ADVERTISEMENT
اخترحیات نے مجھے مزاح لکھنے کی ترغیب دلائی،اور کچھ نہ سوجھا،انہیں کاخاکہ لکھ دیا، انہیں پڑھ کرسنابھی دیا، تھوڑاسوچنے کے بعد بولے اچھا ہے مگر اس میں صاحب خاکہ کانام نہیں بتایا، میں نے کہا،عنوان اختریات ہے،جس پر خاموش ہوگئے۔ آج ان کی ساتویں برسی ہے، اس موقع پر اس تحریر “آوازہ “کے لئے پیش کررہا ہوں۔
٭٭٭
کچھ لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں، لیکن بعض کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک مکمل مضمون ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ویسے کئی حضرات سےمتعلق یہ تاثرات عام ہیں کہ وہ چلتی پھرتی فلم ہیں۔ یا فلاں شخص تو پوری کی پوری سائنس ہے۔ جیسے معاشیات،نفسیات، سماجیات، مبادیات اور نہ جانے کون کون سے اخترعات شامل ہیں۔ انہیں کی طرز پر ہمیں اپنے ایک سینئر اور انتہائی قابل احترام ساتھی کا اکثر خیال آتا کہ وہ بھی ایک مکمل سائنس یا کہہ لیں مضمون ہیں، ان کی شخصیت میں پائے جانیوالی ہم جہت خصوصیات ہی تھیں جنہیں اس تحریر پر اکسایا۔ جس کا عنوان اختریات سوجھا۔
ہماری شناسائی قریباً دو دہائیوں پر مشتمل ہوگی، لیکن حقیقی انکشافات بعداز مشاہدات چند برس قبل ہی ہوئے، نہایت انسان دوست اور کتاب دوست شخصیت کے مالک طبعیت میں مرنجا مرنجی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، مگر مزاج میں ایک بے کلی کی کیفیت ہر وقت رہتی۔ زبان و بیان پر کئی لوگوں سے بہتر عبور حاصل ہے۔ یادداشت ایسی کہ ماضی میں کسی کو ملے ہیں تو کئی سال بعد بھی اس کا نام بتادیتے۔ حتٰی کہ تمام سیاق وسباق کا بھی حوالہ نتھی کردیتے۔ پرورش اندرون شہر میں ہوئی جس کی بناء پر قدیم روایت کھانوں اور ہر نوعیت کی چال چلن سے گہری وابستگی رکھتے۔
گفتگو اتنی چلبلی ہوتی کہ کبھی بچے کا گمان ہوتا اور کبھی ایک بزرگ جیسی حکمت ہوتی۔ اگر کوئی پرانی شے، علاقے یا شخصیت سے متعلق کھوج لگا رہا ہوتا تو فوری ان سے رجوع کرتا جس کے نتیجے میں یقیناً کوئی جواب ضرور مل جاتا۔ ہم انہیں انسائیکلوپیڈیا ہی کہتے، دلچسپ بات یہ کہ سیر بلاناغہ کرتے لیکن توند کسی طور کم نہ ہوئی۔ فٹنس کا خاص خیال رکھتے اس کے باوجود طبیعت میں تازگی اور بیزاری کا آنا جانا لگا رہتا۔
مزاح ان کی خصوصی پہچان تھی ایسے ایسے فقرے بناتے کہ سامنے والا نا صرف دم بخود رہ جاتا بلکہ محظوظ ہوئے بغیر نہ رہتا۔ انہیں لطیفہ گوئی سے زیادہ خودساختہ بیانی کاشوق تھا۔ بعض اوقات اتنے وثوق سے بات کرجاتے کہ سننے والے کو حقیقت کا گمان ہوتا۔ پاؤں تلے سے زمین سرکانے کے ماہر مگر کسی کو اس کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔
صحافت کے شعبے سےمنسلک ہونے کی وجہ سے رپورٹنگ میں ایسی منظر کشی کرتےیا کہیں کہ زبردست نقشہ کھینچتے کہ متعلقہ حکام فوری ایکشن لینے پر مجبور ہوجاتے۔ شہری سہولتیں زیادہ تر ان کا موضوع ہوتے۔ اس کے علاوہ تاریخی مقامات، ادب، ثقافت اور شخصیات پر قلم اٹھاتے۔ انسانی جبلت سے لبریز ہوکر صنف نازک چاہے کسی بھی عمر کی ہو، اسے نہ صرف اپنی توجہ کا مرکز رکھتے بلکہ کسی نہ کسی طرح شامل حال بنالیتے۔ وہ بڑی سادگی کے ساتھ کہہ دیتے کہ تصویر کائنات میں رنگ بھرنے کے لیے اس جنس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
مزاح ان کی خصوصی پہچان تھی ایسے ایسے فقرے بناتے کہ سامنے والا نا صرف دم بخود رہ جاتا بلکہ محظوظ ہوئے بغیر نہ رہتا۔ انہیں لطیفہ گوئی سے زیادہ خودساختہ بیانی کاشوق تھا۔ بعض اوقات اتنے وثوق سے بات کرجاتے کہ سننے والے کو حقیقت کا گمان ہوتا۔ پاؤں تلے سے زمین سرکانے کے ماہر مگر کسی کو اس کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔
صحافت کے شعبے سےمنسلک ہونے کی وجہ سے رپورٹنگ میں ایسی منظر کشی کرتےیا کہیں کہ زبردست نقشہ کھینچتے کہ متعلقہ حکام فوری ایکشن لینے پر مجبور ہوجاتے۔ شہری سہولتیں زیادہ تر ان کا موضوع ہوتے۔ اس کے علاوہ تاریخی مقامات، ادب، ثقافت اور شخصیات پر قلم اٹھاتے۔ انسانی جبلت سے لبریز ہوکر صنف نازک چاہے کسی بھی عمر کی ہو، اسے نہ صرف اپنی توجہ کا مرکز رکھتے بلکہ کسی نہ کسی طرح شامل حال بنالیتے۔ وہ بڑی سادگی کے ساتھ کہہ دیتے کہ تصویر کائنات میں رنگ بھرنے کے لیے اس جنس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
مخصوص انداز میں منہ پر ہاتھ پھیرنا اور پتلون کو کھینچ کر اوپر کرنا جیسے ان کاخاصہ کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ مکالمے پر یقین رکھتے اس لیے اگر کوئی دستیاب نہ ہوتا تو موبائل کی سہولت کافی سمجھتے۔ اس عادت کے باعث کئی بار سرعام مواصلاتی رابطے کے دوران موبائل فون چھنواچکے،مگر اس عادت کو کبھی ترک کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔
دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کا بہت خیال رکھتے، حتٰی کہ کسی جاننے والے کی بیماری یا انتقال پر فوراً پہنچ جاتے، جب کبھی پوچھا کہاں جارہے ہیں یا کہاں سے آمد ہوئی اکثر جواب ملا، فلاں کی مزاج پرسی کرنے گیا تھا یا کسی ملنے والے کے جنازے سے آرہا ہوں۔ چھٹی کا دن اپنی زیرالتواء ملاقاتوں کے لیے مخصوص کررکھا۔
مشورے اور وہ بھی مفت کسی بھی وقت دینےکےلیے ہر دم تیاررہتے، بلکہ کہاجائے کہ دوسرے ان کی آمد کے منتظر رہتے کہ آئیں تو مشورہ کیا جائے۔ پریشان ہونے میں سب سے سبقت لےجاتے، یہاں تک کہ اکثر ان سے زیادہ فکرمند ڈھونڈنا پڑتا۔ تشویش کی سطح اس قدر بلند رکھتے کہ افواہ کا شائبہ ہونے لگتا۔ ایسی ایسی اخترعات کرتے کہ ذہن دنگ رہ جاتا۔ نگاہ وہاں تک رکھتے کہ جہاں کسی کی سوچ بھی نہ جاتی ہو۔ بچوں کے ساتھ بچے اور بوڑھوں سے قدرے فاصلہ رکھتے کیونکہ عمر پوچھنے پر عورتوں کے غصے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے۔ جیسے پہلے ذکر کیا کہ خواتین کے لیے نرم گوشہ بلکہ یہ کہا جائے کہ وومن کارنر رکھتے۔ مرد شائد ان کی شخصیت سے متاثر ہونے سے بچ جاتے ہوں مگر ایسا ناممکن ہے کہ خواتین مرعوب نہ ہوں۔ جیسی عمر اور سوچ ہوتی ویسی ہی ان کی کارروائی ٹھرتی۔ غرض یہ کہ من موجی ایسے کہ ابھی آپ کے پاس بیٹھے اگلے لمحے معلوم نہیں کہاں گئے۔ بھیڑ میں کھو جانے پر ایک ہی طریقہ تلاش ہوتا فوراً نگاہ دوڑا کر کسی عورت کو دیکھ لیں تو انہیں اس کے ریڈئیس میں موجود پاتے۔
علمی گفتگو جب بھی چھیڑتے معلومات میں کوئی نہ کوئی اضافہ کرتے،حاضر دماغی کا یہ عالم کہ کچھ نہ بن پڑنے پر بھی کوئی جواب ضرور دے دیتے وہ الگ بات ہے کہ دوسرے کی تسلی ہوئی یا نہیں۔ ایک اور بات جو کبھی کبھی دیکھنے میں آتی وہ سلیس اردو کابرملا استعمال تھا۔
مسکراہٹیں بکھیرنے کافن جانتے اورچٹکلےفائر کرتے رہتے،بعض خاص قسم کےالفاظ یاجملے پھینکتے جن کےبظاہر معنی نہ ہوتے مگر بطور استعارے کچھ نہ کچھ مطلب ضرورنکل آتا۔ اس کے علاوہ ایسےاشارے بھی ہوتےجنہیں خواتین کے سامنے استعمال کرنے سےگریز کرتے اور پیشگی دیکھ لیتے کہ کوئی خاتون اردگرد موجود تو نہیں۔ لیکن اس سب میں ایک سادگی کا عنصر موجود ہوتا۔
اپنے ہم عصر ساتھیوں سےخصوصی لگاؤ تھا لیکن ان کی عدم موجودگی میں ان سےمتعلق انکشافات یا ان کے بارے میں ایسی گفتگو کر گزرنا کہ شائبہ ہوناجیسے ان کی دوستی نہیں کوئی دیرینہ عداوت پائی جاتی ہو۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں اس کے بارے میں پیشگی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
سب سےزیادہ حیرت تب ہوتی جب وہ مسلسل خاموشی اختیار کئے رہتے، جس پر استفسار کرنا پڑتا کہ مزاج بخیرہیں، تو یہی جواب ملتا آج کچھ مضمحل ہوں۔ اعضاء کھنچے کھنچے ہیں، طبعیت بے کیف ہے۔
سیر کے دوران خاموشی اختیار رکھتے لیکن آنکھوں کی ورزش جاری رہتی، کسی پر تبصرے سے اجتناب ضرور کرتے مگر ذہن میں کچھ چلتا رہتا۔ شعروشاعری سے شغف تو تھا ہی گاہے بگاہےکوئی گانا گنگنانے پر بھی اتر آتے۔موڈ میں ہوتے تو راہ جاتے کسی جانور کو مخاطب کرکے گفتگو کا آغاز کردیتے۔ اسی طرح پرندوں سے مکالمہ بھی بڑی خوشی سے کرلیا کرتے۔
سب سےزیادہ حیرت تب ہوتی جب وہ مسلسل خاموشی اختیار کئے رہتے، جس پر استفسار کرنا پڑتا کہ مزاج بخیرہیں، تو یہی جواب ملتا آج کچھ مضمحل ہوں۔ اعضاء کھنچے کھنچے ہیں، طبعیت بے کیف ہے۔
سیر کے دوران خاموشی اختیار رکھتے لیکن آنکھوں کی ورزش جاری رہتی، کسی پر تبصرے سے اجتناب ضرور کرتے مگر ذہن میں کچھ چلتا رہتا۔ شعروشاعری سے شغف تو تھا ہی گاہے بگاہےکوئی گانا گنگنانے پر بھی اتر آتے۔موڈ میں ہوتے تو راہ جاتے کسی جانور کو مخاطب کرکے گفتگو کا آغاز کردیتے۔ اسی طرح پرندوں سے مکالمہ بھی بڑی خوشی سے کرلیا کرتے۔
نعمکہتے ہیں دوست کی دوستی کا اندازہ مشکل اور سفر کے دوران ہوتا ہے، ان دونوں حالات میں انہیں بہترین رفیق کے طور پر پایا۔ خصوصاً کہیں گئے تو وہ ایک مشفق ہمسفر ثابت ہوئے۔وہ حقیقی معنوں میں بابے تھے،جنہیں رب نے دوسروں کی رہنمائی اور مدد کیلئے بھیجاہوتاہے۔ ایسے بندے دنیا سے رخصت ہونے کے بعداپنی موجودگی کااحساس دلاجاتے ہیں۔