زندگی جیسے کچھ محتاط سی گزرنے لگی ہے، ویسے بھی زیادہ تر کسی قاعدے اور قانون کے تحت چل بھی نہیں رہی تھی، ایک برس بیت گیا پوری دنیا نے چلن بدل لیا یا پھر عادتیں تبدیل کرنے کے جتن میں لگے ہیں۔ زندگیوں کا تعلق معاش سے صحت اور تعلیم سے بھی ہوتا ہے۔ ان سب کو مہلک وائرس نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ بڑی طاقتوں سے لیکر غریب ملکوں کے بندوبست کرنے والے جان بچانے کے طریقے اپنانے میں لگے ہیں۔ شاید ہی بنی نوع انسان نے مجموعی طور پر اس قدر احتیاط برتی ہو۔
متاثرین شاید سب ہیں لیکن احساس کرنے والوں کی تعداد میں فرق ہوسکتا ہے۔ جنہوں نے قریب سے دیکھا یا بھگتا وہ جان چکے ہیں، مگر زیادہ تر کا اب بھی خیال ہے کہ معمول کی بیماریوں اور عمومی نوعیت کے وائرس سے پیدا ہونے والے امراض کورونا کے زمرے میں ڈال دیئے جارہے ہیں۔ سائنس پر یقین رکھنے والے ، ایمان کامل پر چلنے والے حتیٰ کہ کسی کی نہ ماننے والے بھی کہتے ہیں احتیاط کرنی چاہیے اس سب کے باوجود سنجیدگی کا عالم ویسا نہیں جیسا ہونا چاہیے، یہ کوئی طنز نہیں حقیقت ہے، ہر عمر ہر طبقے سے وابستہ افراد میں لاتعلقی کا رجحان دیکھنے میں آتا ہے۔ جن گھروں سے اپنے پیاروں کو زندگی سے روٹھتے دیکھا وہاں جاکر نگاہ ڈالیں، ان سے دریافت کریں ، کس اذیت کا سامنا رہا آخری وقت۔
کاروباری مراکز، دفاتر، تعلیمی اداروں، پبلک ٹرانسپورٹ سمیت عوامی مقامات پر ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ رکھنے یا محتاط رہنے کا عملی مظاہرہ کس حد تک کیا گیا، بلکہ اب تک ہورہا ہے، یہ بتانے والی بات نہیں۔ نظم وضبط یا ڈسپلن والا معمول شاید ہمارے مزاج کا حصہ نہیں، اسی لئے یہ سادہ سی احتیاط بہت مشکل لگتی ہے۔ مساجد میں فاصلہ رکھنے کا سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا، سب سے بڑھ کر ملک کے مسائل اور عوام کے دکھ درد کا خیال رکھنے والی سیاسی قیادت نے اپنے اجتماعات جاری رکھے، انہیں لوگوں کو حکومت کے خلاف گھروں سے نکالنا تھا، وگرنہ ان کے لئے مسئلہ بن جاتا ، اسی طرح لوگوں کو تاکیدکرنے والی بظاہر باشعور حکومتی مشینری جوابی طاقت دکھانے کے لئے مجمعے اکٹھے کرنے سے باز نہ آئی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنا کام جاری رکھا، سوچا بھی یہی کہ اس سب کرنے سے کون سا نقصان ہوجائے گا۔ دوسرے بھی تو بداحتیاطی کررہے ہیں۔ ایک میں کرلوں گا تو کون سا آسمان گرجائے گا۔
احساس ذمہ داری نہ جانے کس بلا کا نام ہے، حال یہ ہے کہ احتیاط برتنے والے تک وائرس کا شکار ہوگئے، اس نے کسی سے لحاظ نہ برتا۔ یہاں تک کے ایک سے دوسری بار بھی حملہ کردیا۔
گزشتہ برس جون میں متاثر ہوئے، اچھاخاصا متاثر کیا، ستمبر میں دل کا عارضہ لاحق ہوا، طبی ماہرین کی ایک رائے بھی تھی کہ اسی کے آفٹر افیکٹس ہیں، خیر معاملہ تو بگڑ گیا۔ زندگی محتاط انداز میں گزار رہے تھے، مارچ کے دوسرے ہفتےمیں علامات ملتی جلتی تھیں، دانستاً دھیان اس طرف نہیں گیا حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ پڑھ چکے تھے کہ دوسرے حملے کا قوی امکان ہوسکتاہے، اینٹی باڈی سیل بننے والی بات کی تصدیق نہیں ہوئی تھی، ان دنوں ویکسین لگوانے کا سوچ رہے تھے کہ طبیعت کی خرابی طول پکڑنے پر معلوم پڑا کہ پھر شکار ہوگئےہیں۔ اس مرتبہ چوتھا ہفتہ ہوگیا، مگر علامتیں جانے کا نام نہیں لے رہیں، ایسے میں احتیاط نہ کرنے والے، بات نہ ماننے والے دینی اور دنیوی عالم دونوں پر تھوڑا سا نہیں کافی افسوس ہوتا ہے کہ ہٹ دھرمی اور اپنی بات پر ڈٹ جانا کوئی بہادری نہیں۔ اگرچہ ہم جیسوں نے مان بھی لیا اور بھگت بھی لیا لیکن دیکھا جائے تو کم ازکم احساس زیاں نہیں ہے۔
زندگی کی آزمائشوں میں یہ بھی ایک ہے، تھوڑی سی دانشمندی کا مظاہرہ کرلیں تو کوئی حرج نہیں، اب ویکسین لگوانے کا مرحلہ آیا ہے، اس میں بھی ویسا ہی رویہ دکھایا جارہا ہے۔ کم ازکم یہاں ذمہ داری سے کام لے لیں۔