بہت ہی پیارے دوست سینئر صحافی شاہد شاہ نے ایک دن فون کیا میں والد صاحب کے ساتھ پارک میں دھوپ لینے اور واک کرنے گیا تھا۔ شاہ جی بولے بیٹے کی شادی کب کررہے ہو میں نے بلاتکلف کہہ ڈالا جب کہتے ہیں کردیں گے۔ بولے میں اپنے بیٹے کی شادی کررہا ہوں مجھے بڑی خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور باوجود اس کے میرے بڑے بیٹے کی بھی منگنی ہوچکی ہے ۔ ہمارے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور اب ہم عمر کے اس حصے میں جب اولاد کے نئے سفر کا سوچتے ہیں جس میں وہ اپنے خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں۔ فیملی میں ہم سے بڑے کزنز اور بڑے بھائیوں کی اولاد اب بچوں والی ہوچکی جس نسبت سے ہم دادا نانا بن گئے لیکن یہاں بات اپنی ذات تک آن پہنچی ۔
شاہ صاحب کی اطلاع پر جیسے ماضی میں چلا گیا جب میری شادی میں وہ بڑے بھرپور طریقے سے شریک ہوئے اور پھر ہم سب ان کی شادی میں وزیرآباد سے بہاولنگر گئے۔ بتانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ شادیوں میں یہ سفر خاموشی سے نہیں ہوتے تھے مکمل اہتمام سے سارے عمل کو انجوائے کیا جاتا تھا۔ وہ شادیاں کئی برس بیت جانے کے باوجود ذہنوں میں نقش ہیں۔ ایک ایک واقعہ مکمل قصے کے طور پر یاد ہے۔
آنے والے دنوں میں ہم دوستوں کے بچے ہوئے گھروں میں آنا جانا اسی طرح مل کر تفریح کے پروگرام ترتیب دینا بچوں کی آپس کی کھیل کود عورتوں کے ملکر دنیا اور خاندان کے مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال اور سب سے بڑھ کر دوستوں کی باہمی گپ شپ، کل ملا کر سب ہی اس میل ملاپ سے لطف اٹھاتے۔
بچے بڑے ہوتے گئے۔ خاندانی مصروفیات بڑھیں کوئی دوست شہر چھوڑ دوسرے مقام پر منتقل ہوا کسی کے مسائل بڑھے میل جول کا سلسلہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے باعث تعطل کا شکار ہوگیا۔ یہی بچے اپنے نئے دوستوں اور رابطوں میں مصروف ہوگئے ہم دوستوں کا رابطہ فون تک محدود ہوگیا کبھی کبھار مل لیتے ۔اب یادیں تازہ کرنے کی بھی فرصت نہیں صرف فون پر خیریت دریافت کرتے کسی ایک کی پریشانی یا دکھ غم میں اس کی ڈھارس بندھا دیتے ہیں۔ شاہ جی زیادہ تر شہر بدر ہوتے ہیں اگرچہ دوست احباب کا حلقہ وسیع ہے جس سے موقع ملتا ملاقات کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔
اعزاز کی شادی کا دعوت نامہ بھی موصول کرلیا۔ گھر میں بیگم اور بچوں کو بتایا سب کو خوشی ہوئی۔ بیگم نے کہا ماشاءاللہ ہمارے بچے اب اس مقام پر آگئے جب ان کی خوشیاں دیکھیں گے۔ وقت گزرنے کا جیسے پتہ ہی نہ چلا ہو۔ حالانکہ اس عرصے میں کئی بحرانی حالات صدمات دیکھنے میں آئے۔ مگر آج اکرم اور پرویز ساہی صاحب کے ساتھ اعزاز کی شادی میں شرکت کیلئے جاتے ماضی کے بے شمار واقعات بڑی تیزی سے ذہن کے پردے پر آئے۔ شادیوں میں کیسے کیسے مزے کئے وہ سب دہرائے۔ شاہ صاحب بار بار آکر مہمانوں سے مل کر اپنی محبت کے اشارے کرتے اور چہرے سے خوشی عیاں تھی۔ ان کی اہلیہ بھی بیٹے کی دلہن لانے پر نہال تھیں۔ دوست کی خوشی میں سب برابر کے شریک تھے۔
اس بات کا احساس ہوگیا کہ زندگی چاہے تیزی سے گزرے اصل حقیقت ایک دوسرے کا ساتھ ہے وہ دکھ کے لمحات ہوں یا خوشی کے۔ ایک دوسرے سے میل ملاقات انسان کو بے حد تقویت بخشتی ہے۔