“ضمنی انتخابات کے نتائج دونوں جانب یعنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ کے لیے سبق چھوڑ گئے لیکن ہمیں اس بار کوشش کرکے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ وگرنہ دیر پہلے ہی ہوچکی ہے”۔
عمران خان سیاست کا ہر پتہ استعمال کرتا ہے جسے پہلے سے میدان میں موجود کھلاڑی کرتے رہے ہیں۔
گاڈز کی تبدیلی کی تقریب کی طرح عمران خان نے ہر کام شدت سے کیا، چاہے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ ہو مخالف کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا۔ مذہبی کارڈ کا بہت اچھے انداز سے استعمال یا پھر نوجوان نسل کے تقاضوں کو سمجھنا۔ یعنی کوئی حربہ یہاں تک کے صبر وتحمل کے ساتھ غصے کا بھی تڑکا خوب لگایا۔۔وہ بہت ذہانت سے چل رہا ہے۔ لیکن مارا جائے گا کیونکہ بھٹو بے نظیر ۔نواز انہیں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا زعم لے مارا۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
عوام کسی منظم فوج کا مقابلہ ایک منظم اور سمجھدار سیاسی قیادت کے بغیر نہیں کرپاتے۔ لوگوں کو بے لوث مطلب بے غرض لیڈر چاہیے جوکہ تھوڑا سا مشکل ہے اگرچہ عمران کے مالی مسائل اتنے گھمبیر نہیں لیکن وہ بھی انسان ہے کچھ نہ کچھ کئے بغیر گزارا نہیں۔ لوگوں کی اکثریت کے لئے وہ آخری امید کی کرن بنا۔اس کی حکمرانی نے لوگوں کو مایوسی کی کھائی میں گرادیا زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر عمران کو کم ازکم ایک محفوظ کنارے کا راستہ دکھایا۔ اقتدار کی لالچ بھی عمران میں ویسے ہی آگئی جیسے پہلوں میں بدرجہ موجود ہے۔ وہ کہتا ہے دو خاندانوں نے باریاں بانٹیں ہیں اب ایک ضدی بچے کی مانند اپنی تیسری باری لگوالی ہے۔ اور اس کا نام بھی لکھ لیا گیا ہے۔
عمران خان جیسا بھی ہے کسی کو پسند ہو یا قابل نفرت ہو۔ اگر زندہ رہتا ہے۔ تو سیاست اور اقتدار کے کھیل میں اب اپنی باری کا انتظار کرے گا بلکہ چھین کر بھی میدان میں اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بات بالکل فضول ہے کہ اس کا ووٹ بنک نہیں اور ریاستی ادارے اسے لاتے ہیں۔ ضمنی انتخابات نے یہ تاثر ختم کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان کی تقریر کا تجزیہ: چیف الیکشن کمشنر سب سے بڑا ہدف کیوں ہیں؟
عمران خان کو کس قوت کی پشت پناہی حاصل ہے؟
مونس الٰہی کو آنے والی وہ کال کس کی تھی؟
اب مسلم لیگ مہنگائی، مشکل فیصلوں اور لوٹوں میں شکست کی وجہ ڈھونڈے یا کہیں اور۔۔ اس سے زیادہ پنجاب کی سیاست کون جانتا ہے۔ اپنی ہوم گراونڈ میں اوندھے بل کرکے ہارنے کی ذلت کچھ دن تک ذہنوں میں ہلچل مچائے گی۔ لیکن تحمل اور بردباری کا تقاضہ ہے کہ میدان میں دوبارہ تیاری سے اترے۔ تیاری کا مطلب غصہ اور گالم گلوچ نہیں حکمت عملی اور عوام کی نبض پر درست ہاتھ رکھنا ہے۔
عمران خان کسی بھی حریف کے لئے ترنوالہ نہیں اسے چاہے نشئی کہیں، چاہے کچھ بھی۔ لوگ سب جانتے ہیں کس کس کا ماضی اور حال کیا ہے۔ کیچڑ اچھالنے سے دوسرے کے ووٹ کم یا اپنے بڑھانے کا سیاسی کھیل سماج میں برے نتائج ہی چھوڑے گا۔ کسی ایک فریق کو بردباری دکھانا ہوگی وہ عمران ہو یا لیگی قیادت ورنہ گندگی کا بازار لوگوں کی اجتماعی بیزاری میں تبدیل ہو جائے گا۔
ضمنی انتخابات کے نتائج دونوں جانب یعنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ کے لیے سبق چھوڑ گئے لیکن ہمیں اس بار کوشش کرکے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ وگرنہ دیر پہلے ہی ہوچکی ہے۔