لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے ایک سیاسی رہنماء نے پنجاب کے باسیوں پر ایک الزام عائد کیا کہ پنجابیوں بالخصوص لاہوریوں نے انگریز سامراج سے مل کر افغانیوں پر حملہ کیا۔جبکہ افغان مزاحمت کار ہیں اور انھوں نے مزاحمت کے ذریعے اپنی سرزمین کو غیر ملکی تسلط سے محفوظ رکھا۔
زمانہ قبل مسیح میں سکندر یونانی کو راجہ پورس نے جہلم کے مقام پہ روکا اور شدید مزاحمت کی جس کی بدولت سکندر یونانی کو برصغیر فتح کئے بغیر واپس جانا پڑا۔
محمود غزنوی کو اس خطے پر سترہ بار حملے کرنے پڑے تب جاکر سومنات میں فتح حاصل ہوئی۔اس کا مطلب ہے کہ پنجاب واسیوں اور ہندوستانیوں کی مزاحمت اتنی شدید تھی کہ سولہ حملوں میں محمود غزنوی کامیاب نہ ہو سکا۔اس کے ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کریں کہ محمود غزنوی جو کہ ایک افغان تھا اور حملہ آور بن کر پنجاب اور ہندوستان پہ چڑھ دوڑا ۔کیا یہ سامراج کی ایک شکل نہیں تھی۔
شہاب الدین غوری سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک پنجاب کی سرحد مختلف ادوار میں لاہور سے کابل تک رہی ہے بلکہ مغل دور میں تو کابل بھی ہندوستان کا حصہ رہا ہے۔کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ ان ادوار میں کون سے افغان مزاحمت کار تھے جنھوں نے اپنا صوبہ کابل ہندوستان کی سلطنت سے واپس لیا۔؟
تاریخ کےصفحات کو مزید کھنگالیں تو کیا نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور انگریز سامراج کے حملوں میں لوٹ مار ،قتل و غارت گری اور تاخت و تاراج کے سوا کوئی چیز مشترک تھی؟کیا یہ سچ نہیں کہ افغان سامراج اور انگریز سامراج ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔۔۔؟
بیسویں صدی کی تحریک خلافت کے دوران جب یہاں کے مسلم علماء نے ہجرت کا فتوٰی دیا اور لاکھوں لوگ ہندوستان سے ہجرت کر کے افغانستان گئے اور افغانیوں نے اپنے ان کلمہ گو مسلمان بھائیوں کے لئے اپنا بارڈر بند کر دیا اور انھیں واپس ہندوستان دھکیل دیا۔کیا یہ پنجابیوں اور ہندوستانیوں کے ساتھ مساوات اور بھائی چارہ کی مثال تھی۔۔؟
ایک اور اہم سوال بھی بنتا ہے کہ 1979 میں روسی سامراج نے افغانیوں پہ حملہ کیا اور دس سال تک ان پہ قابض رہا۔کیا روسی سرکار کا یہ عمل انگریز سرکار سے مختلف ہے۔اگر مختلف نہیں ہے تو پھر روسی سامراج پہ بات کیوں نہیں کی جاتی۔اور اس روسی سامراجی قوت کے خلاف مزاحمت میں پچاس ہزار پاکستانیوں بشمول پنجابیوں نے افغانیوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا ۔کیا کبھی اس تاریخی حقیقت کو بھی تسلیم کیا جائے گا کہ کیسے پنجابیوں نے افغانیوں کا ساتھ دیا تھا۔۔
تاریخ تو اس بات کو بھی نہیں بھولی کہ ریشمی رومال تحریک کے دوران کس طرح افغان امیر نے انگریزوں کا آلہ کار بنتے ہوئے
ان عظیم مجاہدین اور ان کے رہنماؤں کو گرفتار کروایا تھا۔کیا افغانیوں کا یہ عمل میر جعفر اور میر صادق سے کم تھا۔
اکیسویں صدی میں امریکی سامراج نے افغان سرزمین پہ حملہ کیا اور یہاں کی طالبان حکومت کا خاتمہ کیا ۔یہ طالبان جو درحقیقت افغانی ہی تھے انھیں جوق در جوق کیوبا کی بدنام زمانہ جیل گوانٹا نامو بے میں لے جایا گیا۔اور ان کے سفراء کی سر عام تذلیل کی گئی۔کیا اس امریکی سامراج کے اس اقدام کے خلاف بھی کوئی بات کی جائے گی۔
معروف پشتون ادیب اور سیاست دان جمعہ خان صوفی کی کتاب”فریب ناتمام” پڑھ لیجئیے آپ کو پتا چل جائے گا کہ کس طرح آپ کے ہمنوا پشتون رہنماء روسی اور امریکی سامراج کے دست و بازو بنے رہے۔کبھی اس پہ بھی لب کشائی فرمائیں۔
تاریخی حقائق اور بھی ہیں مگر فی الوقت اسی پہ گزارہ کیجئے۔
انتہائی کرب اور دکھ کا لمحہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماء کس درجہ تاریخ کو مسخ کر کے بائیس کروڑ عوام کو گمراہ کن حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔