ہر دلعزیز اور قادر الکلام اردو شاعر نصیر ترابی کا 10 جنوری کو کراچی میں انتقال ہوگیا ۔ ان کی عمر 76 سال تھی ۔
نصیر ترابی 15 جون 1945ء کو ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نامور شیعہ ذاکر علامہ رشید ترابی تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے۔ 1968ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں شاعری کا آغاز کیا۔
ان کا اولین مجموعۂ کلام عکس فریادی 2000ء میں شائع ہوا۔ ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔
آپ علمی ادبی اور دینی شناخت والے خاندان کے روشن چراغ تھے۔ خود بھی لسانیات کے ماہر تھے اور زبان و بیان کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ اور رو رعایت نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب ‘شریات’ کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ نصیر ترابی مستند اعلی درجے کے شاعر اور مشہور ہونے کے باوجود شہرت سے دور رہتے تھے انہوں نے اکثر پاکستان ٹیلی وژن کے مشاعروں کی نظامت کی۔
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی