لندن میں یکم جنوری 1649 کی ٹھٹھرتی ہوئی یخ بستہ سہ پہر تھی جب ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں جلاد نے تلوار کے ایک ہی وار سے بادشاہ چارلس اول کا سر تن سے جدا کر دیا ۔ چارلس اوّل کا قصور یہ تھا کہ اس نے آئینِ انگلستان کی توہین اور تضحیک کی تھی۔ پارلیمینٹیرین گروپ نے اسکے خلاف مزاحمت کی اور جنگ و خونریزی کے بعد حکومت پہ قابض ہوگئے۔ عدالت نے چارلس اول کو غداری کا مرتکب ٹھہرایا اور گردن زنی کی سزا سنا دی۔ آئین کی خلاف ورزی نظامِ جمہوریت کے ساتھ سنگین مذاق اور ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے مترادف تصور کیا گیا جس کے دفاع کے لئیے کروم ویل اور جمہوریت پسند عوام نے زبردست جدوجہد کی۔
جب کروم ویل اقتدار پہ قابض ہوا تو اس نے بھی آمرانہ رویہ اختیار کیا اور جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچائی۔ مگر شو مئی قسمت وہ جلد ہی جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ چارلس دوئم بادشاہ بنا تو اس نے کروم ویل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دے دی تاکہ آمرانہ تصورات کو ہمیشہ کے لئیے دفن کر دیا جائے۔ جمہوریت کی بقا کے لئیے جدوجہد اور قربانی کی بدولت ہی انگلستان میں آئین و جمہوریت کا بول بالا ہے۔
۱۲ اکتوبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب ایک آمر نے آئین کو پامال اور جمہوریت کو تاراج کیا اور مسندِ اقتدار پہ مسلط ہو گیا۔ وہ مستئ مئے اقتدار میں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتا رہا جس کو پھاڑ کر پھینکنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئینِ پاکستان وہ قابلِ احترام مسودہ قوانین ہے جس میں لکھا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی یا متصادم کوئی قانون اس آئین کا حصہ نہیں بن سکتا۔ یہی خصوصیت ہم پر لازم کر دیتی ہے کہ اسکا احترام قرآنِ مجید کی طرح کیا جائے تاکہ ریاست عوام کی فلاح کی ضامن ہو۔ کوئی قوم اپنے آئین کی تضحیک و تذلیل کر کے ترقی نہیں کر سکتی۔ یاد رہے انگلستان کے آئین کا بہت زیادہ حصہ سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے مگر اس پہ عمل ایسے کیا جاتا ہے جیسے کوئی آسمانی صحیفہ ہو۔
جنرل ایوب خان یا جنرل پرویز مشرف، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکے دور میں معیشت بہتر ہوئی، اگر دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہا دیتے تو انکے جرائم قابلِ معافی نہیں۔ کیا باریش ڈاکو کو اس وجہ سے معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد میں اذان دیتا ہے۔ آئین شکنی ملک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اسکے نظام کو تہ و بالا کرنے کی مذموم حرکت ہے۔ بندوق کی نوک پر جمہوریت کی آبرو ریزی ہے۔ عہد شکنی ہے۔ عوام دشمنی ہے۔ ایسے جرائم کو کیسے معاف و در گزر کیا جا سکتا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ آمر حادثاتی طور پر جمہوریت کی لاشِ بریدہ پر بھنگڑے ڈالنے نہیں آئے تھے۔ یہ آغاز سے ہی اس تاک میں اور گھات میں تھے کہ کیسے اقتدار پہ قابض ہوں۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ قائدِ اعظم نے ایوب خان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ فوجی افسر فوجی امور سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس پر اسکو سزا بھی دی۔ پرویز مشرف کے بارے میں میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ ۱۲ اکتوبر سے کئی ماہ پہلے سے ہی اس نے اقتدار پہ قابض ہونے کی ٹھان لی تھی اور اس ضمن میں بہت سے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کئیے تھے۔ چند انتہائی مجرمانہ افعال کا میں شاہد ہوں۔
ہم بنیادی طور پر ٹھنڈے مٹھے لوگ ہیں۔ معمولی اور معمول کے کاموں میں جُتّے رہتے ہیں۔ ڈگر اور رٹ سے ادھر ادھر مشکل سے ہی ہوتے ہیں۔ رہی سہی کسر جہالت اور غربت نے نکال دی ہے۔ نام نہاد اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کی تگ و دو میں آئین شکنوں کے آداب بجا لانے کے مناسک کو ہی مناسب گردانتے ہیں۔ جو سر پھرے نظام کی بقا کے لئیے آواز اٹھاتے ہیں وہ اتنے کم اور کمزور ہوتے ہیں کہ انہیں دبانا اور مٹانا مشکل نہیں ہوتا۔ نتیجتاً پرویزی ٹولے خاصی آسانی اور بغیر کسی قابلِ ذکر مزاحمت کے آئین کے درپے رہتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ لندن کی ٹھٹھرتی سردی کی طرح لاہور کی چلچلاتی دھوپ میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں جلاد کو موقع دیا جائے کہ وہ آئین شکن کا سر تن سے جدا کر دے ۔ عوام کو بتایا جائے کہ اس نے آئینِ پاکستان کی توہین اور تضحیک کی تھی۔ پارلیمینٹیرین گروپ اسکے خلاف مزاحمت کرے اور جنگ و خونریزی کے بعد جمہوریت کا بول بالا کر دیں۔ ۔ عدالت اتنی مضبوط ہو کہ آئین شکن کو غداری کا مرتکب ٹھہرا کر گردن زنی کی سزا سنا دے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ جیسے کروم ویل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دے دی گئی تاکہ آمرانہ تصورات کو ہمیشہ کے لئیے دفن کر دیا جائے یہاں بھی یہ رواج قائم ہو جائے تاکہ آئین و جمہوریت کا بول بالا ہو۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم آئین کے لئیے صف آرا ہو جائیں۔ یہ بھی مشکل ہے تو ہم ِ تحریکِ حرمتِ آئین کا آغاز اس ننھے سے قدم سے تو کر سکتے ہیں کہ ۱۲ اکتوبر کو یومِ احترامِ آئین کے طور پر منائیں۔ اس دن مزاحمتی نظم اور مذمتی مضمون ہی لکھ دیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟