رسائل اور جرائد کی اہمیت کتابوں سے کم نہیں ہے بلکہ زیادہ ہی ہے ۔علم و ادب کی ترویج و ترقی اور ترسیل میں فکر و خیال کے ابلاغ میں اور معلومات کی اشاعت میں رسائل کتابوں سے زیادہ اہمیت کے حامل اور کارآمد ہوتے ہیں کتابوں کی اہمیت واضع اور مسلم ہے معلومات کی نئی ترتیب علمی گہرائی و گیرائی کے نتیجےمیں کتاب لکھی جاتی ہے اس سارے عمل میں وقت لگتا ہے جبکہ رسائل کا معاملہ ذرا مختلف ہے ان کے ذریعہ سے ادبی معاشرے میں تازہ ہوا آتی ہے تازہ تازہ افکار و معلومات کی اشاعت رسائل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے ۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب رسائل ہی کہ توسط اور وسیلے سے نئے خیالات اور جدید رجحانات اور نئے اسالیب سے روشناس ہوا۔ 1950 تا 2000 تک ادب کا سنہری دور تھا اور اس دور میں بڑے اور مشہور جریدے نکلتے تھے۔ ان میں نقوش، فنون ، اوراق اور ادب لطیف ۔ نقوش اور اوراق بند ہو گئے جبکہ فنون جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد تعطل کا شکار رہا لیکن بعدازاں پھر شروع کیا گیا لیکن ادب لطیف 1935 سے شروع ہونے کے بعد آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور صدیقہ بیگم کے دم سے آج بھی ادب کے در و دیوار کو اپنی روشنی سے جلا بخش رہا ہے۔
یہ لوگ بھی غضب کے ہیں دل پہ یہ اختیار
شب موم کر لیا سحر آہن بنا لیا
علم و ادب کی وہ شخصیت جو چوہدری برکت علی کے گھر میں یکم جنوری 1939میں پیدا ہوئیں اور 15 دسمبر 2019 کو اس دنیا سے سے کوچ کر گئیں اور اس کے ساتھ ہی تانیثیت پر مبنی سوچ کا کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔
صدیقہ بیگم نے خواتین ادیبوں کے لیے راہ متعین کی اور مضبوط روایت کو مستحکم کیا جسے ان کے بعد آنے والی ادیباوں کو پروان چڑھانا ہے۔صدیقہ بیگم اردو ادب کی ایسی محسن تھیں جن کی زندگی ادب لطیف کے لئے وقف تھی اور ادب لطیف کی ترقی ان کا اولین مقصد تھا۔وہ اسی کے لئے زندہ تھیں جو ٹوٹ تو سکتی تھیں مگر جھک نہیں سکتی تھیں۔
خلوص ربط محبت جنہیں میسر ہے
وہ لوگ کون سی دنیا کے کے رہنے والے ہیں
ادب لطیف انیس سو پینتیس میں لاہور سے جاری ہونے والا ایک ماہانہ علمی و ادبی مجلہ ہے۔ اس کے بانی چودھری برکت علی تھے۔ 1980 کے بعد سے اس جریدے کی مستقل مدیراعلی چوہدری برکت علی کی صاحبزادی صدیقہ بیگم رہیں ۔ یہ جریدہ ترقی پسند تحریک کا آرگن۔ نماٸندہ اور ترجمان تھا ۔اس کا مقصد اردو زبان کی اعلی پاٸے کی تخلیقات اور علمی و تنقیدی اور شاہکار افسانوں مضامین کے ذریعے پاکیزہ ادب کی اشاعتِ اور قدردانی ی کی طرف مائل کرنا تھا ہندوستان کےتمام ترقی پسند ادیب اس جریدے میں میں لکھتے رہے ہیں اس کے کئ نمبر شائع ہو چکے ہیں جو عصمت چغتائی نمبر سے لے کر صدیقہ نمبر تک شائع ہو چکا ہے۔
اس کے سابق مدیر ان میں بڑے بڑے ادبی نام شامل ہیں۔
ہم بات کرتے ہیں صدیقہ بیگم کی جب وہ ادب لطیف سے جڑیں تو خود کو وقف کر دیا ادب لطیف کو اپنے والد کی نشانی جان کر اسے گلے سے لگا لیا اور ہر قسم کے خسارے کوبالاٸے طاق رکھ دیا اور ہر قسم کے خسارے کو نظر انداز کر دیا کیا انہوں نے خوش دلی سے اس کا بوجھ اٹھایا اور آخر دم تک بطور مدیراعلی اور سرپرست بن کر کام کرتیں رہیں۔
ہمارے ہاں خواتین مدیرراٶں کی تعداد بہت کم ہے شاعرات تو ہیں لیکن خواتین مدیروں کی فہرست میں کہیں کہیں ہی عورت نظر آتی ہے۔صدیقہ بیگم کے پاس قابل اور ذہین دماغ تھا تھا وہ محنتی لوگوں کو پسند کرتی تھیں انہیں سچ کہنے کا فن آتا تھا تھا اور وہ بھی اپنے بارے میں یہ دیانت داری اور اعلی ادبی معیار کا وصف رکھنے والی صدیقہ بیگم اردو ادب کی خاموش خدمت گار تھیں
ہجر کی آگ میں جلنے سے نہیں ڈرتی میں
عشق مجھ میں ابھی بے خوف و خطر باقی ہے
صدیقہ بیگم عجز و انکسار کا پیکر ، عظیم المرتبت ہستی اور عظیم الشان درخشاں عہد تھیں۔انہوں نے چالیس برس تک ادب لطیف کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ہر قسم کے سماجی اور معاشرتی استحصال کے خلاف آواز بلند کی انہیں پتہ تھا خدا ان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا اس لیے اپنے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ڈٹ جاتیں تھیں۔
انہوں نے مصلحت اندیشی سے کام لیا اور خسارے کی کبھی پرواہ نہیں کی انہیں نہ ستائش کی تمنا تھی نہ ہی شخصیت کا غرور اور صدیقہ بیگم کی ادارت میں ادب لطیف دنیائے ادب پر مثل آفتاب کے روشنی بکھیرتا رہا ادب لطیف کی اشاعت کے 85 سال کا مکمل ہونا اتنا آسان نہیں اس کے پیچھے صدیقہ بیگم اور ان کی ٹیم کی انتھک محنت شامل ہے۔
اس جریدے کی بنیاد پر صدیقہ بیگم نے کئی نسلوں کی فکری راہنماٸی اور آبیاری کی ہے ۔ادب لطیف کے پلیٹ فارم پر بہت سے ایسے نام ہیں جنہوں نے شہرت کی بلندی دیکھی ان مدیران کی ایک طویل فہرست ہے جن میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی ۔ انتظار حسین ۔ میرزا ادیب۔ مسعود اشعر ۔ ظفر معین بلے ۔ کشور ناہید ، ناصر زیدی ، اظہر جاوید اور قتیل شفائی قابل ذکر ہیں۔
ادب لطیف کی بنیاد جن بزرگوں نے ڈالی تھی اور چراغ سے چراغ روشن کرتے رہے اب ان میں سے کوٸی ایک بھی تو موجود نہیں خدا ان کو اپنے جوار رحمت میں میں جگہ عطا فرمائے آمین
۔صدیقہ بیگم نے ادب لطیف کی کی بنیاد کو وہ مضبوطی عطا کر دی ہے کہ اللہ نے چاہا تو یہ رسالہ اپنی جڑوں کو مزید توانا کرے گا۔ ادب سے جڑے مصنفین اور شعرا کرام کو صدیقہ بیگم کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔
ان رسائل کا تحفظ اردو ادب کے تحفظ کے مترادف ہے ۔ اس حیات بے ثبات میں انسانی اقدار محبت اور عظمت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے صدیقہ کا بیگم بھی محبت کی دلیل تھیں ۔ ہر سطح کے لوگ ان کے دوستوں اور شناساؤں میں شامل تھے صدیقہ بیگم نے کبھی کسی کو ایک لمحہ کے لئے بھی نظر انداز نہیں کیا۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کر تے ہیں کہ ادب لطیف کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ۔ خدا وند کریم ادب لطیف کی عمر دراز کرے آمین۔
زیر نظر ماہنامہ ادب لطیف کی اشاعت خاص یعنی صدیقہ بیگم نمبر میں عہد حاضر کے ممتاز قلمکاروں کی نگارشات شامل ہیں جن میں بشری رحمن ۔کشور ناہید ۔ ماہ پارہ صفدر ۔ مسعود اشعر ۔ طارق محمود ۔ غلام حسین ساجد ۔ثویلہ انیس خان ۔ ظفر معین بلے ۔ نجمہ منصور۔ روما رضوی ۔ آصف جیلانی ۔ راجو جمیل ۔ محمد خالد چوہدری۔ شہناز ہمایوں ۔ عشرت معین سیما۔ صدف مرزا۔ فیصل عظیم ۔ اثیر احمد خان ۔
ڈاکٹر شگفتہ حسین ۔ منصور احمد ملک ۔ حسنین جمال ۔ امجد شیخ۔ آمنہ مفتی ۔ تمکنت کریم ۔ حزیمہ بخاری ۔ ڈاکٹر فضیلت بخاری ۔ سعدیہ کوکب قریشی ۔ شاہین زیدی۔ امین کنجاہی ۔ شاہد بخاری ۔ شبیر احمد قادری ۔ حمیدہ شاہین ۔ بیدار سرمدی ۔ ڈاکٹر محمد اقبال ۔ سلطانہ مہر ۔ نیلما ناہید درانی ۔ امجد علی شاکر ۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا ۔ نیٸر علی دادا ۔ عطیہ سید ۔ مظہر سلیم مجوکہ ۔ حسین مجروح ارشد نعیم ۔ شہناز اعجاز الدین ۔ صدام ساگر ۔ جاوید جبار ۔ تیمور آغا۔ آفتاب احمد اور نوید مرزا و دیگر سرفہرست ہیں ۔
بےشک اس اشاعت خاص میں شامل تمام تر نگارشات بہت خوبصورت ہیں اور تعلق خاطر سے لکھی گٸی ہیں لیکن دو مضامین ایسے ہیں کہ جن کے سحر سے نکلنا محال ہے ۔ ان میں پہلا مضمون محترمہ ثویلہ انیس خان صاحبہ کہ جو محترمہ صدیقہ ببیگم کی دختر نیک اختر ہیں کا مضمون جس میں صدیقہ بیگم کی گھریلو اور نجی زندگی کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں ۔ دوسرا میری نظر میں اہم ترین مضمون ظفر معین بلے صاحب کا ہے کہ اعلانیہ طور پر صدیقہ بیگم کی ادبی اولاد کہلاٸے اور صدیقہ بیگم نے بھی انہیں ہمیشہ اپنے بیٹے کے طور پر ان کا تعارف کروایا ۔
تقریبا“ 300 صفحات پر مشتمل یہ صدیقہ بیگم نمبر دراصل ایک تاریخی دستاویز ہے ۔
ماہنامہ ادب لطیف لاہور
کی مجلس ادارت میں مدیراعلی حسین مجروح ۔ مدیر مظہر سلیم مجوکہ ۔ مدیران معاون میں شہزاد نیٸر اور آمنہ مفتی شامل ہیں ۔
چوہدری برکت علی کا جاری کردہ یہ رسالہ اللہ کے فضل و کرم سے آج بھی جاری یے اور ان شا اللہ آٸندہ بھی جاری رہےگا ۔