نسائی ادب ایک علمی و ادبی مطالعہ کا شعبہ ہے۔جس کا نظریہ خواتین کے تجربوں اور مشاہدات پر مشتمل ہے۔
اردو ادب سے تعلق رکھنے والی شاعرات اپنی نثر اور شاعری میں زبان،اسلوب لب و لہجہ، کردار کو اس طرح پیش کرتیں ہیں جو انہیں شاعروں سے منفرد بنا دیتیں ہیں ۔
شاعروں کے مقابلے میں عورت کے درجے،طرز زندگی،مذاق و مشاغل اور خواہشات کو بھی نسائی رنگ عطا کرتیں ہیں۔
ادا جعفری سے چلتا ہوا یہ سلسلہ دور حاضر کی شاعرات میں بھی پایا جاتا ہے۔شگفتہ شفیق عہد حاضر کی معتبر شخصیت ہیں۔جن کا ظاہر اور باطن ان کی شاعری میں موجود ہے۔
گھر میں پھولوں کی کاشت کرتی ہوں
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
شگفتہ شفیق جن کے لہجے کی شگفتگی اور مٹھاس کی چاشنی نے مجھے متاثر کیا۔
خود کہتیں ہیں!
روایت وفا کی نبھاتی رہی ہو ں
محبت سے اپنا بناتی رہی ہوں
بڑی مشکلیں ہیں پر اے جان _ جاناں
ثواب محبت کماتی رہی ہوں
یہی بس شگفتہ کا کہنا ہے ہمدم
محبت کے نغمے میں گاتی رہی ہوں
دوران گفتگو ان کا ہر ہر لفظ محبت میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتا ہے۔شگفتہ اپنا بنانے کا گر جانتی ہیں۔
اعلی تعلیم یافتہ اورادب دوست گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ادب ان کی شخصیت میں رچا بسا ہے اور یہ کہ نسائی ادب میں شگفتہ ایک بہترین اضافہ ہیں۔
6 اپریل 2021 کو “شگفتہ نامہ” اور شگفتہ کی شخصیت پر رسالہ” سلسلہ”مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوا ۔رمضان کی مصروفیت کی وجہ کر میں کتاب بروقت نہیں پڑھ سکی لیکن جب بھی وقت میسر ہوا کچھ پڑھا ضرور۔جیسے جیسے پڑھتی گئی ان کی تحریر اور شاعری سے متاثر ہوتی چلی گئی۔
ان کے افسانے،نظمیں اور غزلیں جن میں سچائی اور سادگی موجود ہے۔وہ اپنا پیغام قاری تک پہنچانے کا ہنر جانتی ہیں
۔
خدا کی عطا میرا تخلیقی جوہر
مری شاعری،روح کی ۔۔۔۔۔ترجمانی
جہاں وہ فرسودہ روایات سے متنفر نظر آتیں ہیں وہی مستقبل کو سنورتا بھی دیکھتیں ہیں۔وہ نا امید نہیں ہوتیں۔انہوں نے ایسے ہر موقع پر اپنے آپ کو سنبھالے رکھا ہے۔
جو راتوں کو ہم نے بہائے ہیں آنسو
تو دل کا ذرا بوجھ ہلکا ہوا ہے
“شگفتہ نامہ” کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی شخصیت ہر دلعزیز ہے۔مختلف شعراءکرام کے تاثرات جنہوں نے آپ کی شخصیت کے بارے میں لکھیں ہیں۔وہ شگفتہ کو جاننے اور سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔
اپنے مزاج کا تو یہ عالم ہے دوستو
وہ دوست ہو یا دشمن گلے سے لگا لیا
شگفتہ کا انداز محبت رشتوں کے دائروں میں موجود ہے وہ تمام رشتوں کو پیار کے لطیف جذبوں میں سمو کر لکھتی۔ ہیں
میں نے رسم وفا نبھائی ہے
یہ مری عمر کی کمائی ہے
شگفتہ کی شاعری بہار کا جھونکا ہے جو مستقل اردو ادب کو معطر کر رہا ہے۔اور ادب کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
سحر تازہ کا شب غم سے ہے رشتہ کیسا
بیٹھ کر مجھ کو بتائیں تو کوئی بات بنے
مہر و الفت میں شگفتہ ذرا فیاضی ہو
غیر کو اپنا بنائیں تو کوئی بات بنے
ان کے افسانے معاشرہ کے عکاس ہیں وہ افسانے کے کینوس پر معاشرہ کے مسائل اور ان کا حل پینٹ کرتیں نظر آتیں ہیں۔
افسانہ “تیری گلی”اور “نقش وفا”موجودہ حالات کی بھرپور عکاس ہے۔اسی طرح “ایک سوال”لمحہ فکریہ ہے۔
عہد کورونائی اور نفسا نفسی کے اس دور میں شگفتہ کے تمام مجموعہ کلام ادبی خزانے میں ایک ایسی روشنی کی مانند ہیں جو راستہ بھی دکھاتی ہے اور اصلاح بھی فراہم کرتی ہے۔آپ کو بیچ راستہ میں تنہا نہیں چھوڑتی۔اللہ رب العزت ان کے قلم کی تاثیر کو اسی طرح برقرار رکھے آمین۔
ان کی نظم” کیمو فلاج” نے مجھے متاثر کیا۔خود احتسابی اس نظم کا موضوع ہے جس میں تصنع اور بناوٹ نام کو نہیں۔جو ناکامی میں بھی جینے کا گر سکھاتی ہے۔
کیمو فلاج۔۔۔
چلو ہم پھر سے اپنی زندگی جینے لگیں واپس
وہی کہ زندگی جس پر بہت سے لوگ بےحد رشک کرتے ہیں
بڑی ہی آہیں بھرتے ہیں
کہ ایسی حکمرانی ،شادمانی تو کسی کو شاز ملتی ہے
جہاں والے ہماری مسکراتی صورتوں کو دیکھتے ہیں بس
ہمارے اطلس و کمخواب پہناوے تو ان کا دل جلاتے ہیں
اگر وہ ایک پل بھی ہماری روح میں اتریں تو یہ جانیں
ہمارے مسکراتے ہونٹوں کے پیچھے
نہ جانے کتنی ساری الجھنیں افسردہ بیٹھی ہیں
نہ جانے کتنی ہی خاموشیاں ہیں دفن اور ارماں سسکتے ہیں
ہم اپنے دل پہ گرتے آنسوں کے ساتھ آداب محفل کے لئے کچھ مسکراتے ہیں
تو سب ہی لوگ فرط رشک سے یوں آہیں بھرتے ہیں
کہ جیسے ہم نے کوئی قسمت شاہانہ پائی ہے
دبے لفظوں میں کہتے ہیں”لکی ہو تم بڑی یارا”
انھیں ہم شک میں آن کے مبتلا ہی رہنے دیتے ہیں
چلو ہم پھر سے اپنی زندگی جینے لگے واپس
کہ کچھ دن کو ہمارے دل نے کچھ آرام پایا تھا
خوشی کا ایک جھونکا ہی مرے جیون میں آیا تھا
خوشی لیکن کسی کو کب مری برداشت ہوتی ہے
کئ قدغن،نگہ داری۔زمانے بھر کی پابندی
کئ جانب،کئ آنکھیں ہوئی نگراں !
تو ان آنکھوں سے گھبرا کر اب ہم تو یہ ہی کہتے ہیں
چلو ہم پھر سے اپنی زندگی جینے لگیں واپس
یہ انسو پی کے اپنے قہقہے پھر سے لگائیں ہم
اسی کیمو فلاجی میں ہم اپنی جان بھی دے دیں۔
بہت خوبصورت پیغام کہ اپنی ساخت ہی بدل ڈالیں ۔
شگفتہ کی شاعری محبت کے آداب سکھاتی ہے۔ہجر و وصال کو گزارنے کا طریقہ سمجھاتی ہے۔محبت کے ہر رنگ ہر کیفیت اور ہر احساس کو سمٹ کر محبت کرنے والوں کے درمیان تقسیم کر دیتی ہیں۔جب ہی تو سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ شگفتہ محبت کی شاعرہ ہیں
طلب عشق مٹادی ہم نے
اس کو روکا نہ صدا دی ہم نے
خواب لوگو ں نے جلا ڈالے تھے
راکھ راہو ں میں اڑا دی ہم نے
شگفتہ کے خواب کے کئ رنگ ہیں۔۔
جب یہ خواب پورے ہوں تو اسے زندگی کی علامت بنا دیتی ہیں
نہ پورے ہوں تو مایوس ہوتے ہوئے بھی مایوسی سے نکلنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔
کبھی کبھارخوابوں سے فرار بھی حاصل کرتیں نظر آ تی ہیں۔اور کبھی خوابوں کو اذیت بھی قرار دیتی ہیں۔اس کی بھی وجہ ہے کیونکہ شگفتہ تجربات سے گزر کر کندن بنی ہیں خوابوں میں ڈوبنا ابھرنا ان کی زندگی کا مشاہدہ ہے ۔ان کے خوابوں کے نظریہ پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔
المختصر ان کی شاعری میں ان کی شخصیت کی خود اعتمادی نظر آتی ہے۔
شگفتہ کا شعری مجموعہ کلام میں نے پڑھا تو نہیں ہے لیکن شگفتہ نامہ میں شامل نظمیں ،غزلیں اور تاثرات ان کو متعارف کرانے کے لئے کافی ہیں۔
زندگی مجھ میں لوٹ آئی ہے
زندگی پھر سے مسکرائی ہے
بس تری اک نگاہ الفت پر
میں نے تو زندگی لٹائی ہے
اللہ سے دعا ہے کہ ان کا یہ سفر جاری رہے اور کامیابی ان کے قدم چومے۔آمین۔