سات اکتوبر 1958 منگل کاروز پاکستان کے قیام کو ابھی گیارہ برس ہوئے، صدر سکندرمرزا نے ملک کاآئین معطل کرتے ہوئے مارشل لاء لگادیا، 27 اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے سکندرمرزا کو عہدے سے برطرف کردیا۔ انہوں نے کہا ملک میں استحکام کیلئے فوج کو کنٹرول سنبھالنا ہوگا۔ اس وقت بھی اپوزیشن جماعتوں نے ایوب خان کے اقدام کی حمایت کی۔ انہوں نے ملکی سیاست کو ہاتھ میں لینے کیلئے صدر کاعہدہ اپنے پاس رکھا، جمہوریت کانام لیااور کئے دعوے کرڈالے۔ اس ایک دہائی سے زائد عرصے میں ملک نے کیا کچھ برداشت کیا وہ سب تاریخ کاحصہ ہے۔
اس دور میں بھی لوگوں نے کمزور سیاسی قیادت اور غیرمستحکم حکومتوں سے نجات کاذریعہ جنرل ایوب خان کی شکل میں پایا۔ کسی بھی ملک کی فوج کبھی جمہوری اداروں کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ عوام کا تعلق اپنے نمائندوں سے ہوتاہے۔ انہیں کے توسط اپنے معاملات چلانے اور مسائل حل کرنے کے طریقے وضع کئے جاتے ہیں۔مگر اس ملک کی بدقسمتی رہی کہ 1971 میں دولخت ہونے کے بعد دوبارہ منتخب حکومت اور پہلا مکمل آئین تشکیل پالینے کے باوجود جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط نہ کرپائی اور اختلاف کا حق دبانے کے نتیجے میں ایک بار پھر فوج کو دعوت دی گئی۔
5 جولائی 1977 ایک بار پھر منگل کا دن جنرل ضیاءا لحق کے حکم پر ون ون ون ٹرپل بریگیڈ نے آپریشن فیئر پلے کرتے ہوئے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کاتختہ الٹا دیا، اور مارشل لاء نافذ کردیا، اس کو سردجنگ کی چھترچھایا مل گئی۔ اس نے عوامی مقبولیت کے حامل سیاستدان کو منظر سے ہٹانے کیلئے کچھ سیاسی حلقوں اور اپنے اداروں پر بھروسا کیا اور بھٹو کو پھانسی دے کر تاریخ کاحصہ بنادیا۔ افغانستان میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔اس سارے دور میں بھی جنرل ضیا نے 1985 میں جمہوریت بحال کرنے کا ڈرامہ رچایا اور عوام کے نمائندوں کو اسمبلیوں میں لانے کی کارروائی کی۔ اپنی حکومت برطرف کرکے 1988 میں انتخابات کااعلان کیا۔ مگر اس دوران امریکا اپنا کام نکال چکا تھا، اسی نے جنرل ضیاء راستے سے ہٹادیا۔
بائیس سال پہلے تیسری بار 12 اکتوبر، 1999 کو ایک بار پھر منگل کا دن ہی تھا، سہ پہر کا وقت تھا، وزیراعظم نوازشریف نے ملک کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کو عہدے سے برطرف کردیا،حکومت اور جنرل مشرف کے درمیان تلخیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں، سول فوجی تعلقات میں پیدا ہونے والا تناؤ شدت اختیار کرچکا تھا۔ پرائم منسٹر ہاوس میں فوج پر سویلین کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے ایک اہم فیصلہ بہت جلدبازی میں لیاگیا، لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین بٹ ،جوکہ اس وقت ڈائریکٹرجنرل آئی ایس آئی تھے، انہیں آرمی چیف نامزدکردیاگیا۔ مگر جائنٹ چیفس سٹاف ہیڈکوارٹرزکی سنیئر عسکری نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ اور ملٹری پولیس کو حکم دیا کہ وہ جنرل بٹ کو حراست میں لے کر فوج کی کمان سنبھالنے سے روک دیں۔ نوازشریف کے جنرل پرویز مشرف کو دورہ سری لنکا کے دوران کمان سے ہٹانے کی کوشش فوج کے کمانڈروں نے پلٹ دی۔ ملک کے اہم اداروں پر کنٹرول حاصل کرکے وزیراعظم نوازشریف، ان کے چھوٹے بھائی سمیت حکومت کے اہم وزراء کو نظربند کردیاگیا۔ اور ان کی حکومت برطرف کرکے مارشل لاء لگانے کااعلان بھی کردیا۔
اگلے روز تیرہ اکتوبر دوبج کر پچاس منٹ پر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے قوم سے ایک محب وطن کی زبان بولتے ہوئے خطاب کیا۔ فوج نے وزیراعظم نوازشریف اور ان کی حکومت کو افواج پاکستان کو غیرمستحکم کرنے اور مزید سیاست میں ملوث کرنے سے روکتے ہوئے اقتدارسے نکال باہر کیا ہے۔جنرل مشرف کا موقف تھا کہ نوازشریف بگڑتی ہوئی معیشت ،فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور کشمیر کا بحران پرقابو پانے میں ناصرف بری طرح ناکام رہےبلکہ عوام میں تیزی سے مقبولیت کھورہے تھے۔
بالکل اسی طرز پر جنرل مشرف کی کارروائی کے بعد متاثرہ جماعت نےشدید ردعمل ظاہرکیا جبکہ اپوزیشن کی کئی جماعتوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔ نومبر 1999 میں مسلم لیگ نواز نےسپریم کورٹ میں فوجی کارروائی اور ایمرجنسی کے نفاذ کو چیلنج کیا، پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرنے والے چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے بعدازاں استعفیٰ دیدیا،ان کی جگہ قائم مقام سپریم کورٹ کے سربراہ ارشاد حسن نے سماعت کے بعد فوجی بغاوت کو آئینی قراردیدیا۔
10 دسمبر 2000 کو جنرل مشرف نے نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کے لئے عام معافی کااعلان کرتے ہوئے انہیں پرائیویٹ طیارے کے ذریعے سعودی عرب بھجوادیا۔ جنرل مشرف کا کہناتھا نوازشریف کی سزا معافی سعودی شاہ عبداللہ اور رفیق ہریری کی درخواست پر دی گئی۔2001 میں جنرل مشرف نےصدر رفیق تارڑکو عہدہ چھوڑنے پر مجبورکیاتاکہ وہ ملک کی صدارت اپنے ہاتھ میں لےسکیں۔ یوں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق کےبعدتیسرے جنرل بن گئے جنہوں نے بالکل ایک جیسا کرداراداکیا، انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک فرضی ریفرنڈم کا سہارا لیتے ہوئے سیاسی اور آئینی پوزیشن بھی کنٹرول میں لے لی۔ 2002 میں عام انتخابات کراکےجمہوریت بحال کرنے کادعویٰ کیا۔ جس میں مسلم لیگ قائداعظم کی اقلیتی حکومت تشکیل دی، جس نے 2004 میں انہیں دوبارہ صدرمنتخب کرلیا، فوجی جنرل سیاسی ہوسکتا ہے لیکن جمہوری ہونا ممکن نہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے اختلاف کے بعد 2007 میں جنرل مشرف نے ایک بارپھر مارشل لاء لگادیا۔ اپنے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے یہ ہمیشہ آسان قدم رہا ہے۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت بننے اور شدید مخالفت پرمواخذے کے خدشے کے باعث عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ شاید ضیاءالحق پر بھی ایسا وقت آنے والا تھا، لیکن جنرل ایوب اور جنرل مشرف کے اقتدار کااختتام ایک سا تھا۔
آج بھی بارہ اکتوبر اور منگل کا دن ہے۔ ملک جمہوریت کے کتنے قریب ہے، اس کا فاصلہ ابھی طے کرنے والا ہے، سیاسی جماعتوں کا مزاج مکمل طورپر جمہوری نہیں ہوپایا۔ اب بھی اختلافات کے نتیجے میں طاقتور حلقوں سے رجوع کرنے کا چلن جاری ہے۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی اب بھی زیادہ مقدم نہیں رہتی۔ جس سے اقتدار کھوجاتا ہے، اس وقت ہی سمجھ آتی ہے۔ پھر ایک طویل عرصے تک جمہوریت کی تعریف اور تلاش کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ عوام سے دور ہٹنے اور انہیں سچ نہ بتانے کے نتیجے ماضی میں بھی سیاستدانوں کو بھگتنے پڑے مگر اس سب سے سبق کم سیکھا۔ محض اپنے اقتدار کی خاطر تگ ودو کرنے سے نقصان درنقصان اٹھاتے رہے۔
اب منگل ہویا کوئی اور دن، تاریخ سات ، پانچ ہویا بارہ، جب عوام کے حقوق سلب ہونے ہوں گے، پھر جمہوری قوتیں بھی کچھ نہیں کرپائیں گی، کیونکہ ان کا اتحاد کبھی قائم نہیں رہ پاتا، یہ دوسروں کو ہٹانے کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ جس کا نقصان ان سے زیادہ عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔