شرارت اور مزے کی ایسی چوریاں شاید آج بھی ہوتی ہوں۔ لیکن جان بوجھ کر فائدے اور دوسرے کے نقصان کا باعث چوریاں قابل معافی نہیں ہوتیں چاہے ان کے لئے کوئی بھی دلیل اور جواز تلاش کرلیا جائے۔ نعمان یاور اس قسم کی کچھ چوریوں کی دلچسپ کہانیاں بیان کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت خواہش لالچ انسان کی سوچ پر جیسے سوار رہتی ہیں۔ ان کے بوجھ تلے دبے لوگوں کی نگاہیں ہمیشہ دوسرے کی من پسند اشیاء پر لگی رہتی ہیں۔ وہ شے کسی طور حاصل کرنے کا جتن اکثر بے خوف اور کہہ لیں بندے کی شرم بھی مار لیتا ہے۔
زندگی میں جانے انجانے یہ حرکت انسان سے سرزد ہوجاتی ہے ۔ضروری نہیں ہر کوئی فطری طور پر اایسا فعل کرتا ہو لیکن لالچ غرض اور کسی حد تک حرص کا مزاج میں پایا جانا کوئی عجیب بات نہیں۔
چوری کی کچھ دلچسپ حرکتیں سرزد ہوئیں کہ یاد کرکے شاید ندامت شرمندگی سے زیادہ حیرت ہوئی بلکہ الگ سے تاثرات پیدا ہوئے۔ زمانہ طالبعلمی میں فیض احمد فیض کی شاعری انقلاب کے خواہشمندوں کا ایک نشے جیسا سہارا ہوتی تھی۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو سال بعد فروری میں انہیں یاد کے بہانے سب چاہنے والے لارنس گارڈن کی پہاڑی اور الحمرا ہال میں اکٹھے ہوجاتے۔ یہاں کتابوں کے سٹال لگتے جہاں زیادہ تر مزاج کے مطابق یعنی بائیں بازو کے نظریات پر مبنی مواد دستاب ہوتا۔
کچھ منچلے یہاں بھی مہارت دکھا جاتے اور ایک آدھ کتاب غائب کرنا کوئی بڑی بہادری تصور نہ ہوتی۔
یہ بھی پڑھئے:
طارق مرزا کا سفرنامہ ملکوں ملکوں نکلا چاند شائع ہوگیا
فرعون عہد کی لوک کہانی، جھوٹ اور سچ
الحمرا ہال میں سیمینار کے بعد موسیقی کی شاندار محفل سجائی گئی۔ اقبال بانو نے خوبصورت انداز میں آواز کا جادو جگا کر فیض صاحب کو خراج پیش کیا۔ سٹیج کے پس منظر میں ان کا آٹھ دس فٹ لمبا سکیچ دیوار کے ساتھ لگا تھا۔ ہمارے ایک سنیئر دوست بار بار اس کی تعریف کررہے تھے۔ سبھی کو پوٹریٹ اچھا لگا۔ تقریب میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔
اختتام پر ایک دوسرے سے روایتی گپ شپ کے بعد انتظامیہ سمیت سب روانہ ہوگئے۔ ایک دو روز کے وقفے کے بعد میں اسی سنیئر کے گھر گیا ڈرائنگ روم داخل ہوئے تو دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔ فیض صاحب وہاں پورے جاہ وجلال کے ساتھ دیوار سے لگے ہاتھ میں سگریٹ تھامے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ مطلب یہ کہ وہ پوٹریٹ اب یہاں آگیا تھا۔ استفسار پر جناب نے بتایا اچھا لگا ایک ساتھی سے خواہش کا اظہار کیا۔ اسے ساتھ ملایا وہاں سے خاموشی سے اٹھاکر باہر لائے۔ بائیک پر بیٹھے اسے سر پر رکھا اور یہاں لے آئے۔
ایک بار شدید گرمیوں میں وہ ایک دوست کے ساتھ سکنجبین والے کے پاس رکے ساتھی نے گلاس کا ریٹ پوچھا۔ انہوں نے کہا آپ زیادہ مانگ رہے ہیں۔ موصوف بولے چھوڑو ہم نے نہیں پینی۔ بائیک آگے بڑھائی کچھ فاصلے پر جاکر رکے اور اپنے پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو ڈھیر سارے لیموں تھے۔ کہتے، بڑا سیانا بن رہا تھا اب ہم جتنی چاہیں سکنجبین پی سکتے ہیں۔
کچھ لوگ دوسروں کو کھلانے پلانے خاص کر سگریٹ پیش کرنے میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کوئی مہمان نہ آئے بلکہ کسی طرح ٹل جائے۔ ہم ایسے ہی مزاج کے ایک وکیل کے آفس اپنے اسی دوست کے ہمراہ گئے۔ وہاں بیٹھے باتوں کے دوران انہوں نے سگریٹ کا پیکٹ ٹیبل سے اٹھایا۔ ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور پیکٹ کو میز کے نیچے پھینک دیا۔ یعنی وہ خالی ہوچکا تھا۔
ہم نے کچھ دیر باتوں کے بعد ان سے رخصت کی اجازت طلب کی جسے انہوں بخوشی مرحمت فرمایا۔ آفس سے باہر آئے دوست نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر مجھے پیش کش کرتے ہوئے کہا اس کنجوس کو توفیق نہیں ہوئی۔ تم میری طرف سے لو۔ میرے علم میں تھا ہم دونوں کے پاس ایک بھی سگریٹ نہیں تھا بلکہ خیال تھا کہ وہیں پینے کے لئے مل جائے گا۔ دوست بولے بڑا ہوشیار ہے یہ وکیل۔ ہمیں دیکھ کر پیکٹ پھینک دیا مجھے آواز سے لگا خالی نہیں ہے۔ میں نے بغیر محسوس کرائے پاؤں سے اپنی طرف کرلیا اور نظریں بچاکر اٹھالیا۔ دیکھو اٹھارہ سگریٹ ہیں۔ ہم سے دو بچانے کے چکر میں باقی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
والد صاحب کے امرتسر میں ایک دوست تھے۔ وہ قیام پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری کا بڑا نام بن گئے۔ ان کے بچپن میں واقعہ سنایا۔ کہتے نہ جانے اسے کیا سوجھی کسی کا سائیکل چوری کرکے ایک سائیکل والے کو بیچ دیا۔ اسے لوگ کسی مناسبت سے پری پیکر کہتے تھے۔ وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ چوری مال برآمد ہوا۔ اس نے بارہ سالہ بچے کا نام دے دیا۔ والد پریشان ہوگئے۔ ایک جہاندیدہ محلہ دار سے مدد مانگی۔ انہوں نے بچے کو سمجھایا تم نے اس دکاندار کو پہچاننے سے انکار کردینا یے۔ ایسے ہی ہوا۔ وہ بار بار بچے سے کہے کہ میں ہوں پری پیکر ،مجھے جانتے نہیں؟ لیکن دوست پکا رہا۔ یوں پولیس سے جان چھوٹ گئی۔
شرارت اور مزے کی ایسی چوریاں شاید آج بھی ہوتی ہوں۔ لیکن جان بوجھ کر فائدے اور دوسرے کے نقصان کا باعث چوریاں قابل معافی نہیں ہوتیں۔ چاہے ان کے لئے کوئی بھی دلیل اور جواز تلاش کرلیا جائے۔