محترم طاہر حنفی صاحب کا دوسرا مجموعہ کلام” گونگی ہجرت”کچھ ماہ پہلے مجھے موصول ہوا۔تدریسی مصروفیات کے باعث میں اس کا مکمل مطالعہ نہیں کر سکی لیکن جب بھی موقع ملا کچھ اشعار اور نظمیں پڑھ کر دل بے اختیار چاہا کہ قلم کے ذریعے اس کا اظہار کروں سو آج یہ موقع بھی مل گیا ۔طاہر حنفی کسی تعارف کے محتاج نہیں “شہر نارسا” کے ذریعے بین القوالامی شہرت حاصل کرنے والے اس شاعر کی شان میں کچھ کہنا مجھ ناچیز کے بس میں نہیں۔ “گونگی ہجرت”ارود ادب کے خزانے میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور نئ نسل کے لئے مشعل راہ پے
شاعری زبان کا لطف اور دل آویزی ہے۔وقت وحالات اور فضا کی تبدیلی سے زبان کے ذریعہ تبدیلی پیدا کر کے اصل مدعا بیان کرنے کا فن ہے۔ طاہر حنفی کے یاں اس کا ادراک اور عمل دخل ہے۔انہوں نے نہ صرف مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کی بلکہ میں یہ کہوں گی کہ ایک ہی شاعر کے یاں مختلف النوع مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انکی غزلیں نہ صرف معیار پر پورا اترتی ہیں بلکہ جدید طرز شاعری کی بہترین مثال ہے۔ان کی غزلوں اور نظموں میں تصنع نام کو نہیں۔زبان اور محاورے کو جس طرح برتا گیا ہے۔وہ حنفی صاحب کا کمال فن ہے۔
کیا ہے ایک گونگی سی ہجرت
نیلاپانی،جھیل،۔۔۔۔۔۔۔سمندر
طاہر حنفی محبت اور وصل کے سرابوں اور ہجر اور ہجرت کے عذابوں سے گزرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زندگی میں خوشی کے لمحے اگر مختصر ہوتے ہیں تو ہجر کے لمحے طویل ہوتے ہیں۔ طاہر حنفی بڑے شاعر ہیں جن کے سینے میں ایک حساس دل دھڑکتا ہے جب ہی تو ہجرت کا دکھ بھی ہے،محبت کا گہرا احساس بھی،امید اور رجا کی کیفیت بھی۔۔اور ایک اچھا شاعر وہی ہوتا ہے جو زمانے کے دکھ، شوق،جذبے اور وجدان کے لفظوں کو جامہ پہناتا ہے۔ اور ان کا انداز براہ راست دل پر اثر انداز ہوتا ہے اور پڑھنے والوں کے خیالات میں بدل جاتا ہے۔
گونگی ہجرت پاوں سے میرے لپٹی رہتی ہے
سات سمندر پار سے بولے میری چپ کا شور
ہم نے دیکھا ہے ہجر کا دوزخ
ہم نے دنیا میں ہی عذاب سہے
دل کسی سانحے سے ڈرتا ہے
آئینہ آئینے سے ڈرتا ہے
وہ میرے ساتھ تھا ہر وقت میرا سایہ تھا
جس کو میں ڈھونتا پھرتا رہا دنیا دنیا
طاہرحنفی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خیر وشر میں توازن رکھتے ہیں شر کو کبھی خیر پر حاوی نہیں ہونے دیتے ۔اور ساتھ ساتھ درس بھی دیتے ہیں ؎
بھٹکے ہوئے مزاج کے لوگوں کے شہر میں
گر ہو سکے تو سب سے بھلائ کا جرم کر
ناز کرنے والے ہیں جو عروج پر اپنے
کیا وہ بھول بیٹھے ہیں لمحہ زوال اپنا
پڑھو تو امن پڑھو لکھو تو خیر لکھو
ورق ورق پر نہ تم شور و شر کی بات کرو
طاہر حنفی نے اپنی اس کتاب میں کسی بھی عنوان کو تشنہ نہیں چھوڑ، بالخصوص ان کی نظمیں، سانحہ ساہیوال،سانحہ پشاور،ہجرت،میں مجرم ہوں،کھوکھلے جسموں کا سراب،اور نوید مستقبل۔۔وغیرہ۔
ان کی شاعری میں شریک حیات سے جدائی کا الم ناک احساس بھی ہے جو خالصتاً ان کا غم ہے لیکن جب وہ بیان کرتے ہیں تو پڑھنے والے کو بھی آبدیدہ کر دیتے ہیں
لب ہلے نہیں لیکن آنکھ سے کہا اس نے
میرے بعد رکھو گے کس طرح خیال اپنا
اسی طرح اولاد کی محبت بھی امید نو کی صورت میں موجود ہے۔
بیٹے کو دیکھ کر میری آنکھیں چمک اٹھیں
طاہر وہ سو گیا ہے میرے پاؤں داب کر
اس شعر میں آنکھوں کی چمک ایسی امید ہے جو ایک باپ ہی سمجھ سکتا ہے۔
طاہر حنفی کی شاعری پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ہر ہر شعر اور ہر نظم پر اظہار خیال کیا جاسکتا ہے۔
المختصر یہی کہونگی کہ جب انسانی شعور اپنی راہیں متعین کرتا ہے اور احساسات و جذبات جب تہذیب و تشکیل کی منزلوں سے گزرتے ہیں اور تمام تجربات کے دیئے ہوئے زخم تکلیف دہ ہونے کے باوجود طاہر حنفی کی شاعری میں انہیں عزیز ہیں۔مجھے لگتا ہے انہوں نے کوئی شعر رسماً نہیں کہا اور اس وقت تک نہیں کہا جب جذبہ یا احساس ان کے وجود کا مکمل جزو نہ بن گیا ہو
میں کھیل کھیلا ہوں طاہر خود اپنی شرطوں پر
اسے شریک کیا خود ہی حکمرانی میں
ان کا ہر شعر اعتماد نفس سے معمور ہے۔شاعر کا تاثر ایک مصرع سے ظاہر ہوجاتا ہے جو پڑھنے والوں کو متاثر کیئے بغیر نہیں رہتا۔ان کے شعروں میں زندگی رقص کناں ہے اور ہر لفظ ان کے دل کی دھڑکن میں پوشیدہ ہے۔جو ایک مکمل معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے ۔آخر میں دعاگو ہوں کے اللہ رب العزت انکے زور قلم کو روانی عطا فرمائے۔
مجھے یقین کامل ہے کہ ان کا آنے والا تیسرا مجموعہ “خانہ بدوش آنکھیں “بھی مقبول عام ہو گا۔انشااللہ۔