مری اور گلیات کے علاقے پاکستان میں سیاحت کا اہم ترین مرکز ہیں۔ صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی اور صوبہ خیبر کے ایبٹ آباد و ہری پور اضلاع میں پھیلے یہ دلکش و دلفریب پہاڑی مقامات دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہر سال ملک و بیرون ملک سے لاکھوں سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور یہاں کی حسین فضاؤں میں سانسیں لے کر سال بھر کیلئے تازہ دم ہو کے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔
مری اور گلیات کے یہ پہاڑی مقامات دنیا کے عظیم ترین سلسلے کوہِ ہمالیہ میں آتے ہیں۔ مری، اسلام آباد سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر اور سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ بلند ہے۔ مری کے اطراف میں دیگر کئی اور سیاحتی مقامات بھی ہیں جن میں پتریاٹہ، بھوربن، ایوبیہ، نتھیاگلی اور ٹھنڈیانی وغیرہ شامل ہیں۔ مری، پتریاٹہ اور بھوربن تو ضلع راولپنڈی کا حصہ ہیں اور صوبہ پنجاب میں آتے ہیں جبکہ ایوبیہ، نتھیا گلی اور ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کا حصہ ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل ہیں۔
اسلام آباد سے مری جانے کے دو معروف راستے ہیں۔ ایک تو قدیم “مری روڈ” ہے جو اسلام آباد سے بھارہ کہو، سالگراں، تریٹ، چھراپانی، کمپنی باغ، گھوڑاگلی، بانسرہ گلی، چٹا موڑ اور سنی بنک کے مقامات سے ہوتی ہوئی مری مال روڈ تک جاتی ہے۔ جبکہ دوسری جدید اور ڈبل روڈ “مری ایکسپریس وے” ہے جو بھارہ کہو سے تھوڑا آگے آ کر قدیم مری روڈ سے دائیں طرف کو نکلتی ہے اور پھلگراں، کھجوٹ اور بستال وغیرہ کے قصبوں سے ہوتی ہوئی مسیاڑی پہنچتی ہے جہاں سے آگے لوئر ٹوپہ اور جھیکا گلی سے ہوتے ہوئے آپ مری مال روڈ تک پہنچ جاتے ہیں۔
اگر آپ قدیم مری روڈ سے آتے ہوئے سنی بنک سے مری مال روڈ کی طرف نہ مڑیں اور سیدھے چلتے رہیں تو کلڈنہ پہنچ جائیں گے۔ اسی طرح اگر مری ایکسپریس وے سے آتے ہوئے جھیکا گلی پر آپ مری مال روڈ کی طرف نہ مڑیں اور سیدھے چلتے رہیں تو یہاں سے بھی آپ کلڈنہ ہی پہنچیں گے۔ کلڈنہ ایک اہم سہ راہا ہے۔ یہ اسلام آباد، مظفر آباد اور ایبٹ آباد، تین اطراف سے آنے والی سڑکوں کا سنگم ہے۔ ایوبیہ، نتھیا گلی اور ٹھنڈیانی جانے والے کلڈنہ سے اپنا رخ ایبٹ آباد کی طرف کرلیتے ہیں۔ ایبٹ آباد روڈ پر جیسے جیسے آگے بڑھیں سڑک کی بلندی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اطراف کی پہاڑی ڈھلوانوں پر جنگل بھی گھنا ہوتا جاتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں گہری چھاؤں اور ٹھنڈی ہواؤں کا راج ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں چہار سو سفید برف کی حکمرانی ہوتی ہے۔
کلڈنہ سے آگے دریا گلی، عزیز آباد اور کالی مٹی سے ہوتے ہوئے جب آپ “باڑیاں” پہنچتے ہیں تو یہاں صوبہ پنجاب کا اختتام ہوجاتا ہے اور قصبے کے آخر میں سڑک پر ایستادہ ایک بلند دروازے پر آپ کو صوبہ خیبرپختونخوا میں خوش آمدید کا پیغام ملتا ہے۔ باڑیاں سے آگے خیرا گلی آتی ہے اور پھر آپ ساڑھے نو ہزار فٹ بلند چھانگلہ گلی سے گزرتے ہیں تو دوسری طرف پھر کچھ اترائی پرآجاتے ہیں۔ یہاں آپ کو دونوں اطراف کے گھنے جنگلوں سے نکل کر آئے ہوئے بے شمار بندر سڑک پر ٹہلتے، سیاحوں کی دی گئی کھانے کی چیزوں کے طرف لپکتے، چھلانگیں لگاتے، لڑتے بھڑتے اور چیختے چلاتے نظر آئیں گے۔ یہاں سے تھوڑا ہی آگے بڑھیں تو ایبٹ آباد روڈ سے ایک سڑک سیدھے ہاتھ کو ایوبیہ کی طرف نکلتی نظر آتی ہے۔
ایوبیہ گلیات کا ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔ یہاں ایک طرف تو پہاڑ کی چوٹی پر چیئر لفٹ کی سواری سیاحوں کیلئے کشش رکھتی ہے اور دوسری طرف گھنے جنگل میں ایوبیہ سے ڈونگا گلی جانے والا ساڑھے چار کلومیٹر طویل “پائپ لائن ٹریک” کا ایڈوینچر بھی سیاحوں کیلئے ایک ناقابل فراموش تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ٹریک انگریز دور میں ڈونگا گلی میں بنائے گئے پانی کے ذخیروں سے مری کو فراہمیِ آب کیلئے بچھائی گئی اس قدیم پائپ لائن کا راستہ ہے جو آج بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ پائپ لائن ایک گنجان جنگل سے گزرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے والے ساڑھے چار کلو میٹر طویل راستے پر سیاح ایک ایسی پراسرارجنگل میں واک کرتے ہیں جس میں انہیں چیتے کا سامنا ہونے کا خوف بھی لاحق ہوتا ہے، جا بہ جا بندر بھی خوخیاتے ملتے ہیں اور طرح طرح کے پرندوں کی دل خوش کن آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔
یہ 2004ء کی بات ہے جب میں کراچی سے یہاں آیا ہوا تھا اور اپنے دوست اور پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف نیوز کاسٹر زبیر صدیقی کے ساتھ اسی پائپ لائن ٹریک پر ایوبیہ سے ڈونگا گلی تک پیدل چکر لگا کر واپس ایوبیہ جا رہا تھا۔ ساڑھے چار کلومیٹر جانے اور ساڑھے چار کلومیٹر واپس آنے میں ہماری ٹانگیں شل ہو چکی تھیں لیکن ہم پھر بھی اپنی رفتار کم کیے بغیر تیز تیز ایوبیہ کی طرف بڑھ رہے تھے کیونکہ دن کی روشنی ختم ہو رہی تھی اور رات کا اندھیرا چھاجانے سے پہلے ہی ہم اس گھنے جنگل کی خوفناکی سے نکل کر ایوبیہ کی رونق تک پہنچ جانا چاہتے تھے۔
ابھی ہم ایوبیہ سے کلومیٹر بھر دور ہونگے کہ سرمئی اندھیرے میں ایک شخص دور سے تیز تیز اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ ہم حیران ہوئے کہ اس وقت جب ہر کوئی جلد از جلد اس راستے سے باہر نکل جانا چاہتا ہے اس وقت یہ کون بہادر ہے جو جنگل کے اندر چلا آ رہا ہے؟۔۔۔ ٹریک سوٹ پہنے، سر پر پی کیپ جمائے اورہاتھ میں چھڑی لہراتا وہ ادھیڑ عمر شخص جلد ہی ہمارے قریب سے گزرتا ہوا ہماری طرف دیکھے بغیر آگے جنگل کی طرف چلتا چلا گیا۔ ہم بھی اس کے پاس سے خاموشی سے گزر آئے۔ ابھی ہم چند قدم ہی آگے آئے ہونگے کہ پیچھے سے آوازآئی:
“السلام علیکم ۔۔۔ کیا آپ زبیر صدیقی ہیں؟”
ہم دونوں ٹھٹک کر رک گئے۔
“وعلیکم السلام” زبیر بھائی نے جواب دیا۔ “جی میں زبیر صدیقی ہوں۔”
وہ صاحب واپس آئے۔ قریب آ کر ہم دونوں سے ہاتھ ملایا اور بولے:
” آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ میرا نام جاوید ملک ہے۔ میرا گھر یہاں قریب خانس پور روڈ پر ہے ۔ اگر آج آپ لوگ میرے گھر کافی پینے تشریف لائیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔”
میں نے اور زبیر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
“جی بہت شکریہ۔ لیکن آپ تو یہاں کے مقامی نہیں لگتے۔” میں بولا۔
ملک صاحب نے ایک قہقہہ لگایا۔
” جی آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ میرا تعلق لاہور سے ہے لیکن یہاں خانس پور میں میرا اپنا بنگلہ ہے جس میں ہم ہر سال گرمیاں گزارتے ہیں۔ یہ کوٹھی پاکستان بننے سے بھی پہلے کی ہماری خاندانی ملکیت ہے۔ تشریف لائیں نا۔”
” جی ٹھیک ہے ۔ ہم ابھی تو اپنے ہوٹل جا رہے ہیں۔ وہاں ہمارے اور دوست بیٹھے ہیں۔ ان کو بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔ آپ بھی شاید ابھی واک کرنے جا رہے ہیں۔”
“جی بس ایک گھنٹے بعد آپ لوگ آ سکتے ہیں۔” وہ بولے۔
” تو کیا آپ اس گھنے جنگل میں اس اندھیرے میں اکیلے واک کریں گے؟… آپ کو ڈر نہیں لگے گا؟” میں بولا۔
ملک صاحب نے ایک اونچا قہقہہ لگایا۔
” جی میں تو یہاں اتنی بار آتا رہتا ہوں کہ اب اس علاقے کی ڈراؤنی چیزوں سے بھی جان پہچان ہو گئی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔”
انہوں نے ہمیں اپنے گھر کا پتہ سمجھایا خدا حافظ کہہ کر پائپ لائن ٹریک پر لحظہ بہ لحظہ چھاتے سرمئی اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
ایوبیہ والی روڈ پر مزید آگے کی طرف جائیں تو یہ سڑک ایک گھنے جنگل میں نیچے اترتی چلی جاتی ہے اور ایک ڈیڑھ کلومیٹر آگے جا کر ایک چھوٹی سی خاموش، پرسکون اور پراسرار آبادی “خانس پور” میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسی خانس پور روڈ پر قصبہ شروع ہونے سے پہلے جنگل میں سڑک کے ساتھ ملک صاحب کی قدیم کوٹھی تھی۔
ہم ان سے رخصت ہو کر ہوٹل پہنچے جہاں آصف اور عارف ہم دونوں کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم سب گاڑی میں بیٹھ کر خانس پور کی طرف روانہ ہو گئے۔
زبیر بھائی کی ٹویوٹا ایوینزا تاریک جنگل کی پہاڑی ڈھلوانوں پر لہراتی چلی جا رہی تھی ۔ چند منٹوں میں ہی ہم ملک صاحب کے بنگلے تک پہنچ گئے۔ آہنی کٹہرے میں گھرے وسیع سبز احاطے میں یہ تکونی چھتوں والی ایک قدیم عمارت تھی۔ گاڑی کے رکنے کی آواز سنتے ہی عمارت کے ایک دروازے سے ملک صاحب باہر نکل آئے اور ہمیں اسی دروازے سے عمارت کے اندر لے گئے۔ یہ ان کا ڈرائنگ روم تھا۔
جاوید ملک صاحب بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ کافی پینے کے دوران وہ طرح طرح کے قصے، لطیفے اور منصوبے بیان کرتے رہے۔ ان کے گھر کے سامنے والی ڈھلوانوں پر چیڑ اور دیودار کا گھنا جنگل تھا۔
“یہاں جنگلی جانور آپ کو تنگ نہیں کرتے؟” میں نے ان سے پوچھا۔
“جنگلی جانور تو یہاں کئی قسم کے ہیں۔ بندر، گیدڑ، بھیڑیئے اور چیتے وغیرہ۔ لیکن تنگ ان میں سے صرف بندر کرتے ہیں۔”
“کیا کرتے ہیں؟” میں بولا۔
“کچن میں گھس کر کھانے کی چیزیں اور راشن اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔ باہر بیٹھ کر کچھ کھائیں پیئیں تو کھانے والوں کی پلیٹوں میں سے چیزیں اچک کر لے جاتے ہیں۔ بازار سے سودا لے کر آتے ہوئے رستے میں چیزیں چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے تو ایک بڑا مزے کا واقعہ ہوا۔” وہ ہنستے ہوئے بتانے لگے۔ “میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ایوبیہ سے پیدل گھر آ رہا تھا۔ راستے میں ایک پھل والے سے ایک بڑا سا گرما خریدا جو اس نے ایک تھیلی میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ اس تھیلی کو میں نے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا اور ہم باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ پیدل گھر کی طرف آنے لگے۔ گرما خاصا وزنی تھا جس کی وجہ سی مجھے اپنا جسم دائیں طرف کچھ جھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اپنی باتوں میں مگن ابھی ہم ایوبیہ سے کچھ ہی دور آئے ہوں گے کہ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے گرمے کا وزن کچھ کم ہو گیا ہے ۔۔۔ میں نے کچھ دیر تو اسے اپنا وہم سمجھا لیکن پھر مجھے واقعی محسوس ہوا کہ گرمے کا وزن آدھے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ میں نے چونک کر نیچے دیکھا تو حیرت سے اچھل پڑا اور ساتھ ہی میری ہنسی بھی چھوٹ گئی۔ ایک بندر گرمے کی تھیلی کو اپنی گود میں سمیٹے میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں نے زور سے ہش کیا تو وہ گرما چھوڑ کر بھاگا اور ایک قریبی درخت پر چڑھ کر خوخیانے لگا۔ ہم دونوں دوست قہقہے لگاتے رہے۔ مجھے اس بندر کے یوں گرما اٹھائے اٹھائے میرے ساتھ ساتھ چلنے پر ہنسی بھی آئی اور پیار بھی آیا۔ میں نے گھر آتے ہی ملازم سے کہا کہ اس گرمے کو کاٹو اور اس کے ٹکڑے باہرجنگل کے کنارے پر پھیلا دو ۔ آج اس پھل پر صرف ان بندروں کا حق ہے۔”
ہم سب اس واقعے پر دیر تک ہنستے رہے۔
“ملک صاحب جنگلی جانور تو خیر یہاں ہوتے ہی ہیں۔ یہ بتائیں کہ ان کے علاوہ بھی کسی چیز نے کبھی یہاں آپ کو تنگ کیا؟” میں نے پوچھا۔
ملک صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ پھر کافی کا ایک بڑا گھونٹ لے کر کپ ایک طرف کھسکا دیا اور بولے : “جی ہاں۔”
اب چونکنے کی باری میری تھی۔
“واقعی ملک صاحب؟”
ان کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور چند ثانیے کی خاموشی کے بعد بولے :
” آپ کا خیال بالکل ٹھیک ہے۔ ان گھنے اور ویران جنگلوں میں کبھی کبھی جانوروں کے علاوہ کچھ ایسی مخلوقات بھی نظر آ جاتی ہیں کہ جنھیں ہم جن بھوت یا روح کا ہی نام دے سکتے ہیں۔”
ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سارے انتہائی انہماک سے ملک صاحب کی طرف متوجہ ہو گئے۔
“آپ کے اپنے ساتھ بھی کبھی کوئی واقعہ پیش آیا؟” زبیر بھائی نے پوچھا۔
“جی کچھ واقعات تو پیش آئے ہیں۔” وہ بولے۔
کچھ دیر خاموش رہے اور پھر دوبارہ گویا ہوئے۔
“یہ چند سال پہلے کی بات ہے۔ اس روز دن بھر تو خوب بارش ہوتی رہی تھی لیکن شام سے بارش رکی ہوئی تھی البتہ آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ مغرب سے کافی دیر پہلے ہی اندھیرا چھا چکا تھا اور رات ہوتے ہی ہر طرف گہری تاریکی پھیل گئی تھی۔ میں اندر اسی کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ رات کے دس بج رہے ہوں گے۔ میں نے ٹی وی آف کیا اور باہر کھلی فضا میں سانس لینے کیلئے لان میں نکل آیا۔ لان کے برابر سے گزرنے والی سڑک آہنی جنگلے میں سے ویران نظر آ رہی تھی۔ اچانک مجھے سڑک پر کچھ حرکت سی محسوس ہوئی۔ میں نے جنگلے کے قریب آ کر غور سے سڑک کی طرف دیکھا تو بلب کی ہلکی روشنی میں ایک سیاہ پوش سایہ سا سڑک پر چلتا محسوس ہوا۔ میں نے چونک کر غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ کوئی عورت ہے جو سر سے پیر تک سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے ایک عجیب سی چال میں خراماں خراماں ٹہلتی ہوئی قریب آتی جا رہی ہے۔ میں حیران ہوا کہ رات کے اس پہر اس ویرانی اور گھنے جنگل میں یہ کون عورت ہے اور کہاں جا رہی ہے؟ … جیسے ہی وہ کچھ قریب آئی تو مجھے اس کا سفید چمکتا چہرہ اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں نظر آنے لگیں۔
“السلام علیکم محترمہ۔ آپ کو کہاں جانا ہے؟” مجھ سے رہا نہ گیا۔ لیکن عورت نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نےاپنا چہرہ میری طرف گھمایا، ایک پراسرار مسکراہٹ سے مجھے دیکھا، مگر رکے بغیر سیدھی چلتی چلی گئی۔ ابھی وہ چند قدم ہی آگے گئی ہوگی کہ میرے پیچھے سے میرا کزن، جو کچھ دن سے میرا مہمان تھا، تیزی سے میرے قریب آیا۔ وہ جانے کب میری آہٹ سن کر میرے پیچھے باہر آیا تھا۔ وہ میرے قریب آ کر سرگوشی میں بولا :
“بھائی جان آپ نے دیکھا؟”
“کیا؟” میں بولا۔
” اس عورت کے قدم ۔۔۔”
میں نے چونک کر جاتی ہوئی عورت کے پیروں کی طرف دیکھا لیکن کچھ سمجھ نہیں پایا۔
” ارے دیکھیں اس کے پیر زمین پر نہیں ہوا میں ہیں۔ وہ چل نہیں رہی ہوا میں تیر رہی ہے۔”
کزن کی آواز میں خوف کی لرزش تھی۔ اب میں نے غور سے دیکھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ عورت چل نہیں رہی تھی، تیرتی ہوئی جا رہی تھے۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
عین اسی وقت عورت نے اپنا سر پیچھے کی طرف گھما کر ہم دونوں کی طرف دیکھا اور زور سے ہنسی ۔۔۔ اور ابھی اس کی ہنسی کی آواز فضا میں موجود ہی ہوگی کی اچانک وہ ایک راکٹ کی طرح تیزی سے فضا میں بلند ہوئی اور اونچے اونچے درختوں سے بھی اوپر نکلتی ہوئی سیاہ رات کے تاریک آسمان میں غائب ہو گئی۔ “
ملک صاحب خاموش ہو گئے۔ ہم چاروں ایک سناٹے میں تھے اور ان کے خاموش ہونے کے باوجود انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ ہمارے کپوں میں بچی ہوئی کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔
“آپ کے ساتھ یہاں صرف یہی ایک واقعہ پیش آیا ہے؟” میں نے بولا۔
“نہیں۔۔۔ اس کے علاوہ بھی کئی واقعات ہیں۔۔۔ لیکن وہ پھر کسی اگلی ملاقات میں۔” وہ مسکرائے۔
واپسی پر ایوبیہ آتے ہوئے گاڑی کی ہیڈلائٹس کی روشنی میں ہر موڑ پر ہمیں خدشہ ہوتا کہ کہیں اندھیرے جنگل کے اندر سے کوئی سیاہ پوش عورت نکل کر فضا میں تیرتی ہوئی ہمارے سامنے نہ آ جائے۔