جبیب بینک کے ملازموں کو بیرون ملک سے موصول شدہ قربانی کی رقم اکاؤنٹ ہولڈر کو دینے سے انکار کرنے کا حق کس نے دیا؟ یہ واقعی ناقابل یقین اور ناقابل برداشت امر ہے کہ ایک بینک کا ایک ملازم اپنے آپ کو محتسب اور قاضی کے عالی مقام پر سمجھتے ہوئے ایک اکاؤنٹ ہولڈر کی پوچھ گچھ کرے اور اپنی مرضی کے مطابق اس رقم کو اکاؤنٹ ہولڈر کو دینے سے انکار کرے۔ دنیا میں ایسا عجیب و غریب واقعہ کبھی بھی سننے میں نہیں آیا ہوگا اور نہ ہی آئے گا البتہ وہ بینک کی برانچ پاکستان کے معروف و مشہور بینک حبیب بینک لاہور کی ایک برانچ نہ ہو تو تب۔
یہ حیرت انگیز واقعہ چند دن قبل میرے اور لاہور میں رہنے والے میرے دوست آصف بھائی کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ تو مجھے کچھ مزاحیہ کہانی لگتا ہے مگر حیف ہے کہ یہ مزاحیہ کہانی نہیں۔ میرے دوستو، آپ بھی یہ دلچسپ کہانی سنئے اور اگر حبیب بینک میں آپ میں سے کسی ایک کا بارسوخ دوست ہے تو اس کا کچھ حل نکلوائیے۔
ہوا یہ ہے کہ ہم لوگ ہر سال قربانی پاکستان میں کروارہے ہیں اور اس کام میں میرے انجنئیر دوست آصف صاحب جو مجھے سگے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں، میری مدد کرتے ہیں۔ پاکستان سے ترکی واپسی کے بعد چونکہ میں ہر سال دو تین دفعہ پاکستان کا دورہ کرتا تھا لہٰذا اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے لیے جو قربانی کی رقم ہوتی تھی اسے بذات خود آصف بھائی کے حوالے کرتا تھا اور وہ ہر سال یہ ذمہ داری بہت خوش اسلوبی سے کرکے قربانی کا گوشت ضرورتمند افراد میں تقسیم کررہے تھے۔ اس سال تو چونکہ کورونا کی وجہ سے میرے لیے پاکستان جانا نہ ممکن ہوا اس لیے مجھے قربانی کی رقم بینک کے ذریعے ارسال کرنا پڑی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ آصف بھائی کا بینک اکاؤنٹ حبیب بینک کے لاہور کی کسی برانچ میں تھا۔
آصف بھائی نے ہماری قربانی کا فریضہ ہمارے لیے اپنی جیب سے ادا کیا اور میں نے متعلقہ رقم اپنے بینک سے ان کے اکاؤنٹ میں ارسال کروا دی۔ میری طبیعت کی ناسازی تو آشکار ہے سو میں نے رقم اپنی اسسٹنٹ خدیجہ سے بھیجوادی۔
جب ہماری بھیجی ہوئی رقم یعنی ڈھائی سو ڈالر ان کے اکاؤنٹ میں پہنچے تو حبیب بینک والوں نے مہربانی فرما کر فون کیا اور آصف بھائی سے بتایا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں ڈھائی سو ڈالر آئے اور بینک کے محتسب صاحب نے شروع کیا احتساب کہ یہ پیسے آپ کو کیوں بھیجے گئے؟ آصف بھائی نے سارا سلسلہ بتادیا تو اس نے کہا کہ بھیجنے والے کا نام کیا ہے؟ آصف بھائی نے نام بتایا تو محتسب صاحب کو یقین نہیں آیا اور کہا کہ آکر رسید دکھائی جائے. میں نے وہ جو رسید جس پر ہماری خدیجہ کا نام لکھا ہواتھا کو آصف بھائی کی خدمت میں ارسال کردیا۔ جب وہ رسید لے کر برانچ پہنچے تو محتسب صاحب نے رسید کی جانچ پڑتال کی اور چونکہ اس رسید پر خدیجہ کا نام ترکی زبان میں لکھا ہوا تھا Hatice تو صاحب جی کو یہ یقین نہیں آیا کہ یہ کوئی اسلامی نام ہے اور اس نے یہ کہہ کر اس رقم کو آصف بھائی کو دینے سے انکار کردیا کہ یہ کسی گوری کا نام لگتا ہے اور وہ قربانی کی رقم نہیں بھیج سکتی اس لیے ہم یہ رقم اس کے اکاؤنٹ میں واپس بھیجیں گے۔
سبحان اللہ، واقعی یہ کیا بکواس ہے میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ ایک تو کسی بینک کے ملازم کو کس نے یہ اجازت دی ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈر کا احتساب کرے کہ اس رقم کو تمھیں کیوں بھیجا گیا ہے؟ اور پھر کس نے اس کو یہ حق دیا ہے کہ اپنی جہالت کی بنیاد پر کسی کے نام پر اس کی اسلامیت کا فیصلہ کرے اور اس ناسمجھ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ایک اکاؤنٹ ہولڈر کے قانونی ذرائع سے پہنچی رقم کو اس کے بیان پر یقین نہ کرکے اور اسے جھوٹا ٹھہراکر کسی گوری کی قربانی کی رقم نہ بھیج سکنے کے بہانے سے اس کی رقم دینے سے انکار کرے۔ واقعتاً صد افسوس کا مقام ہے.
میں حبیب بینک کے مدبران عالی سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا انھوں نے اپنے بینک کی برانچز میں ملازم اس لئے رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی خوشنودی کا خیال رکھیں یا انھوں نے اپنی برانچز میں محتسب یا قاضی بٹھائے ہوئے ہیں جن کا کام اکاؤنٹ ہولڈرز کا احتساب یا ان کی اسلامیت کا فیصلہ ہو؟
میں ایک مرتبہ پھر گزارش کرتا ہوں کہ اگر میرے دوستوں میں حبیب بینک سے تعلق رکھنے والے یا حبیب بینک کے کسی عہدیدار سے دوستی رکھنے والا کوئی دوست ہے تو اس مسئلے میں ہماری مدد فرمائے۔
واقعی یہ حیرت اور افسوس کا مقام ہے۔