11 ستمبر 2021ءبروزہفتہ جب دنیا 9/11 کی 20 ویں برسی غم و الم منارہی تھی لاہور میں دبستان اقبال کے خوبصورت ھال میں پُروقارتقریب کاانعقادکیاگیا یہ تقریب نامور مصنف، سکالر اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی حال ہی میں گوشہ ادب کوئٹہ سے چھپنے والی نئی کتاب “کمال اقبال اور اکیسویں صدی ” کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں منعقد ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے بھی 31 گرانقدر کتابیں لکھ کر علمی اور ادبی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔بطور خاص علامہ محمد اقبال کی شخصیت اور فکر و فلسفہ ان کا خاص میدان ہے۔برصغیر میں جن چند لوگوں نے علامہ محمد اقبال کی فکر کو صحیح معنوں میں سمجھا ہےان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے علامہ محمد اقبال کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کی فکرکی بھی بھرپور خوشہ چینی کی ہےاور جدید دور کے پس منظر میں فکر اقبال کے کئی گوشوں کو عوام و خواص کے سامنے آشکار کیا ہے۔
تقریب میں شرکت کے لئے پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان آزاد کشمیر ڈڈیال کٹھار دلاور خان سے اپنے دوست ذوالفقار اسد کے ہمراہ جب کہ ان کے دست راست علمی و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کے کوشاں عبدالمتین اخونزادہ ،اپنے دوست محمد مسلم پانیزئی کے ہمراہ کوئٹہ سے طویل مسافت طے کر کے لاہور پہنچے تھے، ڈاکٹر صاحب اور اخونزادہ صاحب آپس میں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں اور دونوں کی جوڑی کمال کی ہے۔جو اقبال کے اس شعر کے مصداق جھپٹنا،پلٹنا،پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ہر وقت کسی نہ کسی رنگ میں مصروف عمل رہتے ہیں دونوں کی سیمابی فطرت جمود کو موت اور حرکت کو زندگی سمجھتے ہوئےمثبت،تعمیری اور صحت مند سرگرمیوں میں مشغول رہنا پسند کرتی ہے۔ڈاکٹر صاحب زندگی کی خاصی بہاریں دیکھ چکے ہیں اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں طویل مسافت کی تھکاوٹ انسان کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے اور وہ کسی گوشہ عافیت میں بیٹھنا پسند کرتا ہے مگر داکٹر صاحب کے چہرے کی تروتازگی ،طبیعت کی ہشاشت و بشاشت اور فعال اور متحرک زندگی دیکھنے والوں کو پیغام دے رہی ہے کہ اگر انسان کے اندر کسی مقصد کی لگن زندہ ہو تو پھر ڈھلتی ہوئی عمر کے اثرات کوئی معنی نہیں رکھتے۔
اخونزادہ صاحب عمر کے ابھی اس حصے تک تو نہیں پہنچے مگر مجلس فکر و دانش کے بانی اور صدر کی حیثیت سے قلیل عرصے میں اس پیغام کو جس طرح بھرپور اور موثر انداز میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پہنچا دیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بساط سے بھی زیادہ محنت کر رہےہیں ۔ وقت مقررہ سے پہلے ہی مہمان تشریف لا چکے تھے اور حاضرین کی معقول تعداد بھی ہال میں موجود تھی لہذاچند منٹ کی تاخیر کے ساتھ نوجوان ڈاکٹر طلحہ شاہ نے خوب صورت انداز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔تلاوت کے بعد پروگرام کے میزبان جناب اخونزادہ صاحب نے مہمانوں اور شرکاء کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ چند تمہیدی کلمات کہتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں ذہنی و تہذیبی ارتقاء اور مادی ترقی و خوشحالی کے لئے نئے پیراڈایم میں فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے فکر و دانش اقبال کو سمجھنے اور اسے ثمربار بنانے کے لئے نئے سرے سے فکری اور ذہنی استعداد و توان پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے نئی دینا تشکیل و تعبیر نو کے لئے بھرپور توانائی و دانش مندی کی آرزو مندی فعال و متحرک کیا جاسکے۔
اب خلاف معمول پروگرام کے مہمان خصوصی عہد نو کے نامور شخصیت و کردار فکر و نظر جناب احمد جاوید صاحب کو دعوت سخن دے دی گئی۔جناب احمد جاوید صاحب جو کہ اقبال اکیڈمی کے سابقہ ناظم بھی ہیں ان کی شہرت ایک صوفی، دانشور اور سکالر کی ہے۔انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اس کتاب کی کم از کم ایک خوبی ایسی ہے کہ جو اسے اقبالیات میں اضافہ قرار دینے پر ہمیں مجبور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اقبال کے ساتھ ہمارے تعلق کی جہتیں کیا ہو سکتی ہیں ؟ یہ وہ پہلو ہے جس پر ہمارا اب تک ک ادب خاموش تھا۔ڈاکٹر صاحب نے یہ کتاب لکھ کر کفارہ ادا کر دیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف برصغیر بلکہ عالم اسالم کی گذشتہ دو سو سال کی تاریخ میں کوئی ایسا مفکر دکھائی نہیں دیتا جو زبانی مطابقت کے اعتبار سے اقبال کے برابر ہو۔دیگر مفکرین کی فکر بدلے ہوئے حاالت کا ساتھ نہیں دیتی ۔ اقبال قدیم اور جدید کا سنگم ہے جس کی فکر ایک طرف ایمانی سرچشموں سے جڑی ہوتی ہے۔اور دوسری طرف زمانی حالات کی پوری پوری رعایت اس میں موجود ہے۔اقبال مالک ارض و سماءکا بہت بڑا انعام ہے لیکن اس کی ناقدری کر کے ہم بہت بڑی ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اقبال کی صورت میں قدرت کا انعام بڑا ہے یا ہماری ناشکری بڑی ہےہم نے اقبال کو اپنے اوپر وارد نہیں کیا بلکہ اقبال کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کبوتر حرم ہم سے کہ رہا ہے کے میری فکر کا دامن تھام لو اس سے تمہاری سوسائٹی انسانی، ایمانی اور روحانی بن جائے گی۔ لیکن ان کی کوئی بھی خواہش ہم پوری نہ کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب اس پہلو سے ہمارے محسن ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر ایک مرتبہ پھر ہمیں جگایا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ اب بھی اگر چاہو تو فکر اقبال کو جذب اقبال میں مدغم کر کے اپنی ایمانی اور روحانی بقا کا سامان کر سکتے ہو،اگر اتنی آسان اور فدویانہ آواز کو بھی ہم نے نظر انداز کر دیا تو دیگر اعلی مراتب تک پہنچنا تو درکنار ہم اچھے انسان بننے میں بھی ناکام رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالت یہ ہے کہ لوگوں کو اقبال کے دیوان تو یاد ہیں مگر پیغام یاد نہیں ہے،خدا سے بےگانہ کر دینے والے ماحول میں قرآن و حدیث کے بعد اگر کوئی چیز آج مسلمانوں کے فکری و عملی زاویوں کی اصلاح میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے تو وہ کلام اقبال ہے۔انہوں نے ڈاکٹر عارف خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کی اقبال کے قرطاس فکر کو
ڈاکٹر صاحب نے جس باریک بینی سے جمع کیا ہے ،میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی اور نے اس طرح کیا ہو۔
علامہ محمد اقبال سٹیمپ سوسائٹی کے صدر میاں ساجد علی نے کہا کہ اقبال کی فکر کو آگے بڑھانے میں سر فہرست نام ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا ہے، پروفیسرڈاکٹر محمد عارف خان صاحب نے انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس فکر کو آگے بڑھایا ہے، اور بتایا ہے کی اقبال کی فکر چونکہ قرآن سے ماخوذ ہے لہذا وہ آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جیسی قیام پاکستان کے دور میں تھی۔انہوں نے کہا کہ کتاب میں دو موضوعات بطور خاص اہم ہیں۔ایک تصوف اور دوسرا خودی۔ڈاکٹر محمد عارف خان نے ان دونوں موضوعات کے حوالے سے بڑی خوبصورت بحث کی ہے اور اقبال کی فکر کواس کے حقیقی معنوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مظہر معین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ نئی نسل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عربی اور فارسی سے اپنا رابطہ بحال کرے۔اس کے بغیر اقبال کے کلام کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔جب تک ہمارے نصاب میں مڈل کلاسز میں فارسی کو شامل نہیں کیا جاتا اور پہلی سے بارہویں تک اسلامیات کے نصاب میں بامعنی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں تب تک ہماری نوجوان نسل کے لئے کلام اقبال کو سمجھنا مشکل ہو گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اقبال کا عبادات اور معاملات کے حولے سے جو طرز عمل ہے ہمیں اسے بھی جاننا چاہیئے تاکہ حالات حاضرہ کے تناظر میں سیرت و کردار کی اصلاح میں اس سے رہنمائی لے سکیں۔
بریگیڈئیر وحید الزماں طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے ڈاکٹر عارف خان صاحب کی اس نئی کتاب کا تعلق اقبال کی فکر اور
فلسفے سے ہے۔ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اب میں خطبات اقبال کو صحیح
معنوں میں سمجھ سکا ہوں ،خطبا ت اقبال میں بعض مباحث اتنے دقیق ہیں کہ سید سلیمان ندوی نے کہا تھا کہ بہتر ہوتااگر اس کتاب کو شائع نہ کیا جاتا ۔وجہ یہ تھی کہ لوگوں کی علمی سطح اتنی بلند نہیں تھی۔بہرحال ڈاکٹر صاحب نے اس بحث کو کافی آسان کر دیا ہے۔علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے فلسفہ خودی پر بھی بہت خوبصورت بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ سب سے اعلی خودی،خودی مطلق ہے،جو خدا کی ذات ہے،انسانی خودی کا کمال یہ ہے کہ وہ خودی مطلق کی صفات کو اپنے اندر جذب کرتی جائے۔انہوں نے مزید کہا کے اس کتاب نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں،میں تمام حاضرین سے درخواست کروں گا کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں ۔
ایرانی دانشور و ڈائریکٹر خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران جناب جعفر روناس نے فارسی میں گفتگو کی جسے ان کے معاون جناب سید دلاور عباس نے ساتھ ساتھ اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے حاضرین کو سمجھایا۔انہوں نے کہا کہ علامہ محمد اقبال ایران میں ہمیشہ گہری دلچسپی رکھتے تھے جس کا بہت بڑا ثبوت ایران پر ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔اقبال مولانا روم سے بہت متاثر تھے جس کا اظہا ان کے کلام میں بعض جگہوں پر
واضح دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کے اقبال ایک بلند پایہ مسلم فلسفی تھے اور انہوں نے شاعری کو اپنے خیالات کا ذریعہ اظہار بنایا ۔
کتاب کے مصنف و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کو گفتگو کی دعوت دی گئی تو انہوں نے ڈائس پر آ کر کہا کے جو کچھ اب تک بیان کیا گیا ہے اور جو نکات اُٹھائے گئے ہیں ہمارے لئے اعزازہیں۔لہذا میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کرونگا کیونکہ میرے معروضات لکھے ہوئے موجود ہیں ۔ جناب احمدجاوید جیسی شخصیت نے کتاب کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے حوصلہ ہوتا ہے کہ میں نے جو کام کیا ہے وہ وقت ضائع نہیں ہوا ۔ انہوں نے حاضرین کو سوالات پوچھنے کی دعوت دی جس پر شرکاء کیطرف سے چند سوال پوچھے گئے جن کے انہوں نے جوابات دیئے۔ایک سوال کا بہت خوبصورت جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خدا کو ڈھونڈنا تو بعد کی بات ہے پہلے خدا کے ہونے کا احساس تو پیدا کریں۔
آخر میں صدر مجلس اور دبستان اقبال لاہور کے بانی میاں اقبال صلاح الدین کو دعوت دی گئی انہوں نے اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان اور ان کے دست راست عبدالمتین اخونزادہ انتہائی مخلصانہ طریقے سے جو جدوجہد کر رہے ہیں وہ قابل صد تحسین ہے۔اول الذکر آزاد کشمیر سے اور موخر الذکر کا کوئٹہ سے چل کر آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ہم ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ بعد یہ خوبصورت علمی و ادبی چاشنی سے لبریز تقریب اپنے اختتام کو پہنچی،نماز مغرب با جماعت ادا کی گئی ۔بعد ازاں شرکاء کے لئے ریفریشمنٹ کااہتمام بھی کیا گیا تھاجس سے فارغ ہو کر شرکاء تقریب خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے.