ڈاکٹر خلیل طوق آر ترکی کی استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔ پچاس کتابوں کے مصنف، ترک میڈیا اور اکیڈیمیا میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے حقیقی سفیر ہیں۔ آپ مسئلہ کشمیر کو ترک قوم تک پہنچانے کے لیے نا صرف کئی کتابیں لکھ چکے بلکہ اس حوالے سے دنیا بھر میں منعقدہ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کے لیے مسلسل سفر میں رہتے ہیں۔
کشمیر کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد صرف 3 ماہ کے عرصے میں وہ ترکی میں کئی مجالس میں شرکت کے علاوہ دوسری مرتبہ پاکستان آئے ہیں۔ پہلی مرتبہ حکومت پاکستان کی دعوت پر ترک میڈیا کے ایک بیس رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے 15 روز کے لیے پاکستان آئے تھے۔ اب کی بار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے انھیں مدعو کیا ہے۔ انھوں نے گزشتہ برس 26 نومبر میں اسلام آباد میں آئی پی ایس کی عالمی کشمیر کانفرنس میں شرکت کی جبکہ 27 اور 28 نومبر کو مظفرآباد میں کشمیر پر مختلف سرگرمیوں میں شریک رہے۔
خوش قسمتی سے مجھے آئی پی ایس کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کی میزبانی کا اعزاز حاصل رہا۔ اس دوران ان کی اکثر سرگرمیوں میں ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ یوں ترکی، ترک قوم اور پاک ترک تعلقات کے کئی پہلووں پہ گپ شپ رہی۔
دھیمے لہجے میں بات کرنے کی اپنی عادت کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے انکشاف کیا کہ یہ ترک قوم کی خاصیت ہے۔ ہم نہ شور کرتے ہیں، نہ اپنے اردگرد شور والا ماحول پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان سے ان کا لگاو اسی باعث ہوا کہ یہ بہت میٹھی، دھیمی اور دلکش زبان ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اردو کے علاوہ پنجابی، ہندکو اور پوٹھوہاری زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے جس کا ہم نے ان سے باقاعدہ امتحان بھی لیا۔
ایک سوال پر خلیل طوق آر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ مشاعروں میں جانا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ اول تو ترکی میں مشاعرے کی روایت سرے سے ہے ہی نہیں۔ دوسرا، برصغیر کے مشاعروں میں شعرا کو ملنے والی واہ واہ اور داد جو پاکستانی شعرا کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہے،ڈاکٹر صاحب کو اس سے سخت چڑ ہے۔ ان کے خیال میں یہ واہ واہ داد دینے سے زیادہ مذاق اڑانے کی غرض سے ہوتی ہے۔ اسی مجلس میں جب ڈاکٹر صاحب اپنا شاعرانہ کلام سنا رہے تھے تو ہم نے بڑی مشکل سے خود کو واہ واہ کہنے سے روکے رکھا۔
پاکستان سے محبت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ موجودہ ترک نسل کو اس نسل سے منتقل ہوئی ہے جو تحریک خلافت کے وقت موجود تھی۔ ایوان حکومت ہو یا ترک معاشرہ، ترکی میں یہ خیال عام ہے کہ چونکہ پاکستانی مسلمانوں نے کڑے وقت میں ہمارا ساتھ دیا لہذا ہم پر فرض ہے کہ ہر مصیبت میں پاکستانی قوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم ترکی میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ 1947 میں تقسیم کے وقت تمام مسلمان پاکستان کے حصے میں آگئے تھے اور ہندوستان میں اب ہندو ہی بستے ہیں۔ چنانچہ ترکی میں پاکستان کے ساتھ جو اپنائیت پائی جاتی ہے وہ ہندوستان کے لیے دیکھنے میں نہیں آتی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ آئندہ نسل میں پاکستان سے محبت کا جذبہ باقی رکھنے کے لیے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
خلیل طوق آر کو اہل پاکستان سے چند شکایتیں بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستانی میڈیا میں ترک حکومت کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جاتی رہی ہے جسے ترکی میں پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مین سٹریم ترک میڈیا میں پاکستان کے خلاف کوئی چیز نہیں شائع ہوسکتی۔ لیکن پاکستان میں کئی موقر کالم نویس مسلسل ترک حکومت اور معاشرے کی تضحیک کرتے رہتے ہیں جو بہت نامناسب ہے۔
ایک اور شکایت انھیں یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ اہل ترکی تک انگریزی کے ذریعے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے 95 فیصد لوگ انگریزی سے نہ صرف نابلد ہیں بلکہ اس کو پسند بھی نہیں کرتے۔ ان تک اپنی بات پہنچانی ہے تو کچھ ایسے لوگ تیار کریں جو ترکی زبان میں لکھ اور بول کر مسئلہ کشمیر اور دیگر مسائل ترک عوام تک پہنچا سکیں۔
فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں چائے پر ایک نشست ہوئی۔ اس دوران چند خواتین اساتذہ ترک ثقافت کے پاکستان میں نفوذ کو ثابت کرنے کے لیے مسلسل میرا سلطان جیسے ڈراموں کا ذکر کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر طوق آر ان کے دلائل سن کر مسکراتے رہے اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ یہ ڈرامے ترک ثقافت کے نمائندہ نہیں ہیں۔ ترک معاشرے کو ان ڈراموں کی عینک لگا کر دیکھنا بے سود ہے۔
ڈاکٹر صاحب ہماری محبتوں کا تحفہ لیے، اپنے دس روزہ دورے کی حسین یادیں چھوڑے استنبول روانہ تو ہوگئے لیکن ان کا دھیما لہجہ اور دلنشیں مسکراہٹ دل میں گھر کر چکی ہے۔