ابا کی عمر 86 برس ہے۔ کورونا کے باعث گھر میں بیٹھ کر سماجی دوری اور قرنطینہ کا فلسفہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت کا فیصلہ آیا کہ تعلیمی عمل فی الحال تعطل کا شکار ہی رہے گا، بچوں کو بغیر امتحان دیئے اگلی کلاسز میں پروموٹ کردیا جائیگا۔ میں نے انہیں اور خاص کر اپنے بچوں کو یاد دلایا کہ ہم نے بھی بچپن میں جب بھٹو کے خلاف اپوزیشن نے تحریک چلائی جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے ہٹا کر جنرل ضیاء نے کنٹرول سنبھالا، اس سارے عمل کے دوران ملک کے حالات بگڑے رہے، مارشل لاء کے بعد کرفیو لگادیا گیا۔ اس سب میں تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں۔ معاملات کچھ قابو میں آئے تو فیصلہ کیا گیا کہ بچوں کو پاس کرکے اگلی جماعتوں میں بھیج دیا جائے۔ ہماری جیسے بیٹھے بٹھائے لاٹری لگ گئی۔
بچوں نے یہ سب سنا تو بولے آپ کا دور اور تھا، اب پڑھائی مشکل اور پیچیدہ ہے اس میں تعطل افورڈ نہیں کیا جاسکتا، اس طرح کی پروموشن کا فائدہ نہیں نقصان ہے۔
ابا بولے مجھے موجودہ حالات غیرمعمولی ہی دکھائی دیتے ہیں، میں تم لوگوں کو پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ 47 کے فسادات مارچ میں شروع ہوگئے، اس وقت بھی سنا تھا کہ لاہور میں چراغاں کا میلہ تک نہیں ہوا، ہم لوگ امرتسر میں رہتے تھے، میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، مئی میں جاکر ہمارے مختصر انگریزی اور ریاضی کا ٹیسٹ لے کر نویں جماعت میں کردیا، مگر ہماری چھٹیاں ہی رہیں، اسی دوران تقسیم کا عمل شروع ہوگیا، ہم لوگ فسادات کے دوران لٹے پٹے لاہور پہنچ گئے۔ یہاں آکر بھی ستمبر کے اختتام میں ہمیں سکول میں داخلہ ملا،
ابا بولے، یہ سب بتانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ جب حالات بہت خراب ہوں یا جنگی صورتحال ہو، ایسے میں معمول کے کام رک جاتے ہیں۔ اس میں وقفہ آجاتا ہے۔ قوموں کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے۔
بچوں نے دادا سے پوچھا آپ کو کیا پریشانی تھی،
ابا بولے، ہمارے گھر میں تین شہادتیں ہوچکی تھیں، میری والدہ تمہاری دادی کو شدید زخمی حالت میں لاشوں میں سے اٹھاکر لائے تھے۔ بچوں کی شہادت اور جسم پر لگے زخموں کو بھرتے وقت لگا۔ ہم بھی چھوٹے تھے، بے سروسامانی میں اپنا گھربار چھوڑ کر آئے تھے۔ یہاں جیسا بھی ٹھکانہ ملا صبر کرکے بیٹھ گئے۔ ہمارے امرتسر کے سکول اور کالج کو یہاں کے سکول کالج میں انہیں ناموں کے ساتھ منتقل کردیا۔ ضلع کچہری کے باہر اسلامیہ ہائی سکول خزانہ گیٹ دراصل وہیں کے سکول کا نام تھا، یہاں اس کا پرانا نام سناتن دھرم سکول جبکہ سناتن دھرم کالج کو ایم اے او کالج کے نام سے تبدیل کردیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ امرتسر میں ہمارے سکول میں فوج کے ڈیرے تھے اور ہم لوگ گھروں میں بیٹھے تھے۔ کئی مہینوں بعد لاہور آکر تعلیمی سلسلہ شروع ہوا۔
جب پریشانی ہو، پھر صورتحال کی نزاکت جانتے کچھ کام روکنا پڑجاتے ہیں، زندگی چلتی رہتی ہے، مگر کچھ دیر کے لیے اس کے معمولات کو روکنا پڑتا ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جنگیں، سیلاب، زلزلے یا قدرتی آفات اور وباوں کے دوران بہت سے خراب حالات آتے ہیں۔ کاروبار تک بند ہوجاتے ہیں۔
بیٹا۔ مجھے تو ویسا ہی دکھائی دے رہا، اگرچہ اس مہلک مرض نے لوگوں کو اپنے خوف کے گھیرے میں لیا ہوا، ہم جیسے بوڑھے بھی ڈرے سہمے گھروں میں دبک کر بیٹھے ہیں۔ اس نازک گھڑی میں ہر قسم کی احتیاط ہی درست قدم ہے۔ جیسی صورتحال دنیا بھر میں بتائی اور دکھائی جارہی ہے، اس میں دانشمندی محتاط رہنے میں ہی ہے۔
حکومت کے فیصلے درست ہیں یا غلط، یہ بحث بھی شاید اتنی اہم نہیں جتنا ہر فرد کو دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے کی پوزیشن میں ہے جس کے نتیجے میں اپنی ذات یا خاندان کو خطرے میں ڈال دے۔
بچوں نے پوچھا تب بھی رمضان تھا، آپ نے روزے رکھے ہوں گے۔
ابا مسکرائے، ہم بھی تمہاری طرح بچے تھے سچی بات ہے، تم لوگ ہمارے مقابلے میں زیادہ حوصلے اور ہمت والے ہو، ہم ڈرے رہتے روزے رکھنے کی ہمت نہیں تھی، بڑوں نے مذہبی فریضہ ضرور انجام دیا۔ 14 اگست کو بلوائیوں نے ہمارے گھر کو آگ لگادی سب لوگ چھت پر جاکر چھپ گئے۔وہیں بڑوں نے پانی اور مختصر سامان سےافطاری کی۔
بچوں کے ذہن میں ایک سوال کئی دنوں سے چل رہا تھا، بولے ابا جی بتائیں کہ پاکستان بنتے ہی فوری عید تھی کیا آپ نے عید کی نماز پڑھی اور عید منائی تھی۔
ابا ماضی میں چلے گئے اور کچھ توقف کے بعد ایک لمبی سانس بھری اور بولے۔ بیٹا تمہیں بتایا تو ہے کہ ہمارا خاندان ہر قسم کا جانی مالی نقصان دیکھ چکا تھا۔ اور اس سب کے دوران اچانک عید کا دن بھی آگیا، ابھی ہم لوگ لاہور میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ رہے تھے بڑوں میں سے شاید کسی ایک نے فریضے کے طور پر نماز ادا کی ہو، عید ہمارے گھر میں اگلے چھ سال تک نہیں منائی گئی۔
یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں نم آلود تھیں۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ بڑے بھائی، بھاوج اور چھوٹی بہن شہید ہوئی تھی جن کا غم نہیں بھلا پائے تھے۔
مجھے بتاو آج جن لوگوں کے عزیز مہلک وبائی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے یا جو ہسپتالوں میں قرنطینہ کا عمل کررہے ہیں، جن کا کام کاج اور روزگار کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔کیا وہ عید منائیں گے؟
بیٹا میری دعا ہے حالات بہتری کی جانب چلے جائیں، رب ہمیں اس بڑی آزمائش سے جتنی جلدی ہوسکے نکالے، اس کے خوف میں ڈرے سہمے لوگ کیا خوشی منائیں گے۔ خوشی اسی وقت ہوتی ہے جب انسان اندر سے مطمئن ہوتا ہے، ابھی لوگ پریشان حال ہیں، کاروبار بند ہے، مزدور تک زندگی کی دوڑ میں خود کو جیسے بہت پیچھے محسوس کررہے ہیں۔
آپ لوگ محض اگلی کلاسز میں جانے کے فیصلے پر غصہ کئے ہوئے ہو، بیٹا دعا کرو، وہ ذات کریم ہم سب کو اس منجدھار سے نکالے۔ مجھے نہیں لگتا ابھی فوری زندگی کے معمولات بحال ہوں۔
وہ ذات ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمیں دوسروں تک آسانیاں بانٹنے کا شرف اور توفیق دے۔