حکیم لقمان نے کہا کہ میں نے زندگی میں صرف تین سو سال مختلف دواؤں سے لوگوں کا علاج کیا مگر اس طویل تجربے کے بعد میں نے سیکھا کہ انسان کے لیے سب سے بہترین دوا محبت اور عزت ہے۔
کسی نے پوچھا اگر یہ دوا اثر نہ کرے؟
انہوں نے مسکراہتے ہوئے جواب دیا کہ پھر اس کی مقدار بڑھا دو۔
محبت ایک ایسے جذبے کا نام ہے جو کسی جاندار یا بے جان شے کیلئے دل سے پھوٹتا ہے، محبت بے لوث ہوتی ہے اگر محبت بے لوث نہ ہو پھر اس میں اخلاص نہیں ہوتا۔ لالچ ،ہوس یا مطلب چھپا ہوتا ہے۔ محبت کا انسان کی زندگی سے گہرا تعلق ہے، وہ اپنے رب سے، والدین، رشتہ داروں، کسی دوسرے انسان کی ذات یا اس کی خوبصورتی میں پائی جانے والی کشش بھی محبت ہی قرار دی جاتی ہے۔
جانوروں سے محبت کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، انسان میں رحم کا جذبہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ ظلم کرتا اور وحشیانہ ردعمل بھی دکھاتا ہے۔ جانوروں سے انس رکھنے والے رحم دل اور محبت کرنے والے ہونگے، ان پر ظلم اور ناروا سلوک برتنے والوں سے نرمی کی امید نہیں کی جاسکتی، ایسے لوگ دوسرے انسانوں کے ساتھ بھی زیادہ اچھا برتاو نہیں کرتے۔
خوبصورتی اور قدرت کی رنگینیوں سے محبت ہوجاتی ہے، اس کا بھی دل سے گہرا تعلق ہے، یہ بھی انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اگر اندر ایسے احساسات پیدا نہیں ہوتے پھر کچھ بھی اچھا محسوس نہیں ہوتا، یہی کچھ انسانوں کے معاملے میں بھی ہوجاتا ہے۔ کسی کے لئے دل میں پیار ، ہمدردی، احترام کا جذبہ ایک دوسرے کو قریب لانے ، خیال رکھنے اور باہمی مدد پر آمادہ کرتا ہے۔ معاشرہ ایسے جذبات کے عملی اظہار پر کھڑا ہوتا ہے، دین بھی اس کی تلقین کرتا ہے اور ہر ریاست بھی اپنے شہریوں سے ایسی سوچ اور عمل کی توقع کرتی ہے۔
زندگی میں جہاں ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق بنتا ہے، وہیں محبت پیار اور ہمدردی کے جذبات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ باہمی عزت اور احترام کے نتیجے میں دلوں میں قدر بھی بڑھتی ہے۔ آپس میں اختلاف ، دشمنی اور جنگ وجدل کے نتیجے میں نفرت، بغض، بے اعتباری، عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے، دوریاں اور خلیج مزید وسیع ہوجاتی ہے۔ ذھنی تناو اور نفسیاتی دباو بڑھ جاتا ہے۔ ہر کسی پر شک ہوتاہے، لڑائی جھگڑے، جنگ وجدل کا سلسلہ گھر سے شروع ہوکر باہر گلی، بازار پھر شہر اور دوسرے ملکوں تک چل نکلتا ہے۔ آپس کا بیر اور مخاصمت نہ جانے کہاں لے جاتی ہے، انسان خود کو کسی عجیب سے روگ کا شکار بنالیتا ہے، دلچسپ بات یہ کہ وہ اس میں بظاہر خوش اور مطمئن ہوتا ہے، اس سب کا عادی بن کر زندگی اسی ڈھب میں گزارتا ہے۔ گھر میں میاں بیوی کا اختلاف، باپ بیٹے کی سوچ مختلف ہونا، بازار میں دکاندار سے بھاؤ تاؤ میں بحث، دفتر یا کام کرنے کی جگہ پر کسی بات پر جھگڑنا، کبھی کبھی دوسرا انسان پسند نہیں، اچھا نہیں لگتا، ذھنی ہم آہنگی نہیں محض اتنے پر اسے بُرابھلا کہنا، کسی کا رتبہ اور حیثیت کم دیکھ کر حقارت کا اظہار یا کمتری کا احساس دلانا۔
یہ سب محبت سے دوری اور باہمی عزت واحترام کی کمی کی مثالیں ہیں۔ ایسا نہیں کہ انسان یہ سب کرتا ہے، وہ اپنی زندگی آسان بنانے کے طریقے غلط منتخب کرتا ہے، دوسروں کو پھلانگ کر آگے بڑھنے کا سفر درست نہیں، راستہ سیدھا رکھ کر چلنے سے ہی منزل ملتی ہے۔ اس کے لئے برداشت تحمل رواداری کے اصول کو اپنانا ہے، جس کی خاطر دوسروں سے محبت کرنا انہیں عزت دینا پڑے گی، یہ کوئی زیادہ مشکل نہیں، صرف اپنا مزاج بنانا ہے، اس سے خوشی بھی ملتی ہے اور آگے کی منزل بھی نہایت آسان ہوجاتی ہے۔ ذھنی الجھنیں بتدریج سلجھتی جاتی ہیں۔ پھر شاید زیادہ دوا اور علاج کی ضرورت بھی محسوس ہوتی۔
ہم اگر اپنے اردگرد نگاہ دڑائیں تو دکھائی دے گا جیسے سب کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ، کوئی روگ پالے ہوئے ہیں، درحقیقت زیادہ تر تکلیفیں اپنی خود کی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور الجھنوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، ان کا علاج صرف تھوڑی سے محبت اور عزت ہے۔ یہ کوئی نصیحت نہیں حقیقت ہے۔