امید ہے مزاج اچھے ہوں گے، میں نے کہا کیا ہورہا ہے، کچن کے حالات کیسے ہیں، آج کس سبزی کو گوشت کی شراکت کا اعزاز بخشا جارہا ہے، تم سوچوگی کہ مختصر سا حال پوچھنے کے بعد سیدھا کچن میں گھُس گیا، دراصل اس وقت بھوک لگی تھی اس لئے ذہنی طو ر پر گھر میں داخل ہوتے ہی نگاہیں ہنڈیا کی جانب بڑھ گئیں۔
خیر چھوڑو۔ بچے کیا کررہے ہیں یقینا تنگ کرنے کے علاوہ کسی مثبت سرگرمی میں مصروف نہیں ہوں گے، میں نے کئی بار اکیلے میں یعنی تمہارے بغیر ان تینوں اور خصوصاً دونوں بڑوں کو سمجھایا کہ ماں کو تنگ نہ کیا کرو،
جس بات سے اُسے غصہ آتا ہے اسے ہرگز نہ دھراو۔
لیکن بچے ہیں کوشش کرتے ہیں پھر بھی کچھ کام ہوجاتے ہیں، جیسے کہ ڈرائنگ روم میں سخت گیند کے ساتھ کرکٹ کھیلنا میں نے محسوس کیا ہے کہ اُن کی بساط بھی اتنی ہے وہ کُھلے میدان میں اس جتنی اچھی کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔
اسی طرح کھانے سے پہلے بازار جاکر برگر یا کوئی اور کھانے والی شے لے آتے ہیں وہ گھر میں تیار ہونے والی خوراک کو شائد کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ انہیں کسی نے ذہن میں ڈال دیا ہے کہ بازار کا کھانے سے صحت بنتی ہے یا پھر اس کا انہیں نشہ لگ گیا ہے۔ مجھے تمہارے غصے اور دکھ دونوں کا احساس ہے کہ گھر میں پکا ضائع جاتا ہے
بازار سے خریدنے میں فالتو پیسے لگتے ہیں سب سے بڑھ کر گھر کے کھانے کی قدر بھی گھٹتی ہے۔ بچے ہیں آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائیں گے، ویسے ایک بات بتاؤں تم گھرداری میں بڑی ماہر ہو، اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا۔ کیونکہ میرے جیسے بظاہر سیانے اکثر گھر کے معاملات چلانے میں ایسی ایسی حماقتیں کر گزرتے ہیں کہ کچھ نہ پوچھو بلکہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے تم خود بہتر طور پر جانتی ہو۔ جیسے خریداری کے دوران میں اکثر کرجاتا ہوں۔
تمہاری صحت کیسی ہے، میں نے دیکھا ہے تم اس کا خیال نہیں رکھتی جس کے باعث معاملات بگڑ جاتے ہیں۔
بیگم ۔ آج میں تم سے ایک اہم بات کرنے جا رہاہوں، شاید ہم نے پہلے بھی اس پر تبادلہ خیال کیا ہو۔ لیکن کوئی بات نہیں.
جب ہم نے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا اس وقت میں اتنا زیادہ سوشل نہیں تھا۔خاندان کے لوگوں سے بہت کم ملتا۔ پھر تمہاری وجہ سے آہستہ آہستہ اس میل ملاپ کو بڑھایا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی اس کے بہت مثبت اثرات ہماری خصوصاً میری شخصیت پر پڑے۔ میں نے عملی زندگی میں بھی اس کو مزید بڑھایا۔
دوسروں کی خوشی اور غمی میں جانے لگا۔ اگرچہ بڑوں سے پہلے بھی سنا تھا کہ سماجی تعلقات ایسے مواقع پر جانے سے زیادہ بڑھتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ یاد ہے ہم اپنے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے شدید سردی اور گرمی میں کسی بھی عزیز کی شادی یا مرگ میں جاتے رہے ہیں۔
بیگم! انسان کی لالچ یا سمجھ لو کہ خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی، کچھ نہ کچھ پالینے کی خاطر وہ اپنا ذہن دوڑاتا رہتا ہے۔ میں نے سماجی تعلقات کو مشروط کبھی نہیں کیا۔ انسان چاہتا ہے کہ اگر واسطہ کسی سے پڑتا ہے تو وہ اس کے کتنے اور کیسے کام آسکتا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسروں کے کام آنا کوئی بُری بات نہیں، کیونکہ دوسری جانب اگر یہ خیال جنم لے لے کہ یہ کام کرنے سے اُسے کیا فائدہ ہوگا۔یہ بھی درست نہیں۔
دیکھو !ہم گاڑی میں جارہے ہیں راستے میں وہ خراب ہوجاتی ہے کوئی اللہ کا نیک بندہ ہمیں پریشانی میں دیکھ کر رُکتا ہے اور گاڑی ٹھیک کرنے یا اُسے کسی محفوظ مقام تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے ہمیں تو سکون ملے گا اس کے عمل سے، لیکن وہ اگر یہ سوچ کر آگے بڑھ جائے کہ ہماری مدد کرکے اُسے کیا فائدہ ہوگا۔
زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جس میں ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، مفادات کا حصول اگر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر کئی کام رُک جائیں۔
بیگم۔ ہم نے رشتہ دار، عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مخلص ہوکر میل ملاپ کیا۔ کبھی یہ نہیں سوچا اس سے فائدہ ہوگا یا نہیں۔ ایک اور چیز زندگی میں بہت زیر بحث آتی ہے قسمت۔
میرا یقین ہے کہ ارادہ اور نیت ٹھیک ہو، اچھے حالات خوش قسمتی کی صورت میں آتے رہتے ہیں۔ لیکن انہیں کبھی کبھار محسوس کرنا پڑتا ہے۔ جیسے خوشی بھی انسان کے اندر ہوتی ہے اُسے موقع کی تلاش ہوتی ہے اسی طرح خوش قسمتی بھی بعض اوقات ان دیکھی ہوتی ہے وہ شائد دوسرے کو نظر نہیں آتی۔
ضروری نہیں کہ لاٹری لگنے یا انعام میں ملنے والی گاڑی خوش قسمتی یا اچھی قسمت کی علامت ہو، بیماری کے بعد ملنے والی صحت یابی کے نتیجے میں آئندہ زندگی کے امور انجام دینے ہوں گے جس کے بعد کامیابی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے اگر بیماری شدید ہو جائے اور آدمی صحت مند نہ ہو پائے تو پھر کیسی قسمت اور خوش بختی۔ کسی کی اچھی بات یا مشورہ بھی تقدیر کا رُخ متعین کرسکتی ہے۔
بیگم! یہ وہ باتیں ہیں جو ہم کبھی کیا کرتے تھے، لیکن اب معاملات بڑھنے اور پریشانیوں میں اضافے کے نتیجے میں یہ سب سوچنے اور باہمی تبادلہ خیال کو موقع ہی نہیں ملتا۔ دراصل۔ مکالمے اور خاص آپس کی بات چیت کے بعد کئی معاملات نۃ صرف درست ہوجاتے ہیں بلکہ مسائل کا حل نظر آنے لگتا ہے۔
بیگم! تم سوچ رہی ہوگی آج نہ جانے کیا باتیں شروع کردیں، پتہ جب انسان اپنوں سے دور ہوتا ہے تو کئی ایسی سوچیں اور خیالات بڑے کُھل کر ذہن میں آنے لگتے ہیں وہ سوچتا ہے کہ اگر میں سامنے ہوتا تو یہ بات کرتا فلاں مسئلے پر مشورہ لیتا کسی غلطی پر معافی مانگتا، اور ایسی کئی باتیں ۔
خیر ۔ یہ اکٹھے بیٹھ کر بھی کرلیں گے، مجھے لکھنے میں مزہ آرہا ہے تمہیں پڑھنے میں آجائے گا اور کیا چاہیے،
تمہیں اپنے کام نمٹانا ہوں گے، اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔
خیراندیش
تمھارا