ماضی کےحوالےتلاش کرنےہوں تو میں کلیم کی سہولت استعمال کرتاہوں۔ جیسےان دنوں گوگل پر سرچ مارکر کچھ بھی ڈھونڈ لیاجاتاہے۔ میری ہر خوشی اورغم میں وہ موجود رہا،کبھی تنہا نہ چھوڑنے دیا۔ میرا لنگوٹیا جس نے نہ کبھی اس رشتے کو ٹوٹنے دیا اور نہ ہی کمزور ہونے دیا۔ یہ تحریر اسی کی یاد میں لکھی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
میں نے زندگی میں ایسے انسان بہت کم دیکھے جو دوسروں کی ذاتی خامیوں پر معترض نہ ہوں. یا کسی میں کوئی عیب نہ نکالتے ہوں. وہ بھی کچھ ایسا ہی ہے. دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ تن گوش و تیار رہتا. وہ پڑھائی میں کوئی زیادہ تیز وطرار تو نہ تھا لیکن ذہانت کئی سے اچھی تھی۔ اس میں زور کلام بھی ایسا تھا اور ہے کہ ملنے والا بے جا کہہ اٹھتا کہ بزرگوں نے کلیم نام کا انتخاب غلط نہیں کیا. میری اس سے رفاقت کو چار دھائیوں سے زائد عرصہ گزرگیا. بچپن کی دوستی کہتے ہیں، ساری زندگی انسان کا تعاقب کرتی ہے. وہ چاہے ذھن کے پردوں تک ہی محدود ہوکر کیوں نہ رہ جائے۔
نئی کلاس میں پہلا دن
1980 کا موسم سرما رخصت ہو رہا تھا. نئی کلاس میں پہلا دن تھا. اگرچہ زیادہ تر پچھلی جماعت کے ساتھی تھے. لیکن بیٹھنے کی ترتیب بدل رہی تھی. تین طالبعلموں کو ایک بینچ پر بیٹھناتھا. کلیم بھی آگیا. میری اور اس کی صحت کا تضاد پوری کلاس کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ یہ ابتداء تھی اور ہم دوستی کی پٹڑی پر چڑھ گئے اور پھر گاڑی بڑے سبک خرام انداز میں آگے بڑھنے لگی۔
یہ بھی پڑھئے:
سولہ دسمبر: اسلامی تاریخ و ثقافت کے ماہر عزیز احمد کا آج یوم وفات ہے
سولہ دسمبر: جب جنرل نیازی نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے
آفتاب اقبال شماری اور پکوڑے کا نظریہ انفرادیت
ہر مسئلے کا حل
دوستوں کے ساتھ ساتھ کسی بھی نئے ملنے والے کا ہمدرد پہلی بار دیکھا۔ بظاہر پڑھائی میں ہماری طرح اوسط درجے کا سٹوڈنٹ مگر دماغ اس قدر تیز کے ہرمسئلے کاحل فوری سامنے رکھ دیتا۔ اس کے اندر ایک انجینئر، ڈاکٹر اورچھوٹا سا سائنسدان اب بھی ویسے کا ویساہے۔ وہ دین کی باتوں میں بھی کچھ نہ کچھ بتا دیتا ہے۔ شاید اس آل راؤنڈ طبیعت کے باعث کسی ایک کام میں مہارت نہ حاصل کرسکا۔ اور یہ کوئی خامی نہیں۔ اچھا ہی ہے کیونکہ ماہر لوگ بھی اکثر مات کھا جاتے اور کئی مواقع پر لاجواب دکھائی دیتےہیں۔
بھلے کی بات
شخصیت کا اہم پہلو اچھی یادداشت ہے، کلیم کو چھوٹےچھوٹے اور بظاہر غیر اہم واقعات بھی کئی سال گزرنے کے بعد یاد ہیں بلکہ ان کی تفصیلات بھی ازبر ہیں۔ کس دوست نےکب کیا بات کی تھی، اس وقت کیا لہجہ تھا اور پھر ردعمل کیا آیا تھا۔
ایک بار کسی دوست کو بڑے موڈ میں کوئی کام کہا اور ساتھ میں منت سماجت کچھ اس انداز میں کی۔ یار! تمھیں زندگی میں دوسری بار پہلا کام کہا ہے۔ وہ بڑے غصے میں تھا۔ محض اتنا سننا تھا کہ وہ مسکرا اٹھا۔ چٹکلے پھینکنا اور لطیفوں کے ساتھ واقعات اس کی پٹاری میں موجود رہتے ہیں۔ مشورہ ویسے بھی ہم لوگ تیار رکھتےہیں۔ وہ کلیم کا مسئلہ نہیں آپ مانگیں یا نہ مانگیں، اس نے بھلے کی بات بتا دینی ہے۔
ہر کام خود کرنے کی عادت یا کہہ لیں،سرشت میں جیسے شامل ہے۔ گاڑی، بائیک، گھر میں الیکٹرانکس کی چیزوں سے لیکر کچھ بھی ٹھیک کرنےباغبانی، قربانی کا جانور ذبح کرنا بھی اس کےبائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اتنے زیادہ جسمانی کام کرنے والے کو مزید کسی کھیل کھیلنے کی ضرورت یا خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ سکول دور میں صرف ٹیبل ٹینس کھیلی۔ اس کے علاوہ شاید لڈو ہی کھیلی ہوگی۔
صرف اور صرف خیر خواہی
میرے ناقص اندازے کےمطابق میرا یہ لنگوٹیا یعنی کلیم آج پچاس سال کا ہوگیا۔ عورتوں کی طرح وہ بھی ایک دو سال بچانےیا چھپانے کے چکر میں ہولیکن کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ اسےصحت تندرستی دے۔ اور مزید ڈھیروں سال زندگی کےشب و روزدیکھنے نصیب کرے۔
میری یادداشت کافی کمزورہے۔ حتیٰ کہ اس عمر میں کئی لوگوں اور مقامات کے نام تک ذھن میں آگے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ ماضی کے حوالے تلاش کرنے ہوں تو میں کلیم کی سہولت استعمال کرتا ہوں۔ ایسے ہی جیسے ان دنوں گوگل پر سرچ مار کر کچھ بھی ڈھونڈلیاجاتاہے۔ اس لنگوٹیا یار کلیم نے مجھےہمیشہ مدد دی حتیٰ کہ کبھی دل کیا کہ گزرے وقت کو دوبارہ یاد کیا جائے تو میں یہی سہارا استعمال کرتا ہوں۔ کچھ حوالے ایسے جن کے بارے میں اسے مختصر جانکاری ہوتی ان پر بھی بڑی تفصیل سے گفتگو کرلیتا ہے۔ کلیم نے زندگی میں گلہ بہت کم کیا ایسا نہیں کسی سے شکوہ نہیں۔ معمول کی شکایتیں ہوں گی لیکن دوسرے کی خیر خواہی ذات کا حصہ رہی۔
بابا
میری نگاہ میں وہ کسی بابےسےکم نہیں۔ جنہیں رب تعالیٰ کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپ کربھیجا ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسروں کا کوئی بھلا کرنا ہے۔ کسی کی راہ چلتے انگلی پکڑنی ہے۔
دوست اور حلقہ احباب اس کی شخصیت سے نہ صرف متاثرہے بلکہ اس کی خصوصیات کا برملا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ ہردلعزیزحیثیت اختیار کرگیا۔ کبھی کبھی رشک بھی ہوتا کہ دوستوں میں ایسابھی ہونا چاہیے۔ جس دوسرے کی فکر ہو، اس کےلیے پریشان ہو، کوئی آسانیاں ڈھونڈتا ہو۔
میری ہر خوشی اور غم میں وہ موجود رہا۔ کبھی تنہا نہ چھوڑنے دیا۔ حوصلہ بڑھانا ہو یا اشک شوئی کرنا، وہ بے محسوس کرائے یہ سب کرجاتا ہے۔
آج میں 40 سال پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو میرے تعلق اور دوستوں کے حلقے میں کئی لوگ آئے ہوں گے۔ لیکن ان میں رابطے کا دوام شاید چند ایک ہی دے پائے۔ ایک میرا لنگوٹیا دوست اور دوسرا کلیم۔ دوستی کےبندھن کو قائم رکھنے میں بھی کلیم کا حسن طلب رہا۔ جس نے نہ کبھی اس رشتے کو ٹوٹنے دیا اور نہ ہی کمزور ہونے دیا۔ فون کرکے یا اچانک پہنچ کر حیران کردیتا۔ لنگوٹیا ہونے کا حق ادا کر دیا۔
یہی کہوں گا، دوست انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہوتاہے اس کےاپنوں کےدرمیان ایک اہم مقام رکھتاہے ۔