نواز شریف ماضی میں کس سوچ کے حامل تھے، ان کے سیاسی سفر کا آغاز کہاں سے کن حالات میں ہوا، ان کی سیاسی سوچ وفکر میں کب اور کیسے تبدیلی واقع ہوئی، ان سے ماضی میں کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں یا نہیں ہوئیں، اس سب سے قطع نظر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اب وہ ملک کے سب سے تجربہ کار، مقبول، سنجیدہ اور پختہ سیاسی نظریات کے حامل جمہوریت پسند سیاست دان کے طور پر دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔
ان کی رائے میں آج کی تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں باعزت زندگی گزارنے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کا واحد راستہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ میں ہی پوشیدہ ہے۔ حقیقی جمہوریت، جس کے تحت ملک میں آئین، پارلیمنٹ اور قانون وانصاف کی حکمرانی قائم کی جائے، جہاں ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہو، جہاں عوام کو ناصرف اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہو بلکہ عوام کی اجتماعی دانش گاہ یعنی پارلیمنٹ کو ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہو اور ان پر من و عن عملدرآمد بھی کیا جاۓ، چنانچہ انہوں نے اپنے اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے طویل جدوجہد کی اور چند عملی اقدامات اٹھاۓ۔ ملک کی طاقتور اشرافیہ کو عوامی حکومت کا یہ طرز عمل ناگوار گزرا۔ پھر اس گستاخی کی وہی سزا تجویز ہوئی جو کسی بھی طاقتور کی نافرمان کے لیے ہمیشہ سے مقرر ہوتی رہی ہے۔ نواز شریف کو اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل کیا گیا۔ انہیں کئی بار قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن ان کے پاۓ استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ ان کے اس دلیرانہ طرزِ عمل پر ملک کے جمہوریت دوست عناصر اور عوام کی غالب اکثریت نے انہیں اپنی زبردست حمایت اور پذیرائی سے سرفراز کیا۔
نواز شریف نے اپنے نظریات کی کامیابی کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ وہ وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہوۓ، رکن اسمبلی منتخب ہونے سے نااہل کئے گئے، کسی بھی قسم کے سیاسی عہدے کے لیے نااہل کردئیے گئے، بیٹی سمیت جیل میں ڈال دیا گیا، مشرقی روایات سے جڑے ہونے کے باوجود بیمار بیوی کو بستر علالت پر چھوڑا جو بعد ازاں جاں بر نہ ہو سکیں۔ مزید یہ کہ ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے۔ انہیں ملک سمیت دنیا بھر میں بدنام کیا گیا۔ مختصر یہ کہ کسی بھی باعزت اور باوقار فرد کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا تھا وہ سب ہتھکنڈے نواز شریف کے خلاف استعمال کرلیے گئے لیکن دوسری جانب نواز شریف صبر و استقامت کا استعارہ کی صورت سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے رہے۔ وہ آج بھی عزم اور حوصلے کے ساتھ ملک کی طاقتور اشرافیہ کے سامنے ناصرف کھڑے ہیں بلکہ دباؤ میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ملک کی طاقتور اشرافیہ بھی اپنے بنائے ہوئے ہائیبریڈ نظام کے تحت حکومت میں لائی گئی جماعت کی نااہلی کے بوجھ تلے خود دھنستی جارہی ہے۔ اب وہ بھی ممکنہ طور ان سے جان چھڑانے کی تدبیریں تلاش کررہی ہے۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ ملک میں ازسر نو انتخابات کرواکر اقتدار مقبول سیاسی قیادت کے سپرد کر دیا جائے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے حالات میں آخر نواز شریف ملک کی طاقتور اشرافیہ سے اقتدار لے انہیں محفوظ راستہ کیوں فراہم کریں گے؟ منطقی طور پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ آج کے حالات میں نواز شریف کو اقتدار میں آنے کی کوئی جلدی نہیں ہوگی بلکہ شاید اب تو ان کی یہی کوشش ہوگی کہ موجودہ مصنوعی بندوبست کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جاۓ۔ وہ ماضی قریب میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناانصافی کا حساب بھی چکانا چاہیں گے کہ جس طرح ان کی مقبول عوامی حکومت کو بے بنیاد الزامات پر عدالتی فیصلے کے ذریعے ختم کیا گیا اور اس کے بعد قوم کے سروں پر عوام کی حمایت سے یکسر محروم موجودہ ہائیبریڈ نظام کے تحت اس نااہل حکومت کو لایا گیا۔ بعید از قیاس تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ہائیبریڈ نظام کے تحت بنائی جانے والی حکومت کو مزید مہلت دیں گے تاکہ یہ مصنوعی بندوبست کا ہمیشہ کے لیے قلع قمع کیا جاسکے۔
ہائیبریڈ نظام کے تحت لایا جانے والا موجودہ مصنوعی بندوبست کا منصوبہ کیونکہ دس برسوں کے لیے بنایا گیا تھا لہذا منصوبہ بندی میں یہ بھی شامل تھا کہ موجودہ حکومت کے ذریعے نواز شریف، ان کے اہلِ خانہ اور ان کی جماعت کو خوب بدنام کیا جائے گا یہاں تک کہ اسے قوم کے سامنے نفرت کا استعارہ بنا دیا جائے تاکہ اسے صفحہ ہستی سے مٹادینے پر کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ قوم خود اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور پھر موجودہ ہائیبریڈ نظام کو دس برس تک عوام کے سروں پر مسلط رکھا جائے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا چنانچہ اب جب کہ ملک معاشی طور پر مفلوج ہو چکا ہے، سفارتی سطح پر مکمل تنہائی کا شکار ہے، داخلی طور پر اپنے ہی پیدا کردہ مسائل میں گھرا ہوا ہے تو ان حالات میں اس کا سارا بوجھ خود مصنوعی بندوبست کرنے والوں کے کاندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس نئی صورت حال میں موجودہ حکومت اور ان کو اقتدار میں لانے والی مقتدر قوتوں کے مابین کھچاؤ پیدا ہو رہا ہے اور ان میں دن بدن دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
نواز شریف نے ستمبر 2019 سے ملک کی طاقتور اشرافیہ کے خلاف دباؤ بڑھانے کی پالیسی کا آغاز کیا تھا۔ جس کے بارے میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ چونکہ نواز شریف عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے علاوہ ملک کی بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات سے بخوبی واقف تھے۔ مزید یہ کہ انہیں IMF اور FATF کے مسائل اور اس کے نتیجے میں مستقبل کی دشواریوں کا بھی پورا احساس تھا۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد پاکستان پر پڑنے والا عالمی دباؤ بھی یقیناً ان کے پیشِ نظر ہو گا۔ یہی وہ اسباب تھے کہ جن کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف نے اپنے مقبول بیانیے ” ووٹ کو عزت دو” اور اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے اس میں شدت پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ جس میں مسلسل اضافہ کرتے جارہے ہیں اور دوسری جانب نواز شریف کو اپنے مطلوبہ اہداف میں کامیابی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔
نواز شریف نے ملک کی مقتدر اشرافیہ سے اپنی بارگینگ حیثیت مفاہمت نہیں بلکہ مزاحمت کی سیاست کے نتیجے میں پیدا کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی معاشی ابتری، عالمی تنہائی اور داخلی انتشار وہ بنیادی عوامل ہیں کہ جن کی بناء پر ملک کی طاقتور اشرافیہ موجودہ ہائیبریڈ نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنی ماضی کی غلطی کی تلافی کے طور پر ملک کو جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھانا چاہتی ہے۔
اگر صورت حال اسی انداز میں آگے بڑھتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ ناصرف نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی کی زبردست کامیابی ہے بلکہ درحقیقت یہ پاکستان کو درپیش پیچیدہ مسائل سے نکالنے کا واحد حل بھی ہے کیونکہ سیاسی استحکام، معاشی ترقی، عالمی وقار میں اضافہ اور قومی یکجہتی کا حصول صرف اور صرف ملک میں حقیقی جمہوریت یعنی ملک میں عوام کے حق حکمرانی کی ابتداء ، آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی، خود مختار عدلیہ اور ہر طرح کے دباؤ سے آزاد میڈیا کے نفاذ ہی سے ممکن ہے۔
ان حالات میں نواز شریف ملکی مسائل میں بری طرح پھنسی ہوئی مقتدر قوتوں کو باآسانی نکلنے کا راستہ کیوں دیں گے؟ ایسے میں نواز شریف ان سے گفتگو تو ضرور کریں گے لیکن اس بار بات وہ اپنی شرائط پر کرنا چاہئیں گے، جن میں سے ممکنہ طور پر چند مطالبات یہ بھی ہو سکتے ہیں۔
اول: ملک میں فی الفور انتخابات کرائیں جائیں۔
دوئم: موجودہ حکومت کا آئینی طریقے سے خاتمہ کرکے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی اکثریت سے نیا قائد ایوان منتخب کروایا جائے جو قومی انتخابات کے انعقاد کے لیے قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے عبوری حکومت کا تقرر کرواۓ۔
سوئم: انتخابات مکمل منصفانہ اور غیر جانبدارانہ منعقد کروائے جائیں، جس پر کسی فریق کو کوئی اعتراض نہ ہو۔
چہارم” نواز شریف کی تائید سے آنے والی حکومت، آئین میں اب تک واضح ہونے والے تمام مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ سے چند اہم نوعیت کی ترامیم منظور کروائے جس کے نتیجے میں آئین میں موجود سقم کو دور کیا جا سکے۔
پنجم: ملک کی طاقتور اشرافیہ امور مملکت عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرے کہ مستقبل میں عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس صرف اقتدار ہی نہیں بلکہ اختیار بھی ہو۔
ششم: اس پورے عمل کو عالمی ضامنوں کی مکمل حمایت حاصل ہو تاکہ مستقبل میں وہی دونوں فریقین کو ان کے عہد کی پاسداری پر قائم رکھ سکیں۔