شاعری دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے۔اور کسی بھی معاشرے کی شناخت ادب کے بغیر ممکن نہیں ۔لہذا کسی قوم کا مزاج سمجھنے کے لئے اس کے ادب کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ہمارا ادب ،ہماری ادبی شخصیات اور ان کی ترجیحات ان کی شاعری اور نثر نگاری میں موجود ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد حسن کہتے ہیں!
” سچی شاعری کھرے سونے کی طرح کمیاب ہے۔شاید اس سے بھی زیادہ کیونکہ اس کے لئے محض کاریگری اور تقلید سے کام نہیں بنتا روح کے اثر کو آواز اور جذبے میں سمونا لازمی ہے”
اس تمہید کا مقصد دراصل ڈاکٹر ہدایت اللّٰہ کے مجموعہ کلام “ہو کاعالم” کا جائزہ ہے۔ 20مئی 2021 کی صبح مجھے یہ مجموعہ کلام بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔
ڈاکٹر ہدایت اللہ کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے۔یوسفزئی پٹھان ہونے کے ناطے ان کی مادری زبان پشتو ہے لیکن بچپن سے اردو شعر وادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی سےایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔پھر کمیشن کے بعد ریڈیالوجی کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور کرنل کے عہدے پر فوج سے ریٹائر ہوئے۔
“ہو کا عالم”ان کا پہلا مجموعہِ کلام ہے جو ان کی زندگی کے مختلف ادوار کی شاعری پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ دوست “ڈاکٹر ساجد حسن بٹ “کہتے ہیں کہ ہدایت کی شاعری کی پہلی خوبی صاف ستھری اور شائستہ اردو ہے۔ مجھے بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ آپ کی اردو نہ صرف صاف ستھری ہے بلکہ آورد کی چٹانوں سے بھی پاک ہے۔آپ کی شاعری زرخیز دماغ اور تر و تازہ فکر کی آئینہ دار ہے۔
مجموعۂِ کلام کا عنوان اسم بامسمّٰی ہے۔اور عالم ہوت سے مستعار ہے جبکہ عالم عَلَم سے ہے جس کے معانی نشان ہیں۔چونکہ عالم کا ذرہ ذرہ اللہ کے وجود کی نشانی ہے۔اور ہر چیز اللہ کے وجود پر دلالت کرتی ہے۔اور روح کی متابعت سے قرب الہٰی حاصل ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں تصوف سے وابستگی ضروری ہے اوریہی وجہ ہے کہ روحانیت قدرتی طور پر ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں موجود ہے۔
وہی صوفی وہی مردِ قلندر
وہی دیکھے قطرۂِ دل میں سمندر
بلا کا شور چاہےچار سو ہو
مگر اِک ہو کا عالم دل کے اندر
موجودہ دنیا کے خدوخال تیزی سے اپنی شکل و ترتیب بدل رہے ہیں ایجادات،امکانات، ہر گزرتا پل اورسربستہ راز سے پردے کا اٹھتے جانا ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ڈاکٹر صاحب اس حیرت کدہ میں رہتے ہوئے بھی نہ تو اپنی روایات سے منہ موڑتے ہیں اور نہ ہی خد و خال کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ رب سے دعا گو رہتے ہیں
ارتقائے نفس کے مشکل ہیں سارے مرحلے
مطمئنّہ میں بدل دے نفسِ امّارہ مرا
ان کی صوفیانہ فکر اور فنی مہارت کلام کی تخلیق کا باعث بنی ہے۔
نظر کے احاطے سے تو ماورا ہے
ولیکن نظر خود تیرا ہی نشاں ہے
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ سب سے بڑا شاعر وہ ہے جس کا دل سب کے لئے دھڑکتا ہے جو شاعری میں صرف نغمہ و مے نہیں ڈھونتے بلکہ روحانیت کے پر نور تجربہ کے نتیجے میں انسان کے دل میں محبت کا الوہی چشمہ جاری کرتے ہیں جو پوری انسانیت کی دھرتی کو سیراب کرتا چلا جاتا ہے اور یہ تجربہ انسان کو حق کے قریب تر کر دیتا ہے اور وہ بس تو ہی تو کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں بھی یہ خصوصیت نمایاں نظر آتی ہے۔میرے نزدیک دراصل یہ عاجزی ہے۔
بہت ڈھونڈا اپنا آپ میں نے
نہ جانے کتنے پردوں میں نہاں ہوں
ہر اک آئینہ صورت مانگتا ہے
ہدایتؔ خود ہدایت مانگتا ہے
بظاہر ہوں اگرچہ ایک قطرہ
مگر جانو تو بحرِ بیکراں ہوں
اسی طرح اگر غزل کے تمام ادوار کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ برسوں میں جدید دور کے بعد جو غزل کی شکل سامنے آتی ہے اس کا سفر ذات سے کائنات تک کا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی شاعری بھی نہ صرف ان کے نام کی عکاس ہے۔بلکہ کائنات کا پرتو بھی ہے
ہدایت یہ غزلیں میری داستاں ہیں
کہ شعروں میں خود کو سمونے لگا ہوں
نفی اثبات کی دو رنگ دنیا
کثیر النوع رنگا رنگ دنیا
ایسے لوگ بھی ہمیں کم ہی نظر آتے ہیں جو اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔کار ِخیر میں حصہ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اس مقام پر بھی آگے نظر آتے ہیں۔محبت کو بلندی پر رکھنا اور محبت بانٹنا کار خیر ہی تو ہے۔آپ کی نظم “محبت مر نہیں سکتی” اس بات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے محبت کو بطور استعارہ نہیں لیا بلکہ کرب اور نفرت کی جڑوں میں بطور کھاد استعمال کر کے دکھ کا مداوا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
سبھی سوئے ہوئے جذبے
یکایک جاگ جاتے ہیں
محبت لوٹ آتی ہے
محبت تب بھی ہوتی تھی
محبت اب بھی ہوتی ہے
محبت مر نہیں سکتی
نظم “خودکلامی”میں یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ خدا نے انسان کی ذات میں جو پوشیدہ روشنی عطا کی ہے اس کی تلاش کیسے ممکن ہو۔اس کی تلاش نقالی میں نہیں بلکہ عزم جزم میں ہے کہتے ہیں!
کھلے گی آنکھ تو بینائی بھی عطا ہو گئ
تم اپنے دل میں ہی پوشیدہ نور تو دیکھو
اسی طرح ان کی نظم “عشق”جس میں انہوں نے مجازی اور حقیقی کا موازنہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ عشق مجازی آسان ہے تو حقیقی مشکل یہ حقیقت ہے خدا ہر ایک کو اپنا دوست نہیں بناتا لیکن عشق حقیقی کے لئے مجازی کا زینہ درکار ہوتا ہے مگر کیسے؟
بہت آسان ہو جائے
یہ الجھن دور ہو جائے
ہمارا کام بن جائے
اگر عشق حقیقی میں
مجازی رنگ آجائے
ہمیں بھی چاہنے کا ڈھنگ آجائے
حسن معنوی ہو یا صبوری جب روح کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو لکھنے والے کی سب سے بڑی چیز یہی ہوتی ہے کہ وہ کتنی گہرائی سے کہہ رہا ہے
محبت کا سفر مشکل بہت ہے
مگر مشتاق اپنا دل بہت ہے
ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور امید و رجاء کی کیفیت بھی ہے۔ زندگی کا پیغام بھی ہے اور محبت کی تڑپ بھی ہے اور یہ تڑپ معمولی نہیں ہے اس کے کئی روپ ہیں مجازی سے حقیقی تک
“ماں جی”اس عنوان سے ہی محبت کی مٹھاس محسوس کی جاسکتی ہے۔ نظم “دعا” بے حد خوبصورت سے نظم کی گئی ہے۔چاندنی کی اداس چادر، مکالمہ نمبر1 اور 2 اپنی مثال آپ ہیں۔
مجموعۂِ کلام “ہو کا عالم “پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ہر غزل ہر نظم و قطعات پر تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے۔رب العالمین ان کے قلم کی روانی میں اضافہ کرے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر ہدایت اللّٰہ مثبت ذہن اور دھیمے لہجے کے شاعر ہیں اور یہی خوبی ان کی کتاب پر بھی غالب ہے ۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاعری کی افق پر چمکتے ہوئے تمام ستاروں میں ڈاکٹر صاحب اپنی ضیا پاشی سے صنف شاعری کو منور کر رہے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ” ہو کا عالم” فلسفہ حیات و کائنات کا بھرپور نقشہ ہے۔
ہمیں امید ہے کہ آپ اپنی شاعری سے ہم سب کو فیض یاب کرتے رہیں گے۔اور اپنا دوسرا مجموعہ کلام جلد منظر عام پر لانے کی کوشش کریں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ: ڈاکٹر ہدایت اللہ کا مجموعۂِ کلام ہُو کا عالم اس نمبر پر وٹس ایپ میسج کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
03473170940