حالیہ سیاسی ہنگاموں کے دوران ایک نکتہ جو شاید کہیں بھی ذکر نہیں ہو رہا، وہ ہماری پارلیمانی سیاست میں خواتین کا کردار ہے۔ آپ خواتین کے حقوق اور نمائندگی کے نام پہ اشرافیہ کی نمائندہ چند خواتین کو اسمبلیوں میں تو لے آئے، لیکن اپنی پارٹیوں میں ان کی حیثیت، اور ایوان کے اندر ان کی کارکردگی کیا ہے؟
خواتین ارکان اسمبلی چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتی ہوں، ان سے یا تو نعرے لگوانے کا کام لیا جا رہا ہے، یا لوٹے پھنکوا کر فساد کی آگ بھڑکانے کا۔ پارٹی کے اندر اور پارلیمان میں فیصلہ سازی میں ان کا کردار صفر ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
آج پنجاب اسمبلی میں ہونے والا سارا فساد سابقہ حکومتی جماعت کی ارکان اسمبلی کے ایوان میں لوٹے لانے اور ڈپٹی سپیکر پر اچھالنے سے شروع ہوا۔ پچھلے ہفتے عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے وقت پی ٹی آئی نے اپنی خواتین ارکان کو نعرے لگانے کے لیے آگے کر دیا۔ اس سے پہلے بھی کنول شوزب، عالیہ حمزہ، ملیکہ بخاری، زرتاج گل وغیرہ بس شوپیس کے طور پر اپنی جماعت کا حصہ رہیں۔ فیصلہ سازی میں ان کا زیادہ کردار نظر نہیں آیا۔ نہ ہی کسی بحرانی صورت حال میں ان کی جانب سے کوئی کنٹری بیوشن نظر آیا۔ یہی محسوس ہوتا رہا کہ پارٹی پالیسی کے طور پر ان کی ذمہ داری بس یہی ہے کہ اپنی لیڈرشپ کو ہر حال میں درست ثابت کریں اور ایوان کے اندر جو کام مرد ارکان سے نہیں لیا جا سکتا وہ اپنے صنفی استثنا کی بنا پر ان سے لے لیا جائے۔ اس کے جواب میں انہیں سوشل میڈیا پر جس قسم کے جنسی حملوں اور رکیک مہمات کا سامنا رہتا ہے وہ ایک الگ المیہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ٹی آئی خانہ جنگی کیوں چاہتی ہے؟
پنجاب اسمبلی جیسے ہنگامے میں ڈپٹی اسپیکر کیسے جان سے گئے؟
ن لیگ میں بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ فیصلہ سازی کے اختیارات شریف خاندان کے پاس ہیں یا پھر مرد ارکان پر مشتمل کچن کیبنٹ کے پاس۔ مریم اورنگ زیب کا کام محض میڈیا پر اپنی پارٹی کے غلط صحیح کا دفاع کرنا ہے، جبکہ عظمی بخاری، حنا پرویز جیسی خواتین کا کام سوشل میڈیا پر دیگر جماعتوں کے ارکان سے الجھنے یا اپنی پارٹی کے دفاع میں نسوانیت تک سے دست بردار ہونے تک ہے۔ فیصلہ سازی میں ان کا کردار صفر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواتین کو سیاسی نمائندگی دے کر ان سے یہی کام لینا مطلوب تھا؟ یہ تو ان کے نسوانی کردار اور ان کے صنفی وقار کی توہین نہیں ہے؟ نسوانی حقوق اور مساوات کی علمبردار تنظیمیں اور سماجی کارکنان کیا خواتین پارلیمنٹیرینز کے کردار اور کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ آیا خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا کوئی قابل عمل کرائٹیریا بھی ہے یا نہیں؟ میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ ان خواتین ارکان میں سے اکثر کا سیاسی تجربہ، علم اور مہارت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ بسا اوقات تو ان کو سیاسی ڈیولپمنٹس کے بارے میں بنیادی معلومات تک حاصل نہیں ہوتیں۔ شاید اپنے خاندانی تعلقات، مال و دولت اور (بصد معذرت) نسوانی کشش کے ذریعے پارٹی میں اعلی سطح تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں اور اسی بنا پر ایوان میں پہنچ جاتی ہیں۔
سیاسی قیادت اور پالیسی ساز اداروں کو ان مسائل کا بے لاگ تجزیہ کرکے کچھ checks لگانے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کی اصل نمائندہ خواتین جنھیں اپنی کمیونٹی کے حقیقی مسائل کا ادراک بھی ہو، وہ ایوانوں میں پہنچ کر فعال کردار ادا کر سکیں۔ لیکن ظاہر ہے، جہاں پورا سسٹم ہی کلیپس کر رہا ہے، وہاں ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل کی جانب کون توجہ دے گا۔