بہار ہے۔’
گُل همین پنج روز و شش باشد
وین گلستان همیشه خوش باشد
تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان سے ملتان کے حاکم نے قاصد بھیج کر آپ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی اور زاد راہ بھی بھیجا اس وقت آپ بہت ضغیف ہو چکےتھے اس لیے معذرت کی اور اپنی باقی عمر شیراز کی ایک خانقاہ میں گوشہ نشینی اختیار کر کے گزاری ، جو شیراز سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر رکن آباد کے کنارے واقع ہے۔ آپ نے اس خانقاہ کو مرتے دم تک نہیں چھوڑا اور آخر 691 ھ میں خانقاہ میں ہی دفن ہوئے۔آپ کا مزار سعدیہ کے نام سے مشہور ہے اور زیارت گاہ خاص وعام ہے۔
بعد از وفات تر بت ما در زمیں مجوی درسینہ ھای مردم عارف مزار ما است
حاکم ملتان کی دعوت سے پتہ چلتا ہے کہ سعدی کی شہرت اس کے زندگی میں دنیا میں پھیل چکی تھی چنانچہ وہ خود بھی گلستان کے دیباچہ میں سعدی کا ذکرِ جمیل عام لوگوں تک پہنچ چکا ہے اور کلام کی شہرت روئے زمین پر پھیل گئی ہے۔ صاحب ذوق لوگ کلام سے لطف اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افاقی ہونے کا ذیل اشعار میں ذکر کر کیا ہے۔
کس ننا لید در این عہد چو من بر در دوست کہ بافاق سخن نہ رود از شیرازم
﴿دوست کے در تک جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ شیراز سے با تیں پھیل کر رہتی دنیا تک جا رہی ہیں ﴾
ان کی عظمت کی یہ بھی دلیل ہے کہ آج آٹھ سو سال کا عرصہ گز ر جانے کے بعد بھی ایران سے باہر کے ملکو ں میں ان کی تصنیف کردہ کتاب گلستان کسی نہ کسی شکل میں نصاب میں شامل ہے ۔