“میں اول جماعت کا ڈرائنگ کا پیپر دے کر سکول کے گیٹ سے باہر نکلا تو وہاں ابو مجھے لینے آئے تھے انھوں نے کہا چلو جلدی کرو گھر چلیں تمھارا ایک اور چھوٹا بھائی آیا ہے، میں چھ سال کا تھا، چھوٹے بھائی سے میں ڈیڑھ سال بڑا تھا، میری اس سے بڑی دوستی تھی اب ابو سے سناکہ ایک اورچھوٹا بھائی آیا تو میں اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ کیسا ہوگا ہمیں تو بتایا گیا تھا تمھاری بہن آئے گی”
یہ وہ الفاظ تھے جو آپ میری پیدائش کے حوالے سے اپنی یادوں کی پٹاری سے اکثر نکال کر سنایا کرتے ہیں۔ پچاس برس سے زائدگزر گئے اس واقعے کو اور اب تک کے عرصے میں میرے ساتھ آپ کا تعلق بڑے بھائی سے کہیں زیادہ ایک مہربان اور خیال کرنے والے دوست کا رہا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی کہیں کہیں اتار چڑھاؤ وقت کے ساتھ ساتھ آئے لیکن محبت کے جذبات کی گرمجوشی اور لگاؤ کے انداز میں کمی نہیں آئی۔
آپ کی منجھلے بھائی سے دوستی اور اس سے پیار بہت زیادہ تھا، جسے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب وہ ہم سب کو چھوڑ کر جوانی میں ہی رخصت ہوگئے۔ میں آپ کے اس دکھ کو کافی حد تک سمجھ سکتا ہوں کیونکہ میں بھی اسی کیفیت سے گزرا لیکن آپ دونوں کے درمیان ہم آہنگی اور پھر ایک دوسرے کے رازداں ہونے کا تعلق مختلف نوعیت کا تھا۔
آپ نے مجھے بچپن سے ہی اعتماد دیا اور والدین کے بعد ایک بڑے کی حیثیت سے چیزوں کے بارے میں بڑے ہی فلسفیانہ انداز میں تربیت کی۔ بے شمار واقعات اور باتیں ذھن کے پردے پر تیزی سے چلتی ہیں، کئی تو اتنی پختہ ہوگئی ہیں کہ کسی سٹل فوٹو کی طرح سائیڈ پر محفوظ ہوچکی ہیں۔
سب سے بڑھ کر آپ دونوں بھائیوں نے عمر کے فرق کے باوجود مجھے اپنے کھیلوں میں بھی ساتھ رکھا، ذرا بڑا ہوا تو دوستوں کی محفلوں اور نشستوں میں بھی لے گئے، جس کے نتیجے میں تقریباً آپ کے تمام دوست میرے بھی دوست ہی قرار پائے اگرچہ اس تعارف میں یہی کہتا ہوں یہ میرے بڑے بھائی کے دوست ہیں، لیکن تعلق کی نوعیت دوستی کا رہا ہے، بچپن کا حوالہ دوں تو ایک بار بڑی عید سے پہلے بکرا لائے، اس نے مجھ پر حملہ کیا میں آگے آگے اور وہ بڑی تیزی سے میرے تعاقب میں تھا۔ خوف کے عالم میں چیختا چلاتا میں آگے بھاگ رہا تھا، آپ نے کہا اس کے آگے بھاگو مت، کھڑے ہوجاؤ، یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ جانور حملہ آور ہے اور آپ جان بچانے کے بجائے اس کے آگے کھڑے ہونے کا درس دے رہے ہیں، اس وقت تو ایسا نہ کرسکا اور حتمی طور پر اس کے حملے کے نتیجے میں بُری طرح گرا اور ہلکی پھلکی چوٹ بھی آئی، آپ نے کہا میں نے تمھیں بھاگنے سے منع کیا تھا۔
بڑے ہوکر احساس ہوا کہ ایک اور حوالے سے یہ بات درست ہے کہ کسی مصیبت یا پریشانی کا اس سے فرار کے نتیجے میں کامیابی نہیں ملتی بلکہ وہیں کھڑے ہوکر اس کا مقابلہ کرنا ہی اصل بہادری اور اس مسئلے کا حل بھی ہے، اور یہی درست فیصلہ بھی ہوتا ہے۔
اسی طرح فرسٹ ائیر میں داخلے کے لئے کرکٹ کے ٹرائل کی تیاری جس انداز میں آپ نے کرائی وہ بھی مجھے یاد ہے، میں سافٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا، ہارڈ بال بہت کم کھیلی تھی، آپ نے ایک ایسی جگہ پر جہاں بال تیزی سے نکلتی تھی مجھے کھڑا کرکے گیند کرائے۔ میں پہلے ڈر گیا اور اس کا اظہار بھی کردیا آپ نے کہا یہی تو میں کررہا ہوں تمھارا ڈر خوف ختم کیا جائے اگر تم اتنی تیز بال کو کھیل نہیں سکو گے تو تم سے کل وہاں کچھ بھی ہوسکے گا۔
اگلے روز یہی ہوا آپ کی ہدایت پر تیز بال کا سامنا کیا، باہر جاتی گیند کو بڑے پُراعتماد انداز سے ٹانگ نکال کر چھوڑ دیتا اور اندر آنے والی کو روک لیتا، اس کے نتیجے میں پہلے راؤنڈ کے دوران ایک بڑی تعداد میں سے میرا انتخاب ہوگیا، مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ آج تک نہیں بھول پایا۔
اسی طرح ایکٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا ،گورنمنٹ کالج میں اس کے ٹرائل تھے، بغیر تیاری کے چلے گئے۔ آپ نے کہا سکرپٹ ملے گا تو اسے دیکھ کر کوئی سچوئشن بنالیں گے۔ بچپن میں سکول میں سٹیج پرہلکی پھلکی پرفارمنس دی تھی، لیکن اس وقت ذھنی طور پر میں بالکل خالی تھا۔ وہاں گئے تو ججز نے ہر کسی سے کہا کہ وہ جو کچھ تیار کرکے لائے ہیں وہ ایکٹ کرکے دکھائیں، میری باری تیسرے نمبر پر تھی، میرے ایک دوست کو ایکٹنگ کا بڑا شوق تھا، لیکن میری طرح کوئی تجربہ یا تربیت نہ لی تھی، وہ ناتجربہ کاری کی بنا پر کچھ نہ کرسکا۔
آپ نے فوری طور پر ذھن دُوڑایا اور کہا کہ تم ایک ٹانگ کو پکڑ کر معذور فقیر کا کردار ادا کرو اور بھیک اس طرح مانگو کہ اس میں داخلے کا ذکر بھی کر دینا کہ پہلے بھی داخلہ لینے آیا تھا آپ نے نہیں دیا، اس طرح ایکٹ تھوڑا کرسپی (مزیدار) ہوجائے گا۔
میں بڑا نروس تھا اور مجھے بات بھی کچھ کچھ سمجھ آئی جب ججز کے سامنے گیا تو انہوں نے ویسا ہی میرے ساتھ بھی کیا اور کہا کہ آپ کیا کریں گے، میں بے ساختہ اپنا بایاں ہاتھ گھٹنے پر رکھ کر تھوڑا جھکا اور دایاں ہاتھ سوالیہ انداز میں ان کے سامنے پھیلاتے ہوئے مانگنے کی ایکٹنگ کرنے لگا، چونکہ میں نروس تھا میری ادائیگی کچھ جذباتی سی لگنے لگی، وہاں بیٹھے بعض لوگ اور ججز میں سے بھی ایک دو مسکرانے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں بھی تین بہترین پرفارمنسز میں سے ایک میں منتخب ہوگیا۔
یوں بعد کے دنوں میں کرکٹ اور ایکٹنگ میں بہت زیادہ مقام تو حاصل نہ کرسکالیکن تھوڑا بہت پرفارمنس دی یہ بات آپ نے میرے ذھن میں بٹھادی کہ کسی بھی صورت حال میں گھبرانے والے کا کوئی مقام نہیں کھڑے رہ کر مقابلہ کرنے والے کو پھر بھی لوگ یاد رکھتے ہیں، پہلی بار پریس کلب کاالیکشن لڑا کوئی حالات نہ تھے، آپ نے کہا تم ہارو گے یا جیتو گے، تیسرا کام نہیں ہوگا۔ اس لئے بے فکر ہوکر مہم چلاؤ یہاں بھی مجھے کامیابی مل گئی۔
میں نے ہمیشہ اپنے قریبی حلقے میں آپ کا تعارف یہی کرایا کہ آپ منطق بولتے ہیں اور وہ بھی بڑے سادہ پیرائے میں،جس کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا، سننے والا بظاہر پریشان ہو جاتا ہے لیکن اگر الفاظ پر غور کریں تو بہت سادہ اور صاف بات کہہ دیتے ہیں۔
آپ کے اندر ایک عاشق کادل تھا جس کی وضاحت کچھ اس طرح کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ جذبہ ڈالا ہے اورعشق کرنے والا ہی رب کو پاتاہے اور انسان کو بھی جان لیتا ہے۔
آپ نے محبت کی اور پھر شادی کی، اس میں مشکلات پیش آئیں لیکن جس طرح انہیں عبور کیا وہ سب میرے سامنے تھا، چھوٹے بھائی بھی آپ کے نقش قدم پر چلے ،پھر آپ نے ویسے ہی مجھے بھی پیشکش کی،،جیسے اوائل جوانی میں سگریٹ نوشی کے حوالے سے تاکید کی کہ کبھی چھپ کر یا چوری چوری سگریٹ نہ پینا، جب خواہش ہو ہمارے ساتھ بیٹھ کر پینا، ورنہ تمھارا اعتماد ڈگمگا جائے گا۔ ایسا ہی ہوا میں ایک دوست کی حیثیت میں سب کام آپ کے علم میں لاکر کرتا رہا لیکن میں عشق کرسکانہ کچھ اور۔
میری اعتماد سازی کا عمل آپ نے ہمیشہ جاری رکھا، بس اس کا انداز اور طریقہ بدل گیا، مجھے محسوس بھی نہیں ہونے دیا اور حوصلہ افزائی کردی۔
انسانی نفسیات کو پڑھنے اور سمجھنے میں بھی معاونت کی، زندگی کی باریکیوں سے واقفیت دلائی، اسی طرح جیسے آپ خود بڑے انسان دوست ہیں اور خصوصاً بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتے ہیں بلکہ اُن کی سرگرمیوں میں خود شریک ہوجاتے ہیں، اس سب کے دوران یہ بھی بتا دیتے کہ کیسے بچوں کے رویئے درست کئے جانے چاہئیں، آپ میری بھی اس معاملےمیں رہنمائی کرتے رہے ہیں میرے بچوں کے ساتھ بھی پیار ایسے ہی کیا، انہیں کھیل کود سے لیکر فیشن کرنے اورکسی بھی دوسرے کام میں ہمیشہ گائیڈ کیا،ان سے فرینکنس بھی بہت زیادہ کہ وہ کوئی بات کرتے بھی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔
آپ کا انداز گفتگو جس میں ہلکے پھلکے فقروں کے ساتھ سیدھی سچی باتیں یعنی حقیقت پسندی کا تڑکا جسے سننے والا بھی محظوظ ہوئے بنا نہیں رہتا موسیقی سے دلچسپی نے آپ کو ڈپریشن میں جانے نہیں دیا، کسی خراب صورتحال سے خودکو نکالنے کی بھی بھرپور صلاحیت میں نے آپ میں دیکھی ہے۔
امی کا آپ سے تعلق بھی بہت کمال کا تھا، دونوں ایک دوسرے کو بڑے پیار بھرے اور فرینک انداز میں مخاطب کرتے، آپ نے امی کو بیٹی بن کر بھی دکھایا، یعنی گھر داری کچن میں جاکر بھرپور ہاتھ بٹایا، حتیٰ کہ میرے جیسے اناڑی نے بھی اسےتسلیم کرلیا کہ کاش!میں امی کی بیٹی ہوتا، یعنی ان سےکھانا پکانا تو سیکھ ہی لیتا ساتھ میں ماں اور بیٹی کے درمیان خاص راز ونیاز یعنی دل کی باتیں بھی کرلیتا۔
امی کا یہ دُکھ کہ میری بیٹی، بہن نہیں، پھر انکی ماں اور خالہ بھی فوت ہوگئی تھیں، اسے شاید آپ نے بہت زیادہ محسوس کرلیا تھا، امی کا ہمیشہ ساتھ دیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں مگر کئی برس بیت جانے کے باوجود ان کی قبر پر جانے کے عمل میں ایک روز کا ناغہ نہیں ہوا۔مستقل مزاجی کی ایک مثال قائم کردی، پہلے سب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی کسی حد تک یہ غیر معمولی اقدام لگا لیکن آج احساس ہوگیا کہ یہ حاضری بہت ضروری ہے، امی کی قربت اور ان کی بخشش کے لئے ایک امرناگزیر، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے اور امی کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
آپ کی امی اورمنجھلے بھائی سے محبت لازوال اور بے مثال ہے،اسے بیان شاید الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔
آپ کا اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ محبت کا اظہاربھی بڑا زبردست ہے، بہت زیادہ تعاون اور شفقت سے بھرا جذبہ بھرپور طریقے سے پایاجاتا ہے۔
ایک نعرہ سا لگا کر ہر کسی کو پیار بھرے نام کے ساتھ پکارنا یہ بہت ہی دلفریب اور منفرد طریقہ آپ میں پایا جاتا ہے، جس سے بھی تھوڑا اُنس اور قربت پائی جاتی اسے کوئی پیار والا نام آپ نے ضرور دے دیا۔
ہر کوئی ایسا نہیں کرسکتا، یہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر دوسرے انسان کے لئے محبت کے جذبات ڈالے ہوتے ہیں لیکن اکثر انہیں دبا دیا جاتا ہے، یا پھر اپنے مفادات اور زندگی کے جھمبیلوں میں ہم اس حِس کو مار ڈالتے ہیں، کبھی کبھی خود پسندی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں دوسرا انسان تو کبھی اچھا لگتا بھی نہیں۔ اس میں خوبصورتی کی بجائے عیب اور خامیاں ہی نظر آتی ہیں، انسان کا بڑا پن اسی میں ہے کہ وہ دوسروں کی اچھائیاں دیکھے ان کی تعریف کرے اور انہیں اپنے اندر بھی محفوظ کرنے کی خواہش رکھے۔
آپ نے اپنی صحت پر کبھی خاص توجہ نہیں دی لیکن دو تین حکمت کی باتیں، بطور کوٹیشن ضرور بتاتے رہتے ہیں، جیسے پیدل زیادہ سے زیادہ چلنا چاہئے، روزانہ دہی کا استعمال اچھا ہوتا ہے اور یہ کہ ان دونوں پر عمل کرنے والے کو کبھی کچھ نہیں ہوتا صرف اللہ کی طرف سے موت نہ لکھی ہو تو بندہ نہیں مرسکتا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور تندرستی دے میں نے بہت شدید بیماری میں آپ کو کبھی نہیں دیکھا، کسی سنگین عارضے میں کبھی مبتلا نہیں ہوئے، اس کی بنیادی وجہ بھی یہ چند عادتیں تھیں جنہیں اپنائے رکھا۔ کثرت سگریٹ نوشی کی عادت کتنے برسوں سے ہے مگر صحت پر بہت زیادہ اثرات نہیں پڑے، میرے خیال میں امی اور ننھیال میں پائی جانے والی قوت ارادی بھی شاید آپ میں منتقل ہوئی ہے کیونکہ ابو اور میں تو بہت جلد بیمار بھی ہوجاتے ہیں اور گھبرا بھی جاتے ہیں۔ آپ کو ہمیشہ اس معاملے میں نڈر ہی پایا،بلکہ آپ بیماروں کو زبردست حوصلہ دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
لوگ اپنے بھائیوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ بیرون ملک ہوتے ہیں، اور انہیں تحفے تحائف بھیجتے ہیں یا ان کی مشکل وقت میں مالی معاونت کرتے ہیں، لیکن میں کئی بار سوچتا ہوں کہ آپ کا تعاون بھائی کی حیثیت میں کسی طور کم نہیں یہ اس سے کہیں بڑھ کر انمول تحفہ ہے۔ مجھے بھی اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ میرا بھائی کسی سے کم نہیں بلکہ الٹا خود پر افسوس ہوتا کہ میں ایسا کیوں نہیں ہوں۔
آپ دونوں بھائی میرے لئے اب بھی تقویت کا باعث ہیں، یہ سوچ کر ہی میں مضبوط ہوجاتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش وخرم رکھے اور میرے لئے ایسے ہی حوصلے کا باعث بنائے رکھے۔
آمین، آپ کا چھوٹا بھائی