سندھ دھرتی میں انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کا لافانی اور دیو مالائی کردار ہوش محمد شیدی کا ہے۔ان کا نام عقیدت اور احترام کی علامت ہے۔حیدرآباد کا یہ باسی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار ہے۔
جنگ پلاسی،بکسر اور معرکہ سرنگاپٹم کی مانند ایک معرکہ حیدر آباد بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں نواب سراج الدولہ، شاہ عالم ثانی اور ٹیپو سلطان کی طرح تالپور آف سندھ کو بھی انگریز سامراجیت کا سامنا کرنا پڑا۔
ہوش محمد شیدی کو ہوشو شیدی بھی کہا جاتا ہے۔ ہوش محمد شیدی شہید افریقی النسل سیاہ فام قبیلے کا فرزند تھا جو تنزانیہ (افریقہ)سے فروخت کے لیے کراچی کے ساحل پر لایا گیا اور غلام کی حیثیت سے تالپور خاندان نے اسے خرید لیا۔اس کے والد سبھاگو اور والدہ بی بی دائی تالپور خاندان کے ذاتی ملازم بن گئے۔
اس طرح ہوشو شیدی سندھ میں تالپور قبیلے کی ریاست خیر پور کے ایک صوبیدار کا ذاتی ملازم بن گیا۔بعد ازاں وہ فوج میں بھرتی ہو گیا جہاں اس کی بہادری اور جفاکشی کے قصے مشہور تھے۔فوج میں ترقی کرتے کرتے اسے سپہ سالاری کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔اسی وجہ سے انھیں جنرل ہوشو شیدی بھی کہا جاتا ہے۔
ہوش محمد شیدی نے سرائیکی زبان سیکھی جو تالپور ریاست کے حکمرانوں کی زبان تھی۔سرائیکی زبان کی بدولت وہ بلوچ قبیلوں سے مانوس ہو گیا۔اس زمانے میں سندھ میں آباد بلوچ قبیلوں بشمول تالپور خاندان کی زبان سرائیکی تھی۔
اس کی پرورش تالپور خاندان میں ہی ہوئی تھی لیکن مزاجاًوہ اپنے آقاؤں سے یکسر مختلف تھا اور دھرتی کا یہ محب، انگریزوں کا دشمن، آزادی کا خوگر، غلامی کا دشمن، اسی لیے مالک سے رشتہ توڑا اور حریت پسندوں سے جا ملا۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
ہوشو شیدی نےمیر صوبیدار تالپور کو انگریزوں سے دوستی کرنے سے منع کیا مگر صوبیدار نے اسے گستاخی سمجھا اور اسے عہدے سے ہٹا دیا۔ہوشو شیدی کہاں چپ رہنے والا تھا اس اقدام کے بعد اس نے مقامی فوجیوں کو انگریز سامراج کے خلاف ابھارا۔وہ جگہ جگہ سرائیکی زبان کی بدولت اپنے ساتھیوں کو انگریز کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کرتا رہا۔اس عمل نے اسے پرسوز خطیب بنا دیا اور اس کے خطاب کی بدولت مقامی سندھی انگریزوں کے درپے ہو گئے۔
1843ء میں میانی کے میدان میں17فروری کو چارلس نیپئر کے لشکر نے تالپوروں کی فوج کو ناکامی سے ہم کنار کیا تھا مگر آخری معرکہ اگلے ماہ مارچ کی 24 تاریخ کو دو آبہ کے میدان میں ہوا، جسے سندھی دبہ کی جنگ کہتے ہیں۔
میانی کی اسی جنگ میں میر شہداد تالپور نے ’’مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘‘ (مرجائیں گے سندھ نہیں دیں گے) کا نعرہ لگایا تھا۔ بلوچ النسل تالپوروں کے گھروں میں آج بھی سرائیکی بولی جاتی ہے۔ یہی نعرہ دوآبہ کی جنگ میں ہوشو شیدی نے لگایا اور دھرتی پر قربان ہوگیا۔
عبدالجبار عابد لغاری نے ’’جدوجہد آزادی میں سندھ کا کردار‘‘ کے صفحہ 28 پر لکھا ’’یہ دن انگریزوں کے لیے مشکل ترین دن تھا اور دبہ کی جنگ میانی سے کہیں زیادہ سخت تھی۔ بلوچ اور مقامی سپاہی فرنگیوں سے بے جگری، جرأت ، ہوشیاری اور بہادری کے ساتھ لڑے اور جنگ کا نتیجہ یقیناً سندھیوں کے حق میں ہی نکلنا تھا لیکن یہاں بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ ایک طرف انگریزوں کے جاسوسوں نے خفیہ طور پر تالپوروں کے بارودخانے کو آگ لگوا دی تو دوسری سمت ایسے ہواؤں کے جھکڑ چلے کہ پورا آسمان سیاہ نظر آنے لگا۔
ایسے میں ایک گھڑسوار اپنی شجاعت اور دلیری کے جوہر دکھاتا نظر آیا۔ جس دستے کی یہ کمان کررہا تھا اس کے جوان بھی لپک اور جھپٹ رہے تھے۔ جنگ زور و شور سے جاری تھی۔جاسوس اور غداروں کی بدولت جیتی گئی بازی پلٹتی نظر آئی تو اس گھڑسوار ہوش محمد شیدی نے میر شیر محمد تالپور کو میدان جنگ سے محفوظ مقام کی سمت نکلنے کا مشورہ دیا۔ شیر محمد تالپور اس کے حق میں نہ تھا لیکن ہوش محمد کا اصرار غالب آیا بالخصوص یہ جملہ ’’سرکار! آپ ہی اب سندھ کی امید ہیں آپ زندہ رہے تو انگریز کے ساتھ پھر بھی لڑسکتے ہیں اگر آج شہید ہوگئے تو پھر سب کے لیے غلامی کی زنجیریں ہی بچیں گی۔‘‘
چویاری سلطنت ( سندھ میں چار بھائیوں کی قائم کردہ ریاست) کے وزیراعظم نواب احمد خان لغاری نے میر شیر محمد کو زبردستی ساتھ لیا اور میدان کارزار سے چلے گئے اب قیادت ہوش محمد شیدی کے پاس تھی۔ میر مراد علی تالپور کے فرزند کو چارلس نیپئر، میجر آؤٹرم کی بدعہدی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس طرح سے وہ بھی الگ ہو گیا۔
اپنوں کی غداری اور انگریزوں کی بد عہدی کی بدولت یہ معرکہ سندھیوں کی شکست میں تبدیل ہو گیا۔اس معرکے میں تالپوروں کے ساتھ نہ دینے کی بدولت باقی فوج کا مورال بھی گر گیا اور انگریز فوج کے مقابل بہت تھوڑی نفری کی بدولت ہوشو شیدی آخر دم تک لڑتا رہا ۔اور ایک ہی نعرہ لگاتا رہا۔
مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں
اس دوران بھاری گولہ بارود کے استعمال کی بدولت انگریزوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اورہوش محمد شیدی اپنے ساتھیوں سمیت جواں مردی سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔
قلعہ حیدرآباد میں انگریز سپاہیوں نے بے پناہ لوٹ مار کی ہتھیار، خزانہ، کتب خانہ اور قیمتی اشیاء سب فرنگیوں کی دسترس میں تھا۔اور وہ سب لوٹ کر کلکتہ لے گئے جو بعد میں انگلستان بھجوا دیا گیا۔
جنگ کے خاتمہ پر میر شیر محمد تالپور اور چویاری سلطنت کے وزیراعظم نواب احمد خان لغاری اور انگریزکمانڈر چارلس نیپئر نے اس گھڑ سوار ہوشو شیدی شہید کی بہادری اور جرآت کی بے پناہ تعریف کی۔
معرکہ ختم ہوا تو ہوشو کی نعش اس حالت میں ملی کہ تلوار کا دستہ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اس کا لاشہ کئی انگریزوں کے مردہ جسموں کے اوپر تھا۔
سندھ دھرتی کے اس عظیم مزاحمت کار ہوشو شیدی نے 24مارچ 1843ء کو دو آبہ کے میدان میں آخری سانس لی اور شہادت کا رتبہ پالیا۔ ہوش محمد شہید کی بہادرانہ موت کا اعتراف چونکہ خود چارلس نیپئر کر چکا تھااس لئے اس نے ہوشو شیدی شہید کی تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کروائی اور قبر پر ایک مینار بھی تعمیر کروایا۔ یہ ایک طرح سے انگریزی سرکار کی طرف سے ہوشو شیدی شہید کی عظمت کا اعتراف تھا۔
جنگی تجزیہ کار میجر جنرل ولیم فرانسس نیپئر نے اپنی کتاب، کونکؤیسٹ آف سندھ جلد اول و دوم، میں سیاسی احوال کے علاوہ فوجی نقطہء نگاہ سے بھی اس جنگ کا مکمل احاطہ کیا ہے۔
۔
سندھی تاریخ دان مرزا قلیچ بیگ کے مطابق یہ جنگ بروز جمعہ تقریبا دوپہر کے وقت شروع ہوئی تھی مگر ڈیڑھ دو گھنٹے بھی نہ چل سکی، سب سے پہلے میر حسین علی نے میدان چھوڑا، پھر میر نصیر، میر شہداد، میر صوبدار اور خیرپور کے میر سب ایک ساتھ ہی نکل گئے اور حیدرآباد پہنچ کے ہی دم لیا۔ جی آلانہ صاحب اپنی کتاب ایمیننٹ مسلم فائٹرز میں لکھتے ہیں کہ میر صوبدار نے کسی بہانے سے اس جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ قلعے میں ہی چھپا رہا تھا۔
آزاد سندھ کا آخری محافظ ہوشو شیدی سندھ پر قربان ہوگیا اور مہران پر انگریزوں نے تسلط جمالیا۔
آج بھی ’’مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا گونج دار نعرہ ہوش محمد شیدی شہید کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے۔اوراس نعرے نے اسے سندھ کی تاریخ میں امر کردیا۔ پونے دو سو برس گزر گئے لیکن ہوشو کو وہ مقام نہ مل سکا جو آزادی کے متوالے اور دھرتی پر جان قربان کرنے والے کا استحقاق تھا۔
مارچ کے مہینے میں جمعیت الحبش، قمبرانی اور شیدی برادریاں ہوشو کی برسی کا اہتمام کرلیتی ہیں، لیکن تاریخِ سندھ میں جو کردار ہوشو کا طے ہونا چاہیے تھا بدقسمتی سے نہ ہوسکا اور اسے بھلادیا گیا۔ برسوں بعد ایاز نے لکھا:
اے سندھ تیری مٹی کو پیشانی لگاؤں۔
آج بھی ہوش محمد شیدی شہید کے نعرے کو سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر سندھ میں اس عظیم ہیرو کی یاد سرکاری سطح پر نہیں منائی جاتی جو کہ ایک ستم ظریفی ہے۔ حکومت سندھ کو ہوش محمد شیدی شہید کے مقبرے کو شایان شان تعمیر کرواناچاہئیے اور سندھ دھرتی کے اس سپوت کی شہادت کو سرکاری سطح پر منانا چاہئیے۔