بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوستان میں برسراقتدار آنے کے بعد جس تیزی سے ہندوقومیت اور ہندوتوا منصوبے کو آگے بڑھایا ہے، اس کے بعد بی جے پی اور اس کی مادرتنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے وجود، نظریات، اعتقادات اور مقاصد کے بارے میں تجسس پیدا ہوجانا فطری امر ہے۔ اسی تجسس کے زیراثر پچھلے دنوں آر ایس ایس کے بارے میں مطالعے کا شوق ہوا۔ یہ مطالعہ تو ہنوز جاری ہے تاہم دوران مطالعہ آر ایس ایس کے نظریات، طریق کار اور تنظیمی ڈھانچے کا موازنہ جب پاکستان کی جماعت اسلامی کے ساتھ کیا تو یہ دلچسپ حقیقت کھلی کہ نظریات میں خواہ کتنا ہی بُعد ہو، دونوں جماعتوں کا طریق کار، تنظیمی ڈھانچہ اور ان کے سیاسی و سماجی ارتقا کی تاریخ کچھ ایسی مشترک بنیادوں پر استوار ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جماعت اسلامی کے کارکنان اس موازنے سے بہت کچھ سبق حاصل کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی طرح آر ایس ایس میں بھی شخصی نمود اور انفرادی اقتدار کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور کارکنان کو قائدین کے ساتھ جوڑنے کی بجائے نظریے کے ساتھ جوڑنے کا اہتمام نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راشٹریہ سنگھ میں ہمیں موروثی اقتدار کی کوئی تاریخ نظر نہیں آتی۔ جبکہ دوسری جانب جماعت اور آر ایس ایس کے مقابل سیکولر نظریات کی حامل جماعتوں مثلا کانگریس اور پیپلزپارٹی کا جائزہ لیا جائے تو نظریے کی تمام تر جگالی کے باوجود اعلی منصب کے تمام تر راستے وہاں ایک گھر کی ڈیوڑھی سے ہوکر گزرتے ہیں۔
جماعت اور آر ایس ایس کے درمیان ایک اور قدر مشترک دونوں کے کارکنان کا خلوص، یکسوئی اور اپنے نظریے کے لیے ان کی لگن ہے۔ دونوں جماعتوں کو اپنے اپنے سیاسی میدان میں انتہائی حوصلہ شکن مراحل سے گزرنا پڑا۔ لیکن جو کارکنان نظریے کو کماحقہ سمجھ کر اس کے ساتھ جڑے تھے، سخت سے سخت حالات بھی انہیں ترنوالہ بنانے میں ناکام رہے۔ یہی لگن اور خلوص ہے جو ہر انتخاب میں کمرتوڑ ناکامی کے بعد جماعت کے کارکنان کو ایک بار پھر اپنے اپنے دائرہ کار میں لا کھڑا کرتا ہے۔ یہی وہ یکسوئی اور بے غرضی ہے جس کی وجہ سے کئی بار کی پابندیوں اور سخت ترین مخالفت کے باوجود آر ایس ایس نے نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ ہندوستانی معاشرے میں اپنے نفوذ کی رفتار کو کسی طور سست نہ ہونے دیا۔ جماعت اسلامی کے بزرگ کارکنان کے بارے میں کپڑے کے ایک تھیلے میں لٹریچر لے کر بستی بستی گھومنے کی روایت جدید دور کی نذر ہوگئی، یہی روایت کسی زمانے میں آر ایس ایس کے طریق کار کا حصہ بھی تھی۔
دونوں جماعتوں کے تاریخی سفر پر نگاہ ڈالی جائے تو دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دونوں جماعتوں کا آغاز دعوتی تحریکوں کے طور پہ ہوا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں جماعتوں میں سیاسی عمل کا حصہ بننے کے حوالے سے طویل سوچ بچار رہی۔ بعد ازاں جب دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے انداز میں سیاست کے میدان کا رخ کیا تو ان کے سیاسی ارتقا کی کہانی میں بھی کئی ایک جیسے موڑ آئے۔ ایک جانب آر ایس ایس نے بھارتیہ جنا سنگھ کی صورت سیاست کا ایک ناکام تجربہ کیا تو دوسری طرف جماعت اسلامی کو بھی اسلامک فرنٹ کی شاندار انتخابی مہم کے بعد حوصلہ شکن ناکامی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ دونوں نے اپنے ان سیاسی چہروں سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ تاہم یہاں ایک فرق یہ رہا کہ آر ایس ایس نے کچھ ہی عرصے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنا سیاسی سفر دوبارہ شروع کر دیا جبکہ جماعت اسلامی کبھی بائیکاٹ، کبھی اتحاد اور کبھی خود اپنے نام اور نشان کے ساتھ سیاست کا رخ کرتی رہی۔
اپنے اپنے ملک کا تعلیمی نظام دونوں جماعتوں کی توجہ کا اہم میدان رہا ہے۔ دونوں جماعتوں نے نئی نسل کو اپنے نظریات پر پروان چڑھانے کی خاطر تعلیمی نظام اور نصاب میں تبدیلیوں کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ آر ایس ایس جہاں ایک جانب مختلف سکول سسٹم چلا رہی ہے، وہیں اس نے مختلف ریاستوں اور بعد ازاں وفاقی حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے نصاب میں بہت سی تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ جماعت اسلامی اگرچہ حکومتی سطح پر اپنے نظریات کی ترویج تاحال نہیں کر پائی تاہم نصاب سازی کے عمل میں اس کا کردار نمایاں ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے زیرسرپرستی کئی قسم کے ملک گیر سکول اور مدرسہ سسٹم چل رہے ہیں جو ملک بھر میں اس کے نظریہ کی ترویج کا اہم ہتھیار ہیں۔ اس معاملے میں ایک چیز جو جماعت کو راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے سیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اپنے تعلیمی اداروں کو افراد کے ذاتی کاروبار بننے سے بچاتے ہوئے جماعت کے لیے اثاثہ کیسے بنایا جائے۔
جماعت اسلامی پاکستان میں برادر تنظیمات کی ایک اصطلاح عموما استعمال کی جاتی ہے۔ بردار تنظیمات سے مراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والی وہ تنظیمیں ہیں جو جماعت کی زیرسرپرستی اپنے اپنے میدان عمل میں سرگرم ہیں۔ یہ تنظیمیں طلبہ، خواتین، اساتذہ، ڈاکٹروں، وکیلوں اور علماء سے لے کر مزدوروں، کسانوں اور عام نوجوانوں تک میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہی معاملہ آر ایس ایس کے ہاں بھی ہے۔ سنگھ پریوار کے نام سے تنظیموں اور گروہوں کا ایک سلسلہ ہے جو معاشرے میں مختلف سطح پر اپنے نظریات کی ترویج کے لیے سرگرم ہے۔ ان میں سے کچھ تنظیمیں اپنا سافٹ امیج برقرار رکھتے ہوئے کام کرتی ہیں تو کچھ ایسی بھی ہیں جنھیں بطور شدت پسند گروہ اپنے تعارف سے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
دونوں جماعتوں میں بزرگ ارکان کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ نوجوان خون کی تلاش ان دونوں کی ضرورت ہے تاہم اکثر قیادت پچاس سال سے زائد العمر افراد پر مشتمل ہے جو اپنی عمر کے ابتدائی حصے ہی سے ان جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اوپر بیان کی گئی مماثلتوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں جماعتوں کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔ نظریاتی تنظیم ہونے کی بنا پر اگرچہ بہت سے عوامل مشترک بھی ہیں تاہم بنیادی نظریہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمت عملی اور طریقہ کار میں بھی نمایاں تضادات موجود ہیں۔ نظریات کے اس فرق کے باوجود ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کامیاب سیاسی و نظریاتی سفر میں جماعت اسلامی کی قیادت، اس کے ارکان اور منصوبہ ساز اداروں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔