Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مجھے دوبارہ امریکا جانے کا موقع ملا، دونوں مرتبہ اپنے بچوں کی ”تقریب تقسیم اسناد“میں شرکت ہی مقصد تھا مگر کیسے ممکن تھا کہ میں دو ریاستوں کی دو یونیورسٹیز کو چھو کر واپس آجاتا۔ میرے اندر کا ابن بطوطہ بے چین تھا کہ امریکا کو سیاّح کی آنکھ ہی سے دیکھے، مختلف خطوں میں جائے، رنگ برنگے لوگوں سے ملے، تہذیب، تمدن اورطور طریقوں کا قریب سے مشاہدہ کرے، مشہور عمارات اور مقامات کوخود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اندازہ لگائے کہ ذاتی مشاہدے کے نتیجے میں علم و آگہی کا حصول کیوں کر مختلف اور دلچسپ تجربہ ہے۔

میں نے دو کے بجائے بارہ ریاستوں کی خاک چھانی پھر بھی مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے بارہ امریکی ریاستوں کو اس طرح دیکھا ہوگا جیسا کہ انہیں دیکھنے جاننے اور سمجھنے کا حق ہے۔ تاہم جو کچھ دیکھا وہ بھی کم نہ تھا۔ مختصر عرصے میں جو سیکھا جو جانا وہ بھی مجھے نہ کسی کتاب سے مل سکتا ہے نہ ہی کسی فلم یا ٹی وی پروگرام سے۔ واپسی میں ارادہ کیا کہ اس سفر کی روداد ماہ نامہ ہمدرد نونہال کی توسط سے پاکستان بھر کے ہزاروں قارئین نونہالوں تک پہنچاؤں گا اور پھر ایسا کیا بھی۔ ہمدرد سے ڈیڑھ سالہ وابستگی کے عرصے میں ہر ماہ سفر نامے کی ایک قسط شائع ہوتی رہی، پاکستان سے موصول ہونے والے نونہالوں کے سینکڑوں خطوط پڑھ کر اندازہ ہوا کہ بچوں نے اس سفر نامے میں کس قدر دلچسپی لی۔ بد قسمتی سے مجھے ہمدرد نونہال سے لاتعلق ہونا پڑا….اس لا تعلقی کی وجہ بھی صرف ایک شخص تھا جس کا نام ”امیر سادتین کو پیک“ ہے۔ مجبوراًمجھے اپنے کائی قبیلے میں لوٹنا پڑا۔
نونہال میں شائع ہونے والی گیارہ اقساط میں سے چند میں نے فیس بک پہ بھی پوسٹ کی تھیں۔ میرے بعض احباب کا خیال ہے کہ مجھے وہ تمام اقساط اپنے دوستوں اور اردو قارئین کے لیے فیس بک پر پوسٹ کرنی چاہیں، سو اب از سر نو قسط نمبر ۱ سے آغاز کررہا ہوں۔ آمیش قبیلے کے موضوع پر میری یہ پوسٹ بہت سے دوست پہلے بھی دیکھ چکے ہوں گے لیکن میں اب محض اس تسلسل کی ترتیب کو قائم رکھنے کے لیے دوبارہ پوسٹ کررہاہوں۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ سفر نامہ امریکا کے بارے میں جان کاری کی ایک اچھی کوشش ثابت ہو، سفر نامہ چونکہ تحقیقی مضمون نہیں ہوتا اس لیے اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی لکھنا مناسب سمجھا۔ آپ کا فیڈ بیک مجھے آئندہ کی اقساط کو دلچسپ بنانے اور اس سفر نامے کو ایک پسندیدہ کتاب بنانے میں میرا معاون ہو گا۔
*********
آمش قبیلے کے بارے میں کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔ ان کی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سن کر ان لوگوں سے ملنے یا انہیں دیکھنے کی خواہش بھی بہت شدید تھی۔اس لیے امریکا پہنچتے ہی اپنے عزیز دوست ڈاکٹر فضل محمود کے ساتھ میں نے ایک بھر پور دن ان کے مختلف گوٹھوں میں گزارا۔سچ کہتا ہوں پنجابی والا ”سواد“ آگیا۔ میں اس دورے کو امریکی دورے کا حاصل کہوں تو غلط نہ ہو گا۔آمِش امریکاکی لگ بھگ اکتیس ریاستوں میں آباد وہ قدیم باشندے ہیں جو صدیوں قبل جرمنی اور اس کے اطراف سے چلے اور امریکا آ کر یہاں مختلف ریاستوں میں مقیم ہوگئے۔
کھیتی باڑی یا زراعت سے متعلقہ کام ان کا پیشہ تھاجو آج تک ہے۔ ان کی بڑی تعداد امریکی ریاست پنسلوینیا میں آباد ہے جو35 ہزار خاندانوں پر مشتمل ہے۔ ہم اس وقت جس علاقے میں موجود ہیں، اس کا نام ”لنکاسٹر“ہے۔
آمِشی علاقوں کا حسن یہ ہے کہ یہ لوگ نئے عہدمیں بھی اپنی پرانی روایتوں اور قدیم طور طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور کسی طور اپنے آپ کو نئے عہد سے جوڑنے کو تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں بجلی تک استعمال نہیں کرتے، اپنی اندھیری راتوں کو آج بھی قدیم طرز کے لیمپ اور فانوس سے اجالے ہوئے ہیں۔یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ بعض تصاویر میں جو بجلی کے آلات اور جدید ٹرانسپورٹ نظر آرہی ہیں وہ صرف اس مرکز تک محدود ہیں جو سیاحوں کی آمد پر رجسٹریشن اور راہ نمائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
فطرت اور فطرت کے حسن سے جڑے یہ لوگ سادگی اور سچائی کا عجب نمونہ ہیں۔ بڑی بڑی خواہشوں سے کوسوں دور یہ قناعت پسند آمِش اپنی محدود دنیا میں خوش اور مگن ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ان کے پاس کل چار جوڑے کپڑے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کرتے۔ ایک پہننے کے لئے، ایک دھلائی کے لئے ایک پیشہ ورانہ کام کے لئے اورایک شائد کسی تقریب کے لئے۔
آمِش کسی بنک میں اکاؤنٹ نہیں کھولتے۔ سودی کاروبار سے دور رہتے ہیں۔ ٹیکس دیتے ہیں، مگر ٹیکس کے بدلے کوئی سہولت نہیں لیتے۔ قناعت اور سادگی نے ان کی زندگی کو ایک خاص طرح کے حسن سے بھر دیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں جادو ہے اور ان کے چہروں پہ مقناطیسی کشش۔
آمِش لوگ کسی ڈاکٹر سے جدید ادویات کے ذریعہ اپنا علاج نہیں کرواتے۔ گھریلو ٹوٹکے یا زیادہ سے زیادہ ہومیو پیتھی طریقہئ علاج سے کام چلا لیتے ہیں۔ محنت اور فطرت سے قریب رہنے کے باعث ہمیشہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔تازہ اور خالص غذاؤں کا استعمال انہیں ہمیشہ صحت مند رکھتا ہے۔

لیجیے کچھ شادی بیاہ کے بارے میں بھی سن لیجئے۔ شادی کے لئے اماں ابا رشتہ نہیں ڈھونڈتے۔ لڑکا اپنی دلہن خود پسند کرتا ہے، مگر لڑکی سے خود نہیں کہہ سکتا۔ اگر اظہار کربیٹھا تو لفنگا کہلائے گا۔ لڑکا اپنی پسند کا اظہار اپنے مذہبی راہ نما یعنی بشپ سے کر تا ہے اور بشپ صاحب اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔وہ لڑکی کے اہل خانہ سے مل کر معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔کوئی رکاوٹ نہ ہو تو شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کی تقریب میں پانچ یا چھے سو افراد شریک ہوتے ہیں۔ شادی کے دن دولہا دلہن کو تحفہ دینے کا رواج نہیں ہے۔ شادی کے بعد دولہا دلہن ہنی مون منانے کے لئے ایک بگھی میں گھومنے نکلتے ہیں اور گھومنا بھی کیا، وہ ہر اس گھر تک جاتے ہیں جس کے مکین ان کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ نو بیاہتا جوڑا ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جواب میں میزبان انہیں تحفہ پیش کرتا ہے۔ وہ تحفہ جو شادی کی تقریب میں اُنہیں نہیں دیا گیا تھا، لیجئے وہ تحفہ اب حاضر ہے۔ جس بگھی میں یہ نوبیاہتا جوڑا گھومنے کے لئے نکلتا ہے وہی بگھی یہاں کی عمومی سواری ہے۔جدید ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے سے عموماً گریز کیا جاتا ہے۔
خواتین شادی سے قبل سفید ایپرن پہنتی ہیں۔ شادی کے وقت یہ ایپرن سنبھال کے رکھ لیا جاتا ہے جو بعد از مرگ پہنایا جاتا ہے۔ شادی کے وقت لڑکے پر لازم ہے کہ وہ مختصر سی علامتی داڑھی کاآغاز کردے۔ کسی کی لمبی داڑھی دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ اس کی شادی مدتوں پہلے کبھی ہوئی ہو گی۔ لڑکی کو سفید ایپرن میں دیکھیں تو سمجھ لیں کہ ابھی لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔یاد رکھیے کہ آمِشوں کے ہاں طلاق یا علیحدگی کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی آخری سانسوں تک ایک دوسرے کے اچھے ساتھی بن کر رہتے ہیں۔
بچے پبلک اسکول نہیں جاتے، بلکہ اپنی برادری کے قائم کردہ اسکول کا رخ کرتے ہیں۔ آٹھویں تک روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہنر سیکھتے ہیں۔ یہاں ہنر مندی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ایک بات جان کر کتنا اچھا لگا۔ دوکان دار اپنی دوکان پر رکھی اشیاء کی قیمت وہیں لکھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک بکس بھی رکھ دیتے ہیں۔ آپ مطلوبہ چیز کی قیمت پڑھیں اور پیسے بکس میں ڈال دیں۔ آپ نے اگر بکس میں پیسے کم ڈالے تو اس پر خفا ہونے کے بجائے سمجھیں گے کہ آپ کی کوئی مجبوری ہوگی ورنہ آپ تو ایسے نہیں کہ جان بوجھ کر کم پیسے ڈالیں۔ واہ کیا کہنے۔

ڈچ اور انگریزی زبانیں بولتے ہیں۔عیسائیت ان کا مذہب ہے،مگر پوری بستی میں کوئی چرچ نہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک ماہ میں دو بار کوئی ایک طے شدہ گھر مذہبی عبادات و رسومات کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ صبح ہی سے کھانے پکانے اور مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
اس پورے سفر میں سارہ میری راہ نما اور گائیڈ تھیں۔سارہ نے ہمیں بہت مزے مزے کی باتیں بتائیں۔ ہر نئے لمحے حیرتوں کے بہت سے در کھلے مگر بہت سی باتوں کو آئندہ کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ فی الوقت تو تصویریں دیکھئے اور میرے ساتھ اس منظر کا حصہ بن جائیے جو پوری طرح میری روح میں تحلیل ہو چکا ہے۔
مجھے دوبارہ امریکا جانے کا موقع ملا، دونوں مرتبہ اپنے بچوں کی ”تقریب تقسیم اسناد“میں شرکت ہی مقصد تھا مگر کیسے ممکن تھا کہ میں دو ریاستوں کی دو یونیورسٹیز کو چھو کر واپس آجاتا۔ میرے اندر کا ابن بطوطہ بے چین تھا کہ امریکا کو سیاّح کی آنکھ ہی سے دیکھے، مختلف خطوں میں جائے، رنگ برنگے لوگوں سے ملے، تہذیب، تمدن اورطور طریقوں کا قریب سے مشاہدہ کرے، مشہور عمارات اور مقامات کوخود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اندازہ لگائے کہ ذاتی مشاہدے کے نتیجے میں علم و آگہی کا حصول کیوں کر مختلف اور دلچسپ تجربہ ہے۔

میں نے دو کے بجائے بارہ ریاستوں کی خاک چھانی پھر بھی مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے بارہ امریکی ریاستوں کو اس طرح دیکھا ہوگا جیسا کہ انہیں دیکھنے جاننے اور سمجھنے کا حق ہے۔ تاہم جو کچھ دیکھا وہ بھی کم نہ تھا۔ مختصر عرصے میں جو سیکھا جو جانا وہ بھی مجھے نہ کسی کتاب سے مل سکتا ہے نہ ہی کسی فلم یا ٹی وی پروگرام سے۔ واپسی میں ارادہ کیا کہ اس سفر کی روداد ماہ نامہ ہمدرد نونہال کی توسط سے پاکستان بھر کے ہزاروں قارئین نونہالوں تک پہنچاؤں گا اور پھر ایسا کیا بھی۔ ہمدرد سے ڈیڑھ سالہ وابستگی کے عرصے میں ہر ماہ سفر نامے کی ایک قسط شائع ہوتی رہی، پاکستان سے موصول ہونے والے نونہالوں کے سینکڑوں خطوط پڑھ کر اندازہ ہوا کہ بچوں نے اس سفر نامے میں کس قدر دلچسپی لی۔ بد قسمتی سے مجھے ہمدرد نونہال سے لاتعلق ہونا پڑا….اس لا تعلقی کی وجہ بھی صرف ایک شخص تھا جس کا نام ”امیر سادتین کو پیک“ ہے۔ مجبوراًمجھے اپنے کائی قبیلے میں لوٹنا پڑا۔
نونہال میں شائع ہونے والی گیارہ اقساط میں سے چند میں نے فیس بک پہ بھی پوسٹ کی تھیں۔ میرے بعض احباب کا خیال ہے کہ مجھے وہ تمام اقساط اپنے دوستوں اور اردو قارئین کے لیے فیس بک پر پوسٹ کرنی چاہیں، سو اب از سر نو قسط نمبر ۱ سے آغاز کررہا ہوں۔ آمیش قبیلے کے موضوع پر میری یہ پوسٹ بہت سے دوست پہلے بھی دیکھ چکے ہوں گے لیکن میں اب محض اس تسلسل کی ترتیب کو قائم رکھنے کے لیے دوبارہ پوسٹ کررہاہوں۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ سفر نامہ امریکا کے بارے میں جان کاری کی ایک اچھی کوشش ثابت ہو، سفر نامہ چونکہ تحقیقی مضمون نہیں ہوتا اس لیے اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی لکھنا مناسب سمجھا۔ آپ کا فیڈ بیک مجھے آئندہ کی اقساط کو دلچسپ بنانے اور اس سفر نامے کو ایک پسندیدہ کتاب بنانے میں میرا معاون ہو گا۔
*********
آمش قبیلے کے بارے میں کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔ ان کی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سن کر ان لوگوں سے ملنے یا انہیں دیکھنے کی خواہش بھی بہت شدید تھی۔اس لیے امریکا پہنچتے ہی اپنے عزیز دوست ڈاکٹر فضل محمود کے ساتھ میں نے ایک بھر پور دن ان کے مختلف گوٹھوں میں گزارا۔سچ کہتا ہوں پنجابی والا ”سواد“ آگیا۔ میں اس دورے کو امریکی دورے کا حاصل کہوں تو غلط نہ ہو گا۔آمِش امریکاکی لگ بھگ اکتیس ریاستوں میں آباد وہ قدیم باشندے ہیں جو صدیوں قبل جرمنی اور اس کے اطراف سے چلے اور امریکا آ کر یہاں مختلف ریاستوں میں مقیم ہوگئے۔
کھیتی باڑی یا زراعت سے متعلقہ کام ان کا پیشہ تھاجو آج تک ہے۔ ان کی بڑی تعداد امریکی ریاست پنسلوینیا میں آباد ہے جو35 ہزار خاندانوں پر مشتمل ہے۔ ہم اس وقت جس علاقے میں موجود ہیں، اس کا نام ”لنکاسٹر“ہے۔
آمِشی علاقوں کا حسن یہ ہے کہ یہ لوگ نئے عہدمیں بھی اپنی پرانی روایتوں اور قدیم طور طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور کسی طور اپنے آپ کو نئے عہد سے جوڑنے کو تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں بجلی تک استعمال نہیں کرتے، اپنی اندھیری راتوں کو آج بھی قدیم طرز کے لیمپ اور فانوس سے اجالے ہوئے ہیں۔یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ بعض تصاویر میں جو بجلی کے آلات اور جدید ٹرانسپورٹ نظر آرہی ہیں وہ صرف اس مرکز تک محدود ہیں جو سیاحوں کی آمد پر رجسٹریشن اور راہ نمائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
فطرت اور فطرت کے حسن سے جڑے یہ لوگ سادگی اور سچائی کا عجب نمونہ ہیں۔ بڑی بڑی خواہشوں سے کوسوں دور یہ قناعت پسند آمِش اپنی محدود دنیا میں خوش اور مگن ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ان کے پاس کل چار جوڑے کپڑے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کرتے۔ ایک پہننے کے لئے، ایک دھلائی کے لئے ایک پیشہ ورانہ کام کے لئے اورایک شائد کسی تقریب کے لئے۔
آمِش کسی بنک میں اکاؤنٹ نہیں کھولتے۔ سودی کاروبار سے دور رہتے ہیں۔ ٹیکس دیتے ہیں، مگر ٹیکس کے بدلے کوئی سہولت نہیں لیتے۔ قناعت اور سادگی نے ان کی زندگی کو ایک خاص طرح کے حسن سے بھر دیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں جادو ہے اور ان کے چہروں پہ مقناطیسی کشش۔
آمِش لوگ کسی ڈاکٹر سے جدید ادویات کے ذریعہ اپنا علاج نہیں کرواتے۔ گھریلو ٹوٹکے یا زیادہ سے زیادہ ہومیو پیتھی طریقہئ علاج سے کام چلا لیتے ہیں۔ محنت اور فطرت سے قریب رہنے کے باعث ہمیشہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔تازہ اور خالص غذاؤں کا استعمال انہیں ہمیشہ صحت مند رکھتا ہے۔

لیجیے کچھ شادی بیاہ کے بارے میں بھی سن لیجئے۔ شادی کے لئے اماں ابا رشتہ نہیں ڈھونڈتے۔ لڑکا اپنی دلہن خود پسند کرتا ہے، مگر لڑکی سے خود نہیں کہہ سکتا۔ اگر اظہار کربیٹھا تو لفنگا کہلائے گا۔ لڑکا اپنی پسند کا اظہار اپنے مذہبی راہ نما یعنی بشپ سے کر تا ہے اور بشپ صاحب اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔وہ لڑکی کے اہل خانہ سے مل کر معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔کوئی رکاوٹ نہ ہو تو شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کی تقریب میں پانچ یا چھے سو افراد شریک ہوتے ہیں۔ شادی کے دن دولہا دلہن کو تحفہ دینے کا رواج نہیں ہے۔ شادی کے بعد دولہا دلہن ہنی مون منانے کے لئے ایک بگھی میں گھومنے نکلتے ہیں اور گھومنا بھی کیا، وہ ہر اس گھر تک جاتے ہیں جس کے مکین ان کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ نو بیاہتا جوڑا ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جواب میں میزبان انہیں تحفہ پیش کرتا ہے۔ وہ تحفہ جو شادی کی تقریب میں اُنہیں نہیں دیا گیا تھا، لیجئے وہ تحفہ اب حاضر ہے۔ جس بگھی میں یہ نوبیاہتا جوڑا گھومنے کے لئے نکلتا ہے وہی بگھی یہاں کی عمومی سواری ہے۔جدید ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے سے عموماً گریز کیا جاتا ہے۔
خواتین شادی سے قبل سفید ایپرن پہنتی ہیں۔ شادی کے وقت یہ ایپرن سنبھال کے رکھ لیا جاتا ہے جو بعد از مرگ پہنایا جاتا ہے۔ شادی کے وقت لڑکے پر لازم ہے کہ وہ مختصر سی علامتی داڑھی کاآغاز کردے۔ کسی کی لمبی داڑھی دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ اس کی شادی مدتوں پہلے کبھی ہوئی ہو گی۔ لڑکی کو سفید ایپرن میں دیکھیں تو سمجھ لیں کہ ابھی لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔یاد رکھیے کہ آمِشوں کے ہاں طلاق یا علیحدگی کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی آخری سانسوں تک ایک دوسرے کے اچھے ساتھی بن کر رہتے ہیں۔
بچے پبلک اسکول نہیں جاتے، بلکہ اپنی برادری کے قائم کردہ اسکول کا رخ کرتے ہیں۔ آٹھویں تک روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہنر سیکھتے ہیں۔ یہاں ہنر مندی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ایک بات جان کر کتنا اچھا لگا۔ دوکان دار اپنی دوکان پر رکھی اشیاء کی قیمت وہیں لکھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک بکس بھی رکھ دیتے ہیں۔ آپ مطلوبہ چیز کی قیمت پڑھیں اور پیسے بکس میں ڈال دیں۔ آپ نے اگر بکس میں پیسے کم ڈالے تو اس پر خفا ہونے کے بجائے سمجھیں گے کہ آپ کی کوئی مجبوری ہوگی ورنہ آپ تو ایسے نہیں کہ جان بوجھ کر کم پیسے ڈالیں۔ واہ کیا کہنے۔

ڈچ اور انگریزی زبانیں بولتے ہیں۔عیسائیت ان کا مذہب ہے،مگر پوری بستی میں کوئی چرچ نہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک ماہ میں دو بار کوئی ایک طے شدہ گھر مذہبی عبادات و رسومات کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ صبح ہی سے کھانے پکانے اور مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
اس پورے سفر میں سارہ میری راہ نما اور گائیڈ تھیں۔سارہ نے ہمیں بہت مزے مزے کی باتیں بتائیں۔ ہر نئے لمحے حیرتوں کے بہت سے در کھلے مگر بہت سی باتوں کو آئندہ کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ فی الوقت تو تصویریں دیکھئے اور میرے ساتھ اس منظر کا حصہ بن جائیے جو پوری طرح میری روح میں تحلیل ہو چکا ہے۔
مجھے دوبارہ امریکا جانے کا موقع ملا، دونوں مرتبہ اپنے بچوں کی ”تقریب تقسیم اسناد“میں شرکت ہی مقصد تھا مگر کیسے ممکن تھا کہ میں دو ریاستوں کی دو یونیورسٹیز کو چھو کر واپس آجاتا۔ میرے اندر کا ابن بطوطہ بے چین تھا کہ امریکا کو سیاّح کی آنکھ ہی سے دیکھے، مختلف خطوں میں جائے، رنگ برنگے لوگوں سے ملے، تہذیب، تمدن اورطور طریقوں کا قریب سے مشاہدہ کرے، مشہور عمارات اور مقامات کوخود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اندازہ لگائے کہ ذاتی مشاہدے کے نتیجے میں علم و آگہی کا حصول کیوں کر مختلف اور دلچسپ تجربہ ہے۔

میں نے دو کے بجائے بارہ ریاستوں کی خاک چھانی پھر بھی مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے بارہ امریکی ریاستوں کو اس طرح دیکھا ہوگا جیسا کہ انہیں دیکھنے جاننے اور سمجھنے کا حق ہے۔ تاہم جو کچھ دیکھا وہ بھی کم نہ تھا۔ مختصر عرصے میں جو سیکھا جو جانا وہ بھی مجھے نہ کسی کتاب سے مل سکتا ہے نہ ہی کسی فلم یا ٹی وی پروگرام سے۔ واپسی میں ارادہ کیا کہ اس سفر کی روداد ماہ نامہ ہمدرد نونہال کی توسط سے پاکستان بھر کے ہزاروں قارئین نونہالوں تک پہنچاؤں گا اور پھر ایسا کیا بھی۔ ہمدرد سے ڈیڑھ سالہ وابستگی کے عرصے میں ہر ماہ سفر نامے کی ایک قسط شائع ہوتی رہی، پاکستان سے موصول ہونے والے نونہالوں کے سینکڑوں خطوط پڑھ کر اندازہ ہوا کہ بچوں نے اس سفر نامے میں کس قدر دلچسپی لی۔ بد قسمتی سے مجھے ہمدرد نونہال سے لاتعلق ہونا پڑا….اس لا تعلقی کی وجہ بھی صرف ایک شخص تھا جس کا نام ”امیر سادتین کو پیک“ ہے۔ مجبوراًمجھے اپنے کائی قبیلے میں لوٹنا پڑا۔
نونہال میں شائع ہونے والی گیارہ اقساط میں سے چند میں نے فیس بک پہ بھی پوسٹ کی تھیں۔ میرے بعض احباب کا خیال ہے کہ مجھے وہ تمام اقساط اپنے دوستوں اور اردو قارئین کے لیے فیس بک پر پوسٹ کرنی چاہیں، سو اب از سر نو قسط نمبر ۱ سے آغاز کررہا ہوں۔ آمیش قبیلے کے موضوع پر میری یہ پوسٹ بہت سے دوست پہلے بھی دیکھ چکے ہوں گے لیکن میں اب محض اس تسلسل کی ترتیب کو قائم رکھنے کے لیے دوبارہ پوسٹ کررہاہوں۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ سفر نامہ امریکا کے بارے میں جان کاری کی ایک اچھی کوشش ثابت ہو، سفر نامہ چونکہ تحقیقی مضمون نہیں ہوتا اس لیے اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی لکھنا مناسب سمجھا۔ آپ کا فیڈ بیک مجھے آئندہ کی اقساط کو دلچسپ بنانے اور اس سفر نامے کو ایک پسندیدہ کتاب بنانے میں میرا معاون ہو گا۔
*********
آمش قبیلے کے بارے میں کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔ ان کی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سن کر ان لوگوں سے ملنے یا انہیں دیکھنے کی خواہش بھی بہت شدید تھی۔اس لیے امریکا پہنچتے ہی اپنے عزیز دوست ڈاکٹر فضل محمود کے ساتھ میں نے ایک بھر پور دن ان کے مختلف گوٹھوں میں گزارا۔سچ کہتا ہوں پنجابی والا ”سواد“ آگیا۔ میں اس دورے کو امریکی دورے کا حاصل کہوں تو غلط نہ ہو گا۔آمِش امریکاکی لگ بھگ اکتیس ریاستوں میں آباد وہ قدیم باشندے ہیں جو صدیوں قبل جرمنی اور اس کے اطراف سے چلے اور امریکا آ کر یہاں مختلف ریاستوں میں مقیم ہوگئے۔
کھیتی باڑی یا زراعت سے متعلقہ کام ان کا پیشہ تھاجو آج تک ہے۔ ان کی بڑی تعداد امریکی ریاست پنسلوینیا میں آباد ہے جو35 ہزار خاندانوں پر مشتمل ہے۔ ہم اس وقت جس علاقے میں موجود ہیں، اس کا نام ”لنکاسٹر“ہے۔
آمِشی علاقوں کا حسن یہ ہے کہ یہ لوگ نئے عہدمیں بھی اپنی پرانی روایتوں اور قدیم طور طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور کسی طور اپنے آپ کو نئے عہد سے جوڑنے کو تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں بجلی تک استعمال نہیں کرتے، اپنی اندھیری راتوں کو آج بھی قدیم طرز کے لیمپ اور فانوس سے اجالے ہوئے ہیں۔یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ بعض تصاویر میں جو بجلی کے آلات اور جدید ٹرانسپورٹ نظر آرہی ہیں وہ صرف اس مرکز تک محدود ہیں جو سیاحوں کی آمد پر رجسٹریشن اور راہ نمائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
فطرت اور فطرت کے حسن سے جڑے یہ لوگ سادگی اور سچائی کا عجب نمونہ ہیں۔ بڑی بڑی خواہشوں سے کوسوں دور یہ قناعت پسند آمِش اپنی محدود دنیا میں خوش اور مگن ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ان کے پاس کل چار جوڑے کپڑے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کرتے۔ ایک پہننے کے لئے، ایک دھلائی کے لئے ایک پیشہ ورانہ کام کے لئے اورایک شائد کسی تقریب کے لئے۔
آمِش کسی بنک میں اکاؤنٹ نہیں کھولتے۔ سودی کاروبار سے دور رہتے ہیں۔ ٹیکس دیتے ہیں، مگر ٹیکس کے بدلے کوئی سہولت نہیں لیتے۔ قناعت اور سادگی نے ان کی زندگی کو ایک خاص طرح کے حسن سے بھر دیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں جادو ہے اور ان کے چہروں پہ مقناطیسی کشش۔
آمِش لوگ کسی ڈاکٹر سے جدید ادویات کے ذریعہ اپنا علاج نہیں کرواتے۔ گھریلو ٹوٹکے یا زیادہ سے زیادہ ہومیو پیتھی طریقہئ علاج سے کام چلا لیتے ہیں۔ محنت اور فطرت سے قریب رہنے کے باعث ہمیشہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔تازہ اور خالص غذاؤں کا استعمال انہیں ہمیشہ صحت مند رکھتا ہے۔

لیجیے کچھ شادی بیاہ کے بارے میں بھی سن لیجئے۔ شادی کے لئے اماں ابا رشتہ نہیں ڈھونڈتے۔ لڑکا اپنی دلہن خود پسند کرتا ہے، مگر لڑکی سے خود نہیں کہہ سکتا۔ اگر اظہار کربیٹھا تو لفنگا کہلائے گا۔ لڑکا اپنی پسند کا اظہار اپنے مذہبی راہ نما یعنی بشپ سے کر تا ہے اور بشپ صاحب اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔وہ لڑکی کے اہل خانہ سے مل کر معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔کوئی رکاوٹ نہ ہو تو شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کی تقریب میں پانچ یا چھے سو افراد شریک ہوتے ہیں۔ شادی کے دن دولہا دلہن کو تحفہ دینے کا رواج نہیں ہے۔ شادی کے بعد دولہا دلہن ہنی مون منانے کے لئے ایک بگھی میں گھومنے نکلتے ہیں اور گھومنا بھی کیا، وہ ہر اس گھر تک جاتے ہیں جس کے مکین ان کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ نو بیاہتا جوڑا ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جواب میں میزبان انہیں تحفہ پیش کرتا ہے۔ وہ تحفہ جو شادی کی تقریب میں اُنہیں نہیں دیا گیا تھا، لیجئے وہ تحفہ اب حاضر ہے۔ جس بگھی میں یہ نوبیاہتا جوڑا گھومنے کے لئے نکلتا ہے وہی بگھی یہاں کی عمومی سواری ہے۔جدید ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے سے عموماً گریز کیا جاتا ہے۔
خواتین شادی سے قبل سفید ایپرن پہنتی ہیں۔ شادی کے وقت یہ ایپرن سنبھال کے رکھ لیا جاتا ہے جو بعد از مرگ پہنایا جاتا ہے۔ شادی کے وقت لڑکے پر لازم ہے کہ وہ مختصر سی علامتی داڑھی کاآغاز کردے۔ کسی کی لمبی داڑھی دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ اس کی شادی مدتوں پہلے کبھی ہوئی ہو گی۔ لڑکی کو سفید ایپرن میں دیکھیں تو سمجھ لیں کہ ابھی لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔یاد رکھیے کہ آمِشوں کے ہاں طلاق یا علیحدگی کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی آخری سانسوں تک ایک دوسرے کے اچھے ساتھی بن کر رہتے ہیں۔
بچے پبلک اسکول نہیں جاتے، بلکہ اپنی برادری کے قائم کردہ اسکول کا رخ کرتے ہیں۔ آٹھویں تک روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہنر سیکھتے ہیں۔ یہاں ہنر مندی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ایک بات جان کر کتنا اچھا لگا۔ دوکان دار اپنی دوکان پر رکھی اشیاء کی قیمت وہیں لکھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک بکس بھی رکھ دیتے ہیں۔ آپ مطلوبہ چیز کی قیمت پڑھیں اور پیسے بکس میں ڈال دیں۔ آپ نے اگر بکس میں پیسے کم ڈالے تو اس پر خفا ہونے کے بجائے سمجھیں گے کہ آپ کی کوئی مجبوری ہوگی ورنہ آپ تو ایسے نہیں کہ جان بوجھ کر کم پیسے ڈالیں۔ واہ کیا کہنے۔

ڈچ اور انگریزی زبانیں بولتے ہیں۔عیسائیت ان کا مذہب ہے،مگر پوری بستی میں کوئی چرچ نہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک ماہ میں دو بار کوئی ایک طے شدہ گھر مذہبی عبادات و رسومات کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ صبح ہی سے کھانے پکانے اور مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
اس پورے سفر میں سارہ میری راہ نما اور گائیڈ تھیں۔سارہ نے ہمیں بہت مزے مزے کی باتیں بتائیں۔ ہر نئے لمحے حیرتوں کے بہت سے در کھلے مگر بہت سی باتوں کو آئندہ کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ فی الوقت تو تصویریں دیکھئے اور میرے ساتھ اس منظر کا حصہ بن جائیے جو پوری طرح میری روح میں تحلیل ہو چکا ہے۔
مجھے دوبارہ امریکا جانے کا موقع ملا، دونوں مرتبہ اپنے بچوں کی ”تقریب تقسیم اسناد“میں شرکت ہی مقصد تھا مگر کیسے ممکن تھا کہ میں دو ریاستوں کی دو یونیورسٹیز کو چھو کر واپس آجاتا۔ میرے اندر کا ابن بطوطہ بے چین تھا کہ امریکا کو سیاّح کی آنکھ ہی سے دیکھے، مختلف خطوں میں جائے، رنگ برنگے لوگوں سے ملے، تہذیب، تمدن اورطور طریقوں کا قریب سے مشاہدہ کرے، مشہور عمارات اور مقامات کوخود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اندازہ لگائے کہ ذاتی مشاہدے کے نتیجے میں علم و آگہی کا حصول کیوں کر مختلف اور دلچسپ تجربہ ہے۔

میں نے دو کے بجائے بارہ ریاستوں کی خاک چھانی پھر بھی مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے بارہ امریکی ریاستوں کو اس طرح دیکھا ہوگا جیسا کہ انہیں دیکھنے جاننے اور سمجھنے کا حق ہے۔ تاہم جو کچھ دیکھا وہ بھی کم نہ تھا۔ مختصر عرصے میں جو سیکھا جو جانا وہ بھی مجھے نہ کسی کتاب سے مل سکتا ہے نہ ہی کسی فلم یا ٹی وی پروگرام سے۔ واپسی میں ارادہ کیا کہ اس سفر کی روداد ماہ نامہ ہمدرد نونہال کی توسط سے پاکستان بھر کے ہزاروں قارئین نونہالوں تک پہنچاؤں گا اور پھر ایسا کیا بھی۔ ہمدرد سے ڈیڑھ سالہ وابستگی کے عرصے میں ہر ماہ سفر نامے کی ایک قسط شائع ہوتی رہی، پاکستان سے موصول ہونے والے نونہالوں کے سینکڑوں خطوط پڑھ کر اندازہ ہوا کہ بچوں نے اس سفر نامے میں کس قدر دلچسپی لی۔ بد قسمتی سے مجھے ہمدرد نونہال سے لاتعلق ہونا پڑا….اس لا تعلقی کی وجہ بھی صرف ایک شخص تھا جس کا نام ”امیر سادتین کو پیک“ ہے۔ مجبوراًمجھے اپنے کائی قبیلے میں لوٹنا پڑا۔
نونہال میں شائع ہونے والی گیارہ اقساط میں سے چند میں نے فیس بک پہ بھی پوسٹ کی تھیں۔ میرے بعض احباب کا خیال ہے کہ مجھے وہ تمام اقساط اپنے دوستوں اور اردو قارئین کے لیے فیس بک پر پوسٹ کرنی چاہیں، سو اب از سر نو قسط نمبر ۱ سے آغاز کررہا ہوں۔ آمیش قبیلے کے موضوع پر میری یہ پوسٹ بہت سے دوست پہلے بھی دیکھ چکے ہوں گے لیکن میں اب محض اس تسلسل کی ترتیب کو قائم رکھنے کے لیے دوبارہ پوسٹ کررہاہوں۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ سفر نامہ امریکا کے بارے میں جان کاری کی ایک اچھی کوشش ثابت ہو، سفر نامہ چونکہ تحقیقی مضمون نہیں ہوتا اس لیے اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی لکھنا مناسب سمجھا۔ آپ کا فیڈ بیک مجھے آئندہ کی اقساط کو دلچسپ بنانے اور اس سفر نامے کو ایک پسندیدہ کتاب بنانے میں میرا معاون ہو گا۔
*********
آمش قبیلے کے بارے میں کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔ ان کی دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سن کر ان لوگوں سے ملنے یا انہیں دیکھنے کی خواہش بھی بہت شدید تھی۔اس لیے امریکا پہنچتے ہی اپنے عزیز دوست ڈاکٹر فضل محمود کے ساتھ میں نے ایک بھر پور دن ان کے مختلف گوٹھوں میں گزارا۔سچ کہتا ہوں پنجابی والا ”سواد“ آگیا۔ میں اس دورے کو امریکی دورے کا حاصل کہوں تو غلط نہ ہو گا۔آمِش امریکاکی لگ بھگ اکتیس ریاستوں میں آباد وہ قدیم باشندے ہیں جو صدیوں قبل جرمنی اور اس کے اطراف سے چلے اور امریکا آ کر یہاں مختلف ریاستوں میں مقیم ہوگئے۔
کھیتی باڑی یا زراعت سے متعلقہ کام ان کا پیشہ تھاجو آج تک ہے۔ ان کی بڑی تعداد امریکی ریاست پنسلوینیا میں آباد ہے جو35 ہزار خاندانوں پر مشتمل ہے۔ ہم اس وقت جس علاقے میں موجود ہیں، اس کا نام ”لنکاسٹر“ہے۔
آمِشی علاقوں کا حسن یہ ہے کہ یہ لوگ نئے عہدمیں بھی اپنی پرانی روایتوں اور قدیم طور طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور کسی طور اپنے آپ کو نئے عہد سے جوڑنے کو تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں بجلی تک استعمال نہیں کرتے، اپنی اندھیری راتوں کو آج بھی قدیم طرز کے لیمپ اور فانوس سے اجالے ہوئے ہیں۔یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ بعض تصاویر میں جو بجلی کے آلات اور جدید ٹرانسپورٹ نظر آرہی ہیں وہ صرف اس مرکز تک محدود ہیں جو سیاحوں کی آمد پر رجسٹریشن اور راہ نمائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
فطرت اور فطرت کے حسن سے جڑے یہ لوگ سادگی اور سچائی کا عجب نمونہ ہیں۔ بڑی بڑی خواہشوں سے کوسوں دور یہ قناعت پسند آمِش اپنی محدود دنیا میں خوش اور مگن ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ان کے پاس کل چار جوڑے کپڑے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کرتے۔ ایک پہننے کے لئے، ایک دھلائی کے لئے ایک پیشہ ورانہ کام کے لئے اورایک شائد کسی تقریب کے لئے۔
آمِش کسی بنک میں اکاؤنٹ نہیں کھولتے۔ سودی کاروبار سے دور رہتے ہیں۔ ٹیکس دیتے ہیں، مگر ٹیکس کے بدلے کوئی سہولت نہیں لیتے۔ قناعت اور سادگی نے ان کی زندگی کو ایک خاص طرح کے حسن سے بھر دیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں جادو ہے اور ان کے چہروں پہ مقناطیسی کشش۔
آمِش لوگ کسی ڈاکٹر سے جدید ادویات کے ذریعہ اپنا علاج نہیں کرواتے۔ گھریلو ٹوٹکے یا زیادہ سے زیادہ ہومیو پیتھی طریقہئ علاج سے کام چلا لیتے ہیں۔ محنت اور فطرت سے قریب رہنے کے باعث ہمیشہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔تازہ اور خالص غذاؤں کا استعمال انہیں ہمیشہ صحت مند رکھتا ہے۔

لیجیے کچھ شادی بیاہ کے بارے میں بھی سن لیجئے۔ شادی کے لئے اماں ابا رشتہ نہیں ڈھونڈتے۔ لڑکا اپنی دلہن خود پسند کرتا ہے، مگر لڑکی سے خود نہیں کہہ سکتا۔ اگر اظہار کربیٹھا تو لفنگا کہلائے گا۔ لڑکا اپنی پسند کا اظہار اپنے مذہبی راہ نما یعنی بشپ سے کر تا ہے اور بشپ صاحب اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔وہ لڑکی کے اہل خانہ سے مل کر معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔کوئی رکاوٹ نہ ہو تو شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کی تقریب میں پانچ یا چھے سو افراد شریک ہوتے ہیں۔ شادی کے دن دولہا دلہن کو تحفہ دینے کا رواج نہیں ہے۔ شادی کے بعد دولہا دلہن ہنی مون منانے کے لئے ایک بگھی میں گھومنے نکلتے ہیں اور گھومنا بھی کیا، وہ ہر اس گھر تک جاتے ہیں جس کے مکین ان کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ نو بیاہتا جوڑا ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جواب میں میزبان انہیں تحفہ پیش کرتا ہے۔ وہ تحفہ جو شادی کی تقریب میں اُنہیں نہیں دیا گیا تھا، لیجئے وہ تحفہ اب حاضر ہے۔ جس بگھی میں یہ نوبیاہتا جوڑا گھومنے کے لئے نکلتا ہے وہی بگھی یہاں کی عمومی سواری ہے۔جدید ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے سے عموماً گریز کیا جاتا ہے۔
خواتین شادی سے قبل سفید ایپرن پہنتی ہیں۔ شادی کے وقت یہ ایپرن سنبھال کے رکھ لیا جاتا ہے جو بعد از مرگ پہنایا جاتا ہے۔ شادی کے وقت لڑکے پر لازم ہے کہ وہ مختصر سی علامتی داڑھی کاآغاز کردے۔ کسی کی لمبی داڑھی دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ اس کی شادی مدتوں پہلے کبھی ہوئی ہو گی۔ لڑکی کو سفید ایپرن میں دیکھیں تو سمجھ لیں کہ ابھی لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔یاد رکھیے کہ آمِشوں کے ہاں طلاق یا علیحدگی کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی آخری سانسوں تک ایک دوسرے کے اچھے ساتھی بن کر رہتے ہیں۔
بچے پبلک اسکول نہیں جاتے، بلکہ اپنی برادری کے قائم کردہ اسکول کا رخ کرتے ہیں۔ آٹھویں تک روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہنر سیکھتے ہیں۔ یہاں ہنر مندی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ایک بات جان کر کتنا اچھا لگا۔ دوکان دار اپنی دوکان پر رکھی اشیاء کی قیمت وہیں لکھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی ایک بکس بھی رکھ دیتے ہیں۔ آپ مطلوبہ چیز کی قیمت پڑھیں اور پیسے بکس میں ڈال دیں۔ آپ نے اگر بکس میں پیسے کم ڈالے تو اس پر خفا ہونے کے بجائے سمجھیں گے کہ آپ کی کوئی مجبوری ہوگی ورنہ آپ تو ایسے نہیں کہ جان بوجھ کر کم پیسے ڈالیں۔ واہ کیا کہنے۔

ڈچ اور انگریزی زبانیں بولتے ہیں۔عیسائیت ان کا مذہب ہے،مگر پوری بستی میں کوئی چرچ نہیں۔ اس مقصد کے لئے ایک ماہ میں دو بار کوئی ایک طے شدہ گھر مذہبی عبادات و رسومات کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ صبح ہی سے کھانے پکانے اور مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔
اس پورے سفر میں سارہ میری راہ نما اور گائیڈ تھیں۔سارہ نے ہمیں بہت مزے مزے کی باتیں بتائیں۔ ہر نئے لمحے حیرتوں کے بہت سے در کھلے مگر بہت سی باتوں کو آئندہ کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ فی الوقت تو تصویریں دیکھئے اور میرے ساتھ اس منظر کا حصہ بن جائیے جو پوری طرح میری روح میں تحلیل ہو چکا ہے۔