بندے کی زندگی خواہشات، ضروریات اور کئی نوعیت کے تقاضوں سے بھری پڑی ہے، وہ دنیا میں آنے کے بعد مسلسل اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ اس میں دنیاوی اور دینی روحانی معاملات میں الجھے دونوں طرح کے انسان شامل ہیں۔ اگر ایک طرف پیسہ مال دولت کی چاہت ہے دوسری جانب کچھ ایسا ہی ہے، بندہ کسی نہ کسی چیز کو مقصد بناکر اس کے حصول میں لگارہتا ہے۔
ذھن مختلف مفروضوں کے تعاقب میں لگا کر کہیں سے کہیں چل رہا ہوتا ہے، ایسا کرلیں تو فلاں کام ہوجائے گا، ویسا کیا تو شاید کچھ غلط ہوجائے گا۔ آگے دیوار نہ آتی تو راستہ سیدھا مل جانا تھا۔ اس نوعیت کے سوالات سراٹھاتے رہتے ہیں، زندگی ایسے مفروضوں کا سہارا لے کر آگے بڑھنے کا نام ہے کیونکہ انہیں کے نتیجے میں بعض اوقات بڑی کامیابی مل جاتی ہے، ناکامی کی صورت میں مزید مفروضے سامنے آجاتے ہیں۔
کیا انسان اپنی ساری زندگی اسی بھاگ دوڑ میں ضائع کردے، جی ہاں کیونکہ کسی بھی پیش قدمی میں جب کچھ واضح دکھائی نہیں دیتا اس صورت میں فرض کرلینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یہی کسی مسئلے کا واحد حل رہ جاتا ہے۔ اور اکثر کچھ نہ کچھ سجھائی دے جاتا ہے۔ راستے کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر یہ مفروضے ہی جیسے سب کچھ لگتے ہیں۔ بندہ سوچتا ہے کاش میں پہلے کوئی ذھن دوڑا لیتا۔ فلاں موقع پر ایسے کرلیتا تو اب نہ جانے کہاں سے کہاں ہوتا۔
سیاست اور مذہب بظاہر دو مختلف راستے ہونے چاہئیں مگر ہمارے ہاں انہیں آپس میں گڈمڈ کردیا گیا ہے، چونکہ سیاست کا پھیلاؤ زیادہ ہے اس لئے مذہب والے بھی بخوشی اس میدان میں قدم جمانے میں لگے ہوتے ہیں۔ دونوں سے وابستہ افراد بھی اپنے ساتھ مفروضوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اگر ایسا کرلیں تو ایسے ہوجائے گا، مجھ سے اگلا قطار میں سے نکل جائے تو میری باری آجائے گی۔ اسے یہ عہدہ ملا ہے میں بھی ایسی حرکت کروں تو مجھے بھی کوئی ذمہ داری مل جائے گی۔
مسابقت کی یہ سوچ بُری نہیں اگر نیت صاف ہو، مقصد دوسرے کا نقصان کرنا اور اپنا فائدہ ڈھونڈنا ہو پھر دیکھنے والا بھی جان جاتا ہے کہ معاملہ گڑبڑ والا ہے۔ کسی کے آگے پتھر رکھ کر اپنا راستہ بنانا آگے چل کے مشکلات سے دوچار کردیتا ہے۔ لیکن یہ فرض کرلینا کہ دوسرے کا معاملہ بھی درست ہوجائے گا۔ کوئی اچھی اور صائب سوچ نہیں۔
ہمارے مفروضے نیک نیتی اور اچھے خیال پر مبنی ہوں اسی صورت میں راستے کھلے ملیں گے ورنہ دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنے میں کوئی کامیابی یا جیت نہیں۔ ذات کو سامنے رکھ کر کسی کام کا بیڑہ اٹھانا کبھی کبھی انسان کو تنہائی میں لے جاتا ہے۔
یہ فرض کرلینا کہ میں درست ہوں اور دوسرا غلط ، بندے کا گمان ہوسکتا ہے حقیقت کئی بار مختلف ہوتی ہے، اس لئے کوئی انفرادی کام یا اجتماعی اور مشترکہ جدوجہد شاید اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک یہ مفروضے دوسرے انسان کے نقصان اور مشکل کو سامنے رکھ کر نہ کئے جائیں۔