نواز شریف اور عمران خان سمیت تمام سیاسی قوتوں کو لیول پلے انگ فیلڈ دینے کا مطلب کیا ہے، نجم سیٹھی کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب عمران خان کی سیاسی حکومت کو دیکھ کر آسانی لے ساتھ ہو جاتا ہے۔عمران خان نے ؎سیاست کو ایک نئی جہت بخشی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو حکومت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں لیکن جب خود حکومت میں ہوتے ہیں تو اپوزیشن کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ یہ کیا رویہ ہے؟ وہ شدید حد تک خود پسندی کا شکار ہیں۔ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے آئینی تقاضوں کی تکمیل کے مراحل تک کو مشکل بنادیا ہے۔ انہوں نے سیاسی فکر کے اختلاف کو نفرت اور دشمنی کے جذبے میں تبدیل کر دیا ہے۔
عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اس کے نتیجے میں اقتدار سے معزولی کے بعد سے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف جس طرح کی مہم جوئی کی ہے اور اس پر ریاست نے جس طرح کے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی ماضی میں کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) شوکت عزیز صدیقی اور اسپیشل کورٹ کے جج ارشد ملک (مرحوم) کے غیر مبہم بیانات کے باوجود سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو سنائی گئی سزا ہنوز معطل نہیں ہو سکی۔
یہ بھی پڑھئے:
صدر عارف علوی کی مصالحتی کوششوں کا مستقبل
الخدمت، ایک حیران کن تہذیبی انقلاب
ٹرانس جینڈر کون ہیں،کتنی اقسام ہیں،قانون سازی میں کیا خرابی ہے؟
دوسری جانب اگرچہ کہ ملک کی غالب اکثریت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے قول و فعل کے تضادات سے بخوبی واقف ہے لیکن ملک کی اسی سب سے بڑی عدالت سے جاری کردہ “صادق و آمین” کا سرٹیفیکیٹ اب تک واپس نہیں لیا گیا جس کے ذریعے انھیں ہر شک و شبے سے بالا قرار دے کر خود کو نجات دہندہ قرار دینے کا موقع ملا۔ ایسے ماحول میں ملک کے معروف اور سینیئر سیاسی تجزیہ کار گزشتہ کئی دنوں سے آئندہ انتخابات کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے LEVEL PLAYING FIELD کی اصطلاح بہت تواتر سے استعمال کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی بالادست قوّتیں قومی انتخابات آئندہ برس مارچ میں منعقد کروانے پر رضامند ہیں اور اسی سلسلے میں اگلے دو ماہ میں وفاقی حکومت اسمبلی تحلیل کردے گی۔ حکومت کے خاتمے کے بعد آئین کے مطابق زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے لیے عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو انتخابات منعقد کروادے گی۔ اس سے قبل ملک کی بالادست قوّتیں ملک میں ایسا ماحول مہیا کر دیں گی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرح مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی محترمہ مریم نواز صاحبہ کو بھی یکساں مواقع میسر ہوں گے کہ وہ سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کرسکیں۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تمام سیاسی فریقین کو برابری کی سطح پر مواقع فراہم کئے جائیں گے تاکہ تمام قومی رہنما عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنا انتخابی منشور قوم کے سامنے پیش کرسکیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی سطح پر پورا موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ ملک گیر سطح پر بھرپور انتخابی مہم چلا سکیں اور عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کرکے حکومت قائم کریں۔
اگلے انتخابات وہ خواہ جب بھی ہوں بنیادی طور پر دو ہی سیاسی جماعتوں یا فریقین کے مابین ہوں گے۔ ان میں ایک فریق عمران خان اور دوسرے فریق نواز شریف ہوں گے۔ یہ دونوں فریقین قومی سطح پر اپنی سیاسی حمایت کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔ اس انتخابی معرکے کا ایک فریق یعنی نواز شریف ملک کی سب سے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے سزا یافتہ مجرم ہوں گے۔ جو قید میں بیمار ہوجانے کے سبب عدلیہ کی اجازت سے ان دنوں بیرون ملک علاج کی غرض سے مقیم ہیں اور دوسرا فریق عمران خان سپریم کورٹ سے اپنے حق میں اعلیٰ سند کے ساتھ ملک کے طول و عرض کے دوروں میں مصروف ہے اور وہ فریق اول یعنی نواز شریف کو کبھی ڈاکو، کبھی مفرور تو کبھی اشتہاری کے الزامات و القابات سے مخاطب کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی انصاف پر مبنی برابری کی سطح ہوسکتی ہے؟
دوئم یہ کہ آج ملک میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے حمایتوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ اس حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل میں ابھی تقریباً گیارہ ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس آئینی مدت کو کیوں کسی کی خواہش پر قربان کردیا جائے؟ اگر یہ قربانی ملک کی طاقتور اشرافیہ کسی ایک فریق کو راضی کرنے کی غرض سے کروارہی ہے تو اس صورتحال کو کس طرح برابری کا ماحول قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہمیں اس کا اس طور بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں اس کے کیا معنی اخذ کئے جائیں گے۔
ہمارا معاشرہ جو منطق اور دلیل کی بنیاد پر اصولوں پر عمل پیرا ہونے کو کمزوری سے تعبیر کرتا ہے جبکہ طاقتور لوگوں کی بے اصولی سے متاثر ہوتا اور قانون شکنی کو پسند کرتا ہے۔ ایسے میں ہمارے لوگ عمران خان کو طاقتور اور نواز شریف سمیت باقی تمام رہنماؤں کو کمزور تصور کریں گے تو اس تاثر کے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ صورت حال کسی طور بھی برابری کی سطح تصور نہیں کی جا سکے گی۔
اگر ملک کی طاقتور اشرافیہ واقعتاً ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی لیڈرشپ کو لیول پلے انگ فیلڈ مہیا کرنا چاہتی ہے تو پھر اس کو نواز شریف اور مریم نواز کو دی گئی سزائیں اور ان پر لگائے گئے تمام الزامات کو واپس لینا ہوگا اور اسی طرح عمران خان کو دئیے گئے “صادق و آمین” کا عدالتی فیصلہ بھی واپس لینا ہوگا تاکہ معاشرے میں کسی ایک فریق کو دوسرے فریق پر اخلاقی برتری حاصل نہ ہو۔ اسی طرح موجودہ اتحادی حکومت کو اس کی آئینی مدت کی تکمیل کا موقع فراہم کرنا ہو گا تاکہ وہ اپنے کئے گئے سخت معاشی فیصلوں کے ثمرات سے قوم کو فیضیاب کرکے اپنی حمایت میں اضافہ کرسکے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں کسی ایک کے مضبوط اور دوسرے کے کمزور ہونے کے تاثر کی بھی نفی ہو سکے۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو سیاست میں سب کو یکساں مواقع حاصل ہونے کے دعوے کو درست تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر اسے جھانسہ ہی قرار دیا جائے گا۔ جس کے دام میں اب سیاسی قائدین کا پھسنا ممکن دیکھائی نہیں دیتا۔