’’آپ بیشتر ہنستے مسکراتے رہتے ہیں، یہی خوشی آپ دوسروں میں بھی بانٹتے ہیں، کیسے کر لیتے ہیں یہ آپ؟‘‘۔ جانے والے نے یہ سوال سنا، پھر کہا کہ مسکراہٹ اللہ کا انعام ہے، انسانی مزاج کے لیے اس بہتر ٹانک کوئی اور نہیں۔ ہمارے چہرے مہرے کے تاثرات کیا بدلتے ہیں، خیر و برکت کا نزول ہو جاتا ہے۔ یہ ریاض شاکر تھا جیسے ہی میں نیوز روم کی پارٹیشن میں راہداری کی دوسری جانب رپورٹنگ میں جب بھی دیکھنا، قہقہوں کا شور سنائی دیتا، یہ سب عجیب محسوس ہوتا کہ نیوز روم میں سنجیدگی سے خبروں کی ترتیب سیدھی کرنے میں لگے ہیں، دوسری طرف لوگ ہنسی مذاق میں مصروف ہیں۔
میں نے ریاض شاکر سے ایک بار دریافت کیا کہ کورٹ رپورٹنگ کا حس مزاح سے بھی کوئی تعلق ہے؟ انہیں حیرت ہوئی پوچھا کیا مطلب، میں نے چند دوسرے سنیئر کورٹ رپورٹرز کا حوالہ دیا کہ وہ بھی بڑے لطیفے سناتے اور ہنساتے رہتے ہیں۔ شاکر بولے نہیں یہ محض اتفاق ہوسکتا ہے، ہم لوگ عدالتوں میں بڑی عجیب وغریب قانونی زبان سن اور پڑھ کر آتے ہیں، کئی بار ججوں کے سخت رویئے بھی دیکھتے ہیں، یہ سب اس کیفیت کو زائل کرنے کیلئے بھی کرتے ہیں۔ تاکہ ذہنی دباو سے نکلے رہیں۔
ریاض شاکر ایک اچھے رپورٹر کے ساتھ ساتھ منجھے ہوئے کارٹونسٹ بھی تھے، یہ شوق اپنے والد سے انہیں ورثے میں کہہ لیں ملا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے کسی کا کیری کیچر بناڈالتے، یہاں تک جج صاحبان کے کارٹون بھی۔ جنہیں وہ بڑی خوش دلی سے دیکھتے اور قبول بھی کرلیتے۔
دفتری ماحول کی کبھی کبھار تلخی کو کم کرنے میں شاکر کوئی چٹکلہ چھوڑ دیتے، وہ کہتے کہ بندے کو زیادہ ٹینشن نہیں لینی چاہیئے، انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے، عدالتی خبروں کے لئے بھاگ دوڑ لگی رہتی، کبھی حکومتوں کے خلاف فیصلہ آجاتا کبھی کسی بڑی سیاسی شخصیت کو عدالتوں چکر لگانا پڑتے، اس سب کے دوران کورٹ رپورٹر کی بھاگ دوڑ بڑھ جاتی۔ فیصلوں اور ریمارکس کی باریکیاں کئی بار گلے پڑ جاتیں، ان کی وضاحتیں کبھی آفس اور کبھی کورٹ میں دینا پڑجاتیں۔ یہ کوئی کم ذہنی دباو والا کام نہیں رہا۔
ریاض شاکر اس سب کے باوجود مسکراہٹیں بکھیرنا نہ بھولتے، وہ شاعری بھی کرتے، جس میں غم روزگار کا تذکرہ اور زندگی کی تلخیوں کا احاطہ بھی کرتے، لیکن سادہ باتوں کا ہیمیشہ سادہ لفظوں میں مفہوم بیان کردیتے۔ کئی برس بیت گئے، ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا، لیکن وہ باتیں اور یادیں ذہن کے کونوں میں پڑی رہیں، جنہیں کبھی کبھار کسی بہانے نکال کر تھوڑا مسکرالیتے۔
لیکن آج فیس بک کھولی سامنے بدر منیر چودھری کی پوسٹ پڑھی فوری سمجھ گیا، اب ریاض شاکر نے لبیک کہہ دیا، اس کی باری آگئی، اب شاکر کی باتیں ہوں گی، اس کا ذکر ہوگا۔ پھر وہ مسکراہٹیں، ہنسی، قہقہے اور سب گپ شپ مگر یہ سب کرنے والا، اس کے بارے میں کہتے ہیں، اب نہیں ہوگا۔ بیمار تھا، اتنا بھی نہیں کہ فوری رخصت کی اطلاع آجائے۔
بس وقت آگیا، اور ریاض شاکر بھی اپنی مسکراہٹوں اور یادوں کے دریچے کھول کر چلا گیا۔